چوراہے میرے شہر کے ( 1)

وہ مقام جہاں دو رستے ایک دوسرے کو کاٹ کر آر پارگزر جاتے ہیں اور ان کے اس باہمی قطع و اتصال سے چار رستے وجود میں آجاتے ہیں ؛چورنگی, چوک, چورستہ یا چوراہا کہلاتا ہے۔ کسی زمانے میں چوراہا ہنڈیا پھوڑنے کی جگہ بھی ہوا کرتا تھا اور لوگ بیچ چوراہے کے ہنڈیائیں پھوڑا کرتے تھے لیکن اب وہ رواج ختم ہوا، اب ہنڈیا مٹی کی نہیں ہوتی اس لیے ہنڈیا پھوڑ مقاصد کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ روایتی طریقے سے تیز رفتار اور قدرے پائدار بھی ہے۔
میرا آج کا موضوع اٹک شہر کے چوراہے ہیں۔ ہم چوراہے کو چوک کہتے ہیں۔ میں کوشش کروں گا کہ آپ کو سارے اٹک شہر کی اسی طرح سیر کراؤں شرط یہ ہے کہ آپ ساتھ ساتھ رہئے وہ جسے انگریزی میں Stay Tuned کہتے ہیں وہی میرا مطلب ہے۔
ہمارے شہر میں کچھ تو ایسے چوک بھی ہیں جو تین راستوں کے اتصال سے بنے ہیں لیکن چوک کہلاتے ہیں۔مثلاً تین میلا چوک ، بسال چوک ، گیدڑ چوک وغیرہ۔ تو شروع کرتے ہیں تین میلا چوک سے ہی، یہ چوک جو کہ چوک نہیں ، شہر کے شمال میں تین میل کے فاصلے پر ہوا کرتا تھا۔ اب بھی وہیں ہے لیکن اب شہر بھی وہاں تک پہنچ گیا ہے اور اس تین میل کو طے کرنے میں شہر کو سو برس سے زائد کا عرصہ لگا۔یہ تین راستوں کا اتصال ہے، ایک وہ سڑک جس سے ہم یہاں آئے ہیں یعنی اٹک شہر سے تین میلا تک، یہاں سے مغربی سمت جانے والی سڑک حاجی شاہ کے مقام پر جرنیلی سڑک سے جا ملتی ہے اور یہ اٹک سے مغرب کی طرف یعنی خیبر پختون خواہ اور تا بہ حد کاشغر بلکہ ماسکو، لندن اور اس سے آگے جانے کا راستہ ہے۔ مشرقی طرف والی قدیم سڑک قطبہ کے مقام پر جرنیلی سڑک سے ہم آغوش ہوتی ہے جبکہ اس کی جدید شاخوں میں سے ایک جھلا خان چوک سے ہوتی لارنس پور اور دوسری شاخ ہٹیاں کے قریب غازی بروٹھہ نہر کے پاس جی ٹی روڈ پر جا نکلتی ہیں۔یہ سڑکیں مشرقی اور شمالی سمت کے شہروں کو جاتی ہیں۔ شمال میں چین اور مشرق میں جاپان تک جایا جاسکتا ہے۔
پہلے یہاں صرف تین سڑکوں کا اتصال ہی تھا ،وقت گزرنے کے ساتھ ایک مخروطی چبوترہ بنایا گیا جس کا رقبہ اور شکل مختلف ادوار میں تبدیل ہوتی رہی ۔ اس وقت وہاں انتہائی خوبصورت یادگار ہے ، برقی قمقمے نصب ہیں ، درخت، پھولوں اور سر سبز گھاس سے سجے نہایت وسیع رقبے پر چبوترے اور دو رویہ سڑکیں موجود ہیں۔ اسی مقام کے آس پاس پرانا ریلوے اسٹیشن بھی تھا جس کے آثار اب نہین ملتے بڑے بوڑھے اسے پرانا ٹیشن بھی کہا کرتے تھے۔اس کا نام تین میلا اس دور کی یادگار ہے جب فاصلہ میلوں میں ناپا جاتا تھا۔ پھر نظام بدل گیا اور میل کی جگہ کلومیٹر نے لے لی۔ میل کلومیٹروں میں بدلے تو جناب عبدالقادرحسن نے لکھا تھا، ” میٹرک نظام اوزان کے رواج پذیر ہونے سے جہاں تاجر طبقے کو ڈنڈی مارنے اور فوری فوائد حاصل کرنے کے مواقع میسر آئے ہیں۔ وہاں کچھ لوگوں کو فوری نقصانات کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ اور ان لوگوں میں محض صارفین ہی شمار نہیں ہوتے بلکہ وہ مورخین بھی شامل ہیں۔ جو جذبات واحساسات کی تاریخ لکھتے ہیں اورعرف عام میں شاعر کہلاتے ہیں اورمیٹرک نظام اوزان ے رائج ہونے سے نقصان انہیں یہ ہوا ہے کہ اب وہ اس طرح کے شعر نہیں لکھ سکیں گے۔

طے کرے گی چکور کیا ماجد
چاند تک فاصلہ ہے میلوں کا

یوں سب کچھ بدل گیا نہ وہ چکور ہیں نہ چاند پر جانے کی دھن نہ وہ فاصلہ نہ شہر ، جی ! جس شہر کا تین میلا تھا وہ تو کیمبل پور تھا اب تو وہاں شہر کی طرف آنے والی سڑک کے کنارے سنگ میل پر لکھا ہے “اٹک شہر 5 کلومیٹر “؛ چلیے اٹک شہر چلتے ہیں۔

جاری ہے ……..

آغا جہانگیر بخاری
آغا جی

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

زراعت کی ضلعی مشاورتی کمیٹی اٹک کا ایک اجلاس

بدھ جنوری 6 , 2021
زراعت کی ضلعی مشاورتی کمیٹی اٹک کا ایک اجلاس ڈی سی آفس اٹک میں منعقد ہواہے،ڈپٹی کمشنر اٹک علی عنان قمر نے اجلاس کی صدار ت کی ہے
زراعت کی ضلعی مشاورتی کمیٹی اٹک کا ایک اجلاس

مزید دلچسپ تحریریں