نسلوں کا ادغام
آخر کبھی تو ایسا ہونا ہے کہ اس دنیا سے ظلم و زیادتی ختم ہو جائے۔ حقوق کا غصب ہونا بند ہو جائے اور امتیازات مصنوعی جاتے رہیں کہ جن کی وجہ سے ہماری نوع انسانی یقینا تباہی کے آخری دہانے پر جا پہنچی ہے تو پھر اس کے لیے ہم سب کو قربانی دینا پڑے گی۔ اگر ہم قوم پرستی کے جذبہ کے تحت مغربی جرمنی کے خوشحال معیشت کے لوگوں کو مشرقی جرمنی کے بدحال لوگوں کے ساتھ امتیاز مٹا کر ایک کر سکتے ہیں کہ جس سے آج سب لوگ برابر ترقی کر رہے ہیں ”مرحبا“۔ اگر دنیا بھر سے یہودی نسل کے محروم اور لٹے پٹے طبقات کو اسرائیل میں عام آباد ہونے کی اجازت دے کر ان کی صدیوں کی محرومیوں کو مذہب اور نسل پرستی کے نام پر دور کرسکتے ہیں ”واہ“۔ اگر نیلسن منڈیلا اپنی قوم کو صدیوں کی غلامی سے آزادی دلا کر آزاد لوگوں کے جیسے حقوق دلا سکتے ہیں ”کیا کہنے“۔ اگر کچھ غلام کیے جانے والے قدیم امریکی باشندوں کو انگریزوں سے آزادی ملنے کے بعد امریکہ جیسا بڑا ملک وجود میں آ سکتا ہے ”بہت خوب“ اگر چین جیسی کاہل اور نشئی قوم ترقی کے بام عروج پر قومیت کے نام پر مناسب لیڈر شپ کے ذریعے پہنچ سکتی ہے ”سبحان اللہ“ اور اس کے علاوہ اگردرجنوں اقوام محض قوم پرستی، وطن پرستییا تہذیب کے نام پر ترقی کر سکتی ہیں تو کیا”انسانیت کے نام پر“ کہ جو سب سے افضل خوبی ہے انسان کی، اور ایک نوع آدم کے نام پر کہ سب کے باپ آدمؑ تھے، خدا کے نام پر کہ ہم شاید90% لوگ کسی نہ کسی شکل میں خدا کو مانتے اور تسلیم کرتے ہیں۔ اس کی عبادت کرتے ہیں اس کی طاقت و قدرت کو ماننے اور اکثر جزا و سزاپہ بھییقین رکھتے ہیں سب انسان، سب قومیں، سب مذہب، سب مکتبہئ فکر، سب تہذیبیں ایک نہیں ہو سکتے۔آپ اس سوال کو بیچ میں نہ اٹھنے دیں کہ تہذیبیں کیا کہتی ہیںیا مذاہب کیا کہتے ہیں۔ بلکہ خالص انسانیت کے نام پر، ایک باپ آدمؑ ایکماں حوّا کے نام پر اور ایک خدا کے نام پر سب اکٹھے ہو جائیں۔ مل بیٹھ کر میری ان تجاویز کا جائزہ لیں اور اگر آپ کو یہ پسند آئیں، دل کو لگیں تو اس سلسلے میں کوئی بہت بڑی ملٹی نیشنل Organization بنائیں جسے تمام ممالک کی Supportحاصل ہواور اقوام متحدہ کے نہایت فعال ذیلی ادارے کی حیثیت رکھتی ہو۔ جسے امریکہ، چین اور تمام بڑے ممالک کی سرپرستی، آمادگی بلکہ ترجیحاتی آمادگی حاصل ہو اور یہ معاملہ اقوامِ عالم کے ایجنڈے میں سرفہرست ہو کہ:
بین الاقوامی آرگنائزیشن جینز و صلاحیتوں کے کراس کے لیے قانوناً یہ رہنما اصول اپنائے تا کہ دنیا میں امن، خوشحالی اور تعمیر و ترقی اجتماعی طور پر ممکن ہو سکے۔ ظلم مٹ جائے:
۱……قریب کے رشتوں میں شادیوں پر پابندی لگا دی جائے مثلاً فرسٹ کزنز میں شادیاں نہ ہو سکیں بلکہ بعد میں درجہ بدرجہ سیکنڈ اور تھرڈ کزنز میں بھی شادیاں نہ ہو سکیں۔
۲……امیروں کی غربا کے ساتھ اور غریبوں کی امرا کے ساتھ شادیاں کروائی جائیں۔
۳……صلاحیتوں اور ذہانتوں کو Catagerizeکیا جائے اور ان کا باہم کراس کروایا جائے غبی اور کم ذہین لوگوں کی شادیاں ذہین اور ذہین ترین لوگوں سے کروائی جائیں۔
۴……سرمایہ داروں کو پابند کیا جائے کہ مزدوروں اور لیبر طبقہ سے رشتہ قائم کریںیعنی غریب لڑکیوں سے شادیاں کریں۔
۵……کوئی طبقہ محض اپنے طبقے میں شادی نہ کر سکے بلکہ کسی بھی لحاظ سے کمزور، محروم، کم صلاحیتیافتہ طبقہ میں شادی کرنے کی نہ صرف اجازت ہو، بلکہ پابند بنایا جائے۔
۶……خاندانوں کا خاندانوں سے کراس کروایا جائے مثلاً ہمارے ملک پاکستان میں صوبائی عصبیتوں کو کم کرنے اور صلاحیتیں تقسیم کرنے کے لیے پنجابیوں، پٹھانوں، سندھیوں اور بلوچیوں کی کراس شادیاں عام کر دی جائیں۔
۷……ایک نسل کو دوسری نسل میں مکس کیا جائے۔
۸…… یورپین اقوام، امریکہ، براعظم افریقہ، انٹارکٹیکا، ایشیا، آسٹریلیا اور دیگر جزائر نیز مڈل ایسٹ کی مختلف نسلوں، گروہوں اور خاندانوں کو آپس میں مکس کر دیا جائے۔
۹……اگلی Stageپر اس بات کا خیال رکھا جائے کہ پہلے سے کسی قسم کا رشتہ جن دو اشخاص مرد و عورت میں اگر موجود ہو چاہے نزدیک کا یا دور کا تو ان کی شادی نہ ہو سکے۔
۰۱……چین، ہندوستان (مع پاکستان) اور یورپ و امریکہ و روس کی آبادی کو بشمول جاپان و کوریا وغیرہ خوب Well-Shakeکیا جائے
۱۱……ابتدا میں چند بڑی زبانیں دوسری Stage پر عربی، انگریزی اور چینی زبان آخر کار ایک زبان دنیا میں رائج کی جائے۔
نوٹ: اگر مذہب آڑے آئیں تو ان کی تعلیمات کو ملحوظ رکھا جاسکتا ہے مثلاً مسلمان ممالک اہل کتاب ممالک کی کثیر آبادی سے خواتین بیاہ کر لا سکتے ہیں۔ البتہ اس معاملہ میں رکاوٹ نہیں آنی چاہیے۔ جہاں پر Dead Lockہو تو اسے ایمرجنسی قوانین کے ذریعے توڑا جائے کیونکہ ایمرجنسی میں نہایت ناگزیر حالات میں حرام بھی خلال ہو جاتا ہے (جب تک کہ ایمرجنسی قائم رہے) یہ سب مذاہب کا مشترکہ قانون ہے بھی اور بنایا بھی جا سکتا ہے اور اس وقت دنیا میں جتنا ظلم ہے، خون بہہ رہا ہے،
انسانیت آہ و بقا کر رہی ہے اور ہر طرف چیخیں، سسکیاں، محرومیاں، بد معاشیاں، غنڈہ گردیاں ایک دوسرے کو صفحہئ ہستی سے مٹا دینے کے جذبات اور کرہئ ارض کواڑا دینے کی جتنی تیاریاں ہو چکی ہیں کہ بس کسی بھی وقت تھوڑی سی مضبوط غلط فہمی ٹکراؤ پیدا کر سکتی ہے پھر چند منٹوں میں اس زمین پر قیامت برپا ہو جائے گی کوئی ذی روح باقی نہیں بچے گا۔ تو بھلا اس سے بڑی ایمرجنسی اور کیا ہو سکتی ہے۔اس لیے جیسے تیسے ہو ان تجاویز پر عمل درآمد جلد از جلد ہونا چاہیے اور اس سلسلے میں کسی رکاوٹ کو کسی بھی صورت میں خاطر میں نہیں لانا چاہیے۔
ان شاء اللہ تعالیٰ نتائج:
جب ہم کوئی کام اللہ کا پاک نام لے کر اس ذات ِ قدیر سے تائید و حمایت کی بے پناہ دعائیں آنسو بہاتے ہوئے مانگ کر خلوص نیت سے شروع کر تے ہیں تو ہمیں امید ہوتی ہے کہ وہ ہستی لازوال ہمارے کام میں برکت ڈالے گی اور ہمیں اس یکتا کی حمایت حاصل رہے گی۔
چنانچہ اگر ہم ایسا سب کچھ کرنے میں کامیاب و کامران بفضلِ تعالیٰ ہو جاتے ہیں (چاہے اس پراجیکٹ کے مکمل ہونے پر کئی سال لگ جائیں) تو نتیجہیہ ہوگا کہ صلاحیت و ذہانت، دانش و آگہی، علم و فضل، فنون و مہارتیں، تہذیب و تمدن او ر رنگ و نسل سے متعلقہ جینز تقسیم در تقسیم در تقسیم کے عمل سے بار بار گزرتے رہنے کی وجہ سے ایسے افراد اور نسلِ انسانی بشرط ِ تائید ایزدی پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ جن میں گو کہ کچھ نہ کچھ صلاحیتوں، ذہانتوں، میلانات، رجحانات اور ترجیہات کا فرق تو ہو گا لیکنیہ قابلِ لحاظ نہ ہو گا اور ہم صدیوں سے انسانیت کے لیے جس عدل و انصاف اور برابری کی تگ و دو میں لگے ہیں وہ قائم ہو جائے گا۔ کوئی کسی کے حقوق اس لیے غصب نہ کر سکے گا کہ صلاحیتیں اور ذہانتیں ہر جگہ موجود ہوں گی جو اپنے حقوق کی حفاظت خود Automaticطریقہ سے کریں گی۔
اس کے علاوہ Internationalism قائم کرنا ہو گا تاکہ تمام نوع انسانی کے لیے برابری کی سطح پر آگے بڑھنے اور پھلنے پھولنے کے مواقع اور وسائل مہیا ہوں۔ نظریات، مذاہب اور تہذیبوں کو مدغم کر دیا جائے گا اور یقین جانیے کہ جب یہ مدغم ہو جائیں گے تو اصلی ازلی اور پائیدار دین خود بہ خود ابھر آئے گا۔ کیونکہ تمام ادیان کا مطمع نظر اور نکتہئ عروج یہی ہے۔ رہ گئی ایک خدا کی عبادت تو یہی ایک خدا کی عبادت کا صحیح راستہ ہے۔ پھر اگر کسی نے تعصب کی عینک اتار کر دیکھا تو اسے نظر آجائے گا کہ بائبل بھییہی کہتی ہے اور قرآن بھییہی کہتا ہے کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ باطل تو تھا ہی مٹنے کے لیے۔ یہ حز ب اللہ ہو گی جس سے حز ب الشیطان ہمیشہ کی طرح ٹکراتی رہے گی لیکن دنیا میں دو گروہ رہ جائیں گے مندرجہ بالا۔ اور بالآخر حزب الشیطان کو شکست ہو گی اور دنیا دینِ الٰہی (قرآن خالص) کے قوانینسے جگمگا اٹھے گی۔ (ایمان کے اجزا الفاظ کے ہیر پھیر اور اصطلاحات کے الٹ پھیر سے نکل کر یہی ٹھہریں گے واحد خدا، فرشتوں، آسمانی کتابوں سب نبیوں اور روزِ آخرت پر ایمان)۔
جب ہر طرف امن ہو گا توبنی نوع انسان ایک Teamبن کر اس کائنات کو فتح کرنے کے لیے نکلے گی:
جب دنیا سے جنگ و جدل کا خاتمہ ہو جائے گا تو جو اربوں ڈالر دفاع پر خرچ ہو رہے ہیں وہ تسخیر کائنات پر خرچ ہوں گے۔اللہ کی جو آیات کائنات میں بکھری پڑی ہیں ان کی Studyہو گی۔ ناکارہ انسان نہیں رہیں گے ہر انسان کار آمد ہو جائے گا تو وسائل میں بے پناہ اضافہ ہو گا۔ فیملی پلاننگ کی بجائے نسل انسانی کو بڑھانے کی ضرورت پڑے گی کیونکہ اتنی بڑی کائنات کو فتح کرنے کے لیے تو ہم بہت تھوڑے انسان ہیں۔ ابھی تو ہم نے زمین پوری فتح نہیں کی، سمندر کی سب گہرائیاں نہیں ناپی ہیں۔ دوسرے سیّارے اپنے قبضہئ قدرت میں نہیں کیے۔ ابھی تو ہم نے ستاروں کو سر کرنا ہے۔ جتنے انسان بڑھیں گے۔ اتنی صلاحیتیں بڑھیں گی۔ نئے نئے جینز عملی دنیا میں آئیں گے جو ابھی جینز کے بے انداز سٹور رومز میں محفوظ پڑے ہیں اور دنیا میں آکر اپنا آپ ظاہر کرنے کے لیے بے چین ہیں اور ہم سب صرف ان کے کیریئر ہیں جو انھیں اگلی نسلوں تک پہنچا رہے ہیں۔ یقین کیجیے بہتر ذہین اور باصلاحیت نسل کو جب خوب بڑھایا جائے گا تو اس میں جینیئس لوگ خوب زیادہ ابھریں گے کیونکہ کیا معلوم کہ کن جینز سے وابستہ انسان دنیا میں آکر کیاکیا ایجادات کر ماریں کہ عقلیں دنگ رہ جائیں۔ ابھی تو سائنس نے بہت ترقی کرنا ہے۔ محض یہ راکٹ لے کر تو ہم اپنی زمین کے سیاروں کو سر نہیں کر سکتے۔ ہمارے لیے روشنی کی رفتاربھیکم ہے، ہمیں خیال کی رفتار کی ضرورت ہے، ہم ماضی میں سفر کرنا چاہتے ہیں، مستقبل کے زمانے میں پل بھر میں پہنچ جانا چاہتے ہیں بلکہ ہم ماضی، حال اور مستقبل کو اکٹھا دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔ ہم زمان و مکان Time & Spaceسے باہر نکلنا چاہتے ہیں، ہم موت سے آگے جھانکنا چاہتے ہیں، ہم پیدائش سے پیچھے کی جانب سفر کرنا چاہتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ہم ہزاروں سال پیچھے جا کر دیکھیں کہ ہمارا ماضی در حقیقت کیا تھا۔ یقین جانیے وہ وقت دور نہیں جب انسان ہزاروں سال پہلے گزرے زمانے میں جب چاہے چلا جائے گا یا اگر زندگی اور مہلت خداوندی ہو تو ہزاروں سال آگے کا سفر کر آیا کرے گا۔ ابھی تو ہم محض کنویں کے مینڈک ہیں ابھی ہم کنویں سے باہر کدھر نکلے ہیں کہ یہ حسین و جمیل اور محیر العقول کائنات مشاہدہ کر سکیںیہ تو محض ان حواس خمسہ کی دنیا ہے ابھی تو دیگر دنیائیں باقی ہیں۔ جہاں ہم ان حواس سے رابطہ کٹنے کے بعد جا سکتے ہیں کہ جب ہمارے خوابیدہ حواس فعال ہو جائیں گے اور ان حواس کے آگے مزید حواس ہیں۔ لیکنیہ باب Topicیہاں پر ختم ہو گیا ہے۔
دعا: یا رب العزت تیرے پاک نام سے آغاز کیا اور اسی پر انجام کر رہا ہوں یا الٰہی اگر میری ان تجاویز کو تیری تائید حاصل ہے تو انھیں دنیا پر لاگو کرنے کے اسباب پیدا فرما دے اور اگر یہ تخریب لیے ہوئے ہیں اور تیری رضا و حکم ان کے ساتھ نہیں ہے تو انھیں شیطان اور اس کی ذرّیت سے محفوظ رکھنا اور ہمیشہ کے لیے مٹا دینا۔ آمین ثم آمین۔
مضمون نمبر2
روحانیات
اس ایک لفظ کو لکھ دینا جتنا آسان ہے اس پہ بحث کرنا اتنا ہی زیادہ دقیق اور مشکل ہے کیونکہ اس میں اتنا تنوع، ابہام، پیچیدگیاں، گہرائیاں اور تہہ در تہہ انکشافات ہیں کہ یہ کثیر جہتی موضوع جتنا بھی پڑھا، سمجھا اور لکھا جائے، بات تشنہ ہی رہتی ہے اور کیوں نہ رہے جب میرے خالق و حکیم، اور مطلق صفات بے حدو کنار کے مالک رب کریم نے کہا کہ ”اگر تمام سمندر سیاہی بن جائیں اور تمام درخت قلمیں بن جائیں پھر اتنے اور بھی شامل کیے جائیں تو اللہ کے کلمات کا احاطہ نہیں کر سکتے“ سبحان اللہ۔
جب صور ت حال یہ ہے تو پھر کیوں کر روحانیات(جتنا علم انسان کو ملا ہے) کو محدود کیا جا سکتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ انسان کا علم محدود ہی ہو گا لیکن انسان کے اعتبار سے یہ اتنا لا محدود ہے کہ اس کا احاطہ کرنا بھی شاید ناممکن ہی ہے (واللہ اعلم)۔
سائنس دانوں نے جب مادے کا تجزیہ کرتے کرتے ایٹم کو توڑا تو محض توانائی، روشنییا نور (نور کی بھی اقسام ہیں) باقی بچا، اور انھیں کہنا پڑا کہ مادے کی بنیاد بھی درحقیقت غیر مادی ہے اور اس سے آگے ہم اپنے سائنسی آلات کو استعمال کرکے موجودہ ذہنی سطح پر نہیں بڑھ سکتے۔ دوسری طرف الفاظ کے ظاہری مطالب تو جو ہیں سو ہیں لیکن ان کے باطنی اثرات کیا ہیں؟ کیسے ہیں اور کیونکر اثر انداز ہوتے ہیںیہ کوئی نہیں جانتا۔ ہندوؤں کے تنتر، منتر اور جنتر بھی اپنے اندر اثرات رکھتے ہیں۔ معلوم نہیںیہ قدیم زمانے کی مذہبی کتب سے اخذ شدہ ہیںیا انسانی فن کاریوں کے ایجادکردہ لیکنیہ اپنے اندر اثرات رکھتے ہیں۔ جنات، بھوت، پریت، مختلف قسم کی ارواح، پریاں، ان انواع کی بہت سی قسمیں بھی مخلوقات خدا ہیں، نیک اور بد ہیں، ان کی اپنی دنیائیں ہیں اور یہ ہماری دنیا میں تصرف بھی رکھتے ہیں اور ہم اپنی محنت و کاوش اور علم کی بدولت ان کی دنیا میں دخل اندازیاں بھی کرتے ہیں، جس کی گواہی قرآن دیتا ہے۔ یہ ہماری روح،ہماری ذات، ہمارے ذہن اور ہمارے جسم پر قبضہ کر سکتے ہیں، بلکہ ہمارے اعمال میں دخل اندازیاں کرتے ہیں، ہماری جنسی زندگی میں بھی فعال ہو سکتے ہیں بلکہ ہماری اولاد ان چیزوں سے یوں پیدا ہو سکتی ہے کہ بظاہر انسان کے بچے ہوتے ہیں لیکن باطنی طور پر ان اشیا کے بچے ہوتے ہیں۔ عجب ماجرا ہے، یہ چونکہ لطیف اجسام ہیں ہمارے مادی جسم میں نظر نہیں آتے لیکن ہماری روح، ہماری ذات میں نسل در نسل چلتے ہیں۔ یعنی اگر یہ کسی مردیا عورت کے ساتھ موجود ہیں تو اس میں سے جو اولاد ہو گی وہ اس مرد یا عورت کے ساتھ ساتھ ان کی بھی اولاد ہو گی۔ جس طرح سے ہمارے سپرم اور بیضہ مل کر Zygote/Ovum بن جاتا ہے حمل ٹھہر جاتا ہے، اس حمل میں ان کا لطیف حمل بھی شامل ہوتا ہے یعنییہ باقاعدہ ہمارے ساتھ جنسی زندگی بسر کرتے اور ہمارے اندر حلول کر کے ہمارے جن و انس کے مشترکہ بچے جو بظاہر انسانی بچے ہوتے ہیں پیدا کرتے ہیں۔ یہ کچھ بڑا ہی عجب معاملہ ہے ہم انھیں دیکھ نہیں سکتے لیکن
محسوس کر سکتے ہیں وہ بھی اگر تحقیق کریں، غور کریں تب ہی ایسا ہو سکتا ہے اور ہمارے اصل جیون ساتھی کے ساتھ بسا اوقات انھیں چبھن، جلن اور رقابت پیدا ہو جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے حلول شدہ فرد (مرد ہو یا عورت) اپنے جیون ساتھی سے کھچا رہتا ہے اس سے لڑتا جھگڑتا ہے، زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ اگر ان کی رقابت حد سے بڑھی ہوئی ہو تو گھر فساد کا مرکز بن جاتا ہے اور بسا اوقات نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ جس فرد سے متعلق ہوتے ہیں نہ اسے خبر ہوتی ہے کہ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے اور نہ ہی فریق مخالف جانتا ہے کہ یہ شیطانی کھیل کون کھیل رہا ہے وہ دونوں ایک دوسرے کو الزام دیتے اور جھگڑ جھگڑ کر پاگل ہو جاتے ہیں بعض اوقات مار پیٹ اور جان لیوا حادثات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں، کیونکہ آخر انسانی برداشت کی ایک حد ہے۔ لیکن اکثر لوگوں کی علیحدگی ہو جاتی ہے، ضروری نہیں کہ ہر کسی کے ساتھ یوں ہو بلکہ بعض مہذب جنات و پریاں، سائے اور بھوت اچھی فطرت کے مالک بھی ہوتے ہیں جو کسی قسم کی تکلیف نہیں دیتے بلکہ کبھی اپنے وجود کا احساس بھی نہیں ہونے دیتے۔ ”علم“ کے ذریعے انسان ان کو کنٹرول کر سکتا ہے لیکن صرف وہ لوگ جو اس فن کے ماہر، چلہ کش اور نڈر قسم کے لوگ ہوں اور وہ لوگ انھیں حسبِ طاقت ِعلم کنٹرول کرنے کے بعد ان سے مختلف قسم کے کام بھی لیتے ہیں۔ یہ کالے جادو، سحر، منتر، کئی قسم کے کالے تعویذ اور درجنوں عجیب و غریب اعمال کرتے ہوئے اثرات پیدا کرنا ان کے ذریعے ہو سکتا ہے بلکہ سننے میں آیا ہے کہ انسان کی عملی زندگی کے ہر کام پر اثر انداز ہو سکتے ہیں (چاہے مختصر عرصے کے لیے اثر ہو یا طویل المیعادی اثر ہو)۔ حتیٰ کہ صحت مند لوگوں کو بیمار کرنا، اذیت دینایا ہلاک تک کر دینا۔ ان ہی چیزوں کے توسط سے بے رحم لوگ اور درندہ صفت ہوس کے پجاری ایساکرتے ہیں۔ آج کل ہمارے جیسے ملکوں میں اس طرح کی بے شمار دکانداریاں ہیں اور کاروبار کھلے ہوئے ہیں۔ گو کہ ان میں 90% لوگ تو خالص فراڈ کر رہے ہیں لیکن باقی 10% لوگ ان کالے کرتوتوں کے ماہر بھییقینا موجود ہیں۔ یہ شیطان کی فوج کے سپاہی اور ہتھیار ہیں گو کہ شیطا ن کے پاس اس کے علاوہ بھیبے شمار، ہتھیار اور طریقے ہیں ان کو ورغلانے اور جہنم میں پہنچانے کے، لیکن ان میںیہ مندرجہ بالا صورتِ حال بھی شامل ہے۔ یہ سب کچھ تو اپنی جگہ ہے (اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسے شیطانی خیالات و اعمال سے پناہ عطا فرمائے) لیکن اللہ کریم نے وعدہ فرمایا ہے کہ جو میرے بندے ہوں گے شیطان ان کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے گا اور یہ ایک حقیقت ہے کہ شیطان ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا لیکن اب اس دور میں اس نوعیت کے ایماندار، متقی اور پرہیز گار لوگ کہ جن کا اللہ پہ نہ صرف کامل ایمان و بھروسہ ہو بلکہ زندگیاں بھی عین قرآن کی عملی تصویر ہوں شاید لاکھوں میں چند ایک ہوں۔ ہر کسی میں باوجود نیکی کا رجحان رکھنے کے بے شمار عیوب، خرابیاں اور کج عملیاں ہیں۔ کون ہے جس کا دامن گناہ سے پاک ہے۔ لہٰذا س سے شیطان کو کُھل کھیلنے کے عام مواقع میسر ہیں اور اسے روکنا یا بند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
جنات کی دنیا:
یہاں اگر مزید بحث کرتے ہوئے یہ بتا دیا جائے کہ ان جنات کی دنیا کس نوعیت کی ہے تو یہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ معلوم ہوا ہے کہ ان کی بھی اپنی ایک دنیا ہے بالکل ہماری دنیا کی طرح ان میں بھی مرد و خواتیں ہیں، شادیاں ہیں، بچے ہیں، کاروبارِ حیات ہے، کھانا پینا،اوڑھنا بچھونا، خوشی غم، زندگی موت، نیکی بدی، امارت غربت، طاقت کمزوری، صحت بیماری، ڈاکٹر طبیبیعنی تمام پیشے سے وابستہ لوگ، حادثات و آفات، جنگ و جدل اور امن و امان سبھی کچھ ہے حتیٰ کہ مختلف عقائد و مذاہب بھی موجود ہیں۔ بہت پرہیزگار اور عبادت گزار بھی ہیں اور شیطان کے ہاتھ میں آلہئ کار بھی ان کی انواع و اقسام بھی ہیں، کوئی دیو ہیکل اور عفریت نما ہیں تو کوئی پستہ قد اور بونے ہیں، کوئی نہایت بد صورت اور قبیح ہیں اور کوئی حسن کے شاہکار خصوصاً پریوں کے حسن کو تو بقول شاعر ”دیکھئے تو دیکھتے رہ جائیے“ کے مصداق مثالی حیثیت حاصل ہے۔ دیو، بھوت، پریت، ڈائنیں، سایہ، آسیب، پچھ پیری سمیت جنات کی درجنوں نسلیں اور ہزاروں قسمیں ہیں۔ان کی طاقت اور صلاحیت اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ یہ اللہ معاف فرمائے معاملات خداوندی میں دخل اندازی کی کوشش بھی کرتے ہیں (کیونکہ انھیں قیامت تک مہلت دیگئی ہے) تاہم نبیئ کامل حضرت محمد ﷺ کے زمانے سے انھیں آسمانی معاملات میں کچھ حدود کا پابند کر دیا گیایہ اس سے بڑھتے ہیں تو خدائی لاٹھی ان کے سر پر پڑتی ہے اور یہ اس سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ آپ اندازہ کیجیے کہ یہ ہمارے خیالات پر بھی اثر انداز ہو کر سو طرح کے وسوسے ڈال دیتے ہیں۔جن خیالات سے انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیے جاتے ہیں اور ایجادات کی جاتی ہیںیہ انھیں منفی وساوس کے ذریعے تباہی و بربادی کا سامان بنا دیتے ہیں۔ ایٹم اگر تھیوری کی شکل میں ایجاد ہوا تو انسان کی فلاح و بہبود کے لیے، ٹیلی فون سہولت کے لیے، ٹیلی ویژن و کمپیوٹر علم کے حصول اور صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے، دوائیاں بیماریوں سے شفاء کے لیے دانش و عقل دانشمندیاں اور ذہانتیں بکھیرنے کے لیے کہ یہ سب اور اس طرح کے بے شمار کام انسان کی زندگی کو جنت بنا دیں گے لیکن شیطان نے اپنی فوج ظفر موج کے ذریعے ہر پاک و نیک خیال میں مہلک وسوسوں اور اندیشوں کا زہر بھر کر سب کچھ کو زہریلا بنا دیا۔ (پھر یاد کر لیجیے کہ شیطان کے پاس ان کے علاوہ بھی بہت ہتھیار ہیں) تو یہ تو تھا جنوں کا استدراج جو کہ حقیقت کا عشر عشیر ہے جو محض مثال کے لیے بیان کیا گیا ہے اور اس بات کی گواہی بھی قرآن پاک دیتا ہے ”اے جنو اور انسانو تم نے دنیا میں ایک دوسرے سے بہت کام لیے اب حساب کا وقت ہے“۔ (خیال رہے کہ میں جو بھی قرآنی آیات کے تراجم پیش کر رہا ہوں، ماقبل یا مابعد پیش کروں ان کے الفاظ ہو بہو قرآن کے نہ ہونگے لیکن معنی و مطالب وہی ہونگے تاکہ قرآن کی بات سمجھ آ جائے)۔
ایمان کیا ہے؟
لفظ ایمان کی بہت بہت شاندار، تفصیلی، دقیق اور لغوی و معنوی تعریفیں اور تحقیقات ہمارے علما نے اپنے علم اور زور قلم سے بلکہ جذبہئ ایمانی سے اپنے اپنے وقتوں میں کی ہیں، میں کوئی رسمی مذہبی عالم نہیں ہوں نہ لغت کا ماہر ہوں اور نہ عربی دانی
کا دعویٰ ہے۔ لیکن علم میرا شوق ہے جو کسی نے لکھا اسے پڑھا اور اس میں سے کام کے نکتے الگ کر لیے۔ بس یہ صرف اور صرف اللہ کا فضل و کرم ہے کہ جو بات کی تہہ تک لے جاتا ہے ورنہ میرے اندر کوئی کمال نہیں ہے۔
جب ہم ایمان کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہو تا ہے یقینیایقینِ کامل، علما نے اس کے درجے بھی بیان کیے ہیں مثلاً علم الیقین،حق الیقین اور عین الیقین وغیرہ، بہر حال اصل شے یقین ہے اب آئیے ذرا معلوم کریں کہ یقین کسے کہتے ہیں۔
(i) آپ کو دو آدمیوں نے پکڑ لیا وہ آپ کو بپھرے ہوئے دریا میں پھینکنا چاہتے ہیں جبکہ آپ تیرنا بالکل نہیں جانتے، آپ خود کو چھڑانے اور صورتِ حال سے دور بھاگنے کے لیے پورا زور لگاتے ہیں کہ کاش آپ دریا میں نہ گریں کیوں؟ اس لیے کہ آپ کو یقین ہے کہ دریا میں گروں گا تو ڈوب کر ہلاک ہو جاؤں گا۔
(ii) آگ جل رہی ہے کوئی آپ کو ایک لاکھ ڈالر دیتا ہے کہ اس میں بیٹھ جاؤ لیکن آپ کو یقین ہے کہ ایک منٹ بھی اس میں گزرا تو جل کر خاک ہو جاؤں گا آپ بالکل نہیں مانتے کیوں؟ کیونکہ نتائج کا یقین ہے۔
(iii) آپ کو زہر دیا جاتا ہے کہ کھا لو بہت مزیدار ہے آپ جانتے ہیں کہ یہ مہلک ہے میرے خون میں ملتے ہی مجھے ہلاک کر ڈالے گا آپ انکار کر دیتے ہیں کبھی نہیں کھاتے یہیقین ہے۔ اسی طرح کی لاکھوں مثالیں دی جا سکتی ہیں کہ آپ یقین کی موجودگی میں وہ کام نہ صرف یہ کہ کرتے نہیں ہیں بلکہ اپنی اولاد اور حلقہئ احباب کو بھی اس سے منع کرتے ہیں۔
خدا پر یقین:
اب ذرا سوچیے کہ آج کل مسلمان کیا اور دیگر مذاہب کیا80%سے 90% لوگ خدا پر ایمان رکھتے ہیں کم از کم اہل کتاب، یہودی و عیسائی اور مسلمانوں کے تو عقائد بھی اگر تعریف معنوی کی جائے تو ایک جیسے ہیں کہ خدا موجود ہے اس کے احکامات آسمانی کتب میں موجود ہیں۔ ہمیں اس دنیا میں کیسے زندگی گزارنے کے احکامات ملے ہیں۔ خدا کی خوشنودی و رضا کس بات میں ہے، اللہ کس شے میں انسانیت کی فلاح و بہبود کا حکم دیتا ہے اور کس بات سے سختی سے منع کرتا ہے۔ جنت کے مستحق کیسے لوگ ہونے چاہییں اور اہل دوزخ کن صفات کے مالک ہونگے۔ کیا بہت ہی تفصیل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی صفات، طاقتیں، ہیبتیں، پکڑ و جکڑ اور رحمت و کرم کو بیان نہیں کیا گیا؟ اللہ تعالیٰ قرآن ِ خالص میں تو یوں کھول کھول کر انسان کی حقیقت اور اپنی بے شمار قدرتوں کو بیان کرتا ہے کہ انسان خوب جان لیتا ہے کہ اگر اس قادرِ مطلق کے حکم پر عمل نہ کیا تو اگلا سانس بھی اگر اللہ کو منظور نہ ہوا تو کیسے آئے گا، آخر وہ ہماری شاہ رگ (رگِ جاں) سے بھی زیادہ قریب ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس اور صد ہزار افسوس کہ ہمیں ایمان کے دعووں کے باوجود، مذہبی عبادات کرنے کے باوجود، داڑھیاں رکھنے کے باوجود اور نمازوں سے پیشانی پر محرابیں سجانے کے باوجود عمل بمطابق حکم ِ ربانی کی توفیق نہیں ہوتی، ایسا کیوںکبھی جھوٹ نہیں بولا ہے؟ کیا ہم نے کسی پر کبھی ظلم نہیں کیا ہے؟ کیا ہم نے کسی پر کبھی چھوٹی بڑی تہمت، الزام یا Blameنہیں لگایا ہے؟ کیا ہم نے ہمیشہ حلال رزق کمایا ہے؟ کیا ہم نے کبھی غیبت نہیں کی ہے، چغلی نہیں کھائی ہے، کسی کی ٹانگ نہیں کھینچی ہے؟ کیا ہم نے کبھی کسی کا مال یا حق نہیں کھایا ہے؟ کیا ہم نے کبھی کسی کو ظالم یا ظلم سے چھڑایا ہے؟ کیا ہم نے کبھی کسی غریب، محروم، دکھی، بیمار، مریض، بیوہ اور یتیم کی مدد کی ہے؟ کیا ہمارے اندر قربانی کا جذبہ ہے؟ کیا ہم لوگوں میں بیٹھ کر بہتر چیز اپنی پلیٹ میں نہیں انڈیللیتے؟ کیا ہم ویگنیا پبلک ٹرانسپورٹ پر بیٹھتے وقت اچھی، ہوادار اور دھوپ بارش سے محفوظ سیٹ تلاش نہیں کرتے؟ کیا ہم انتخاب کے وقت اچھی چیز نہیں چھانٹ لیتے؟ کیا ہم اپنے پیسوں کو تجوریوں میں محفوظ نہیں کرتے؟ مذہب زدہ طبقہ2.50فیصد زکوٰۃ وہ بھی ہیرا پھیری سے دے کر باقی سارے مال کو پاک سمجھ کر سرمایہ دار بننے کی کوشش نہیں کرتا؟ اللہ قرآن میں فرماتا ہے کہ اپنی ضرورت سے زائد سب کا سب اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ کیا سرمایہ داری اسلام میں جائز ہے؟ کیا ہم رزق پر دسترس حاصل کرنے کے بعد یا وسائل پر قبضہ کرنے کے بعد انھیں عام لوگوں میں تقسیم ہونے کی اجازت دیتے ہیں؟ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہماری ایک فیکٹری، مل، کارخانہ، پٹرول پمپ، فرم، کمپنی، وسیع جائیداد، بینک بیلنسیا سونے چاندی ہیرے جواہرات کے ڈھیر ہیں تو کسی غریب کے پاس دو وقت کی روٹی کیوں نہیں ہے؟ اس کی بیٹی بیماری سے کیوں مر گئی؟ اس غریب کی بیوی کو ٹی بی کیوں ہو گئی؟ فلاں کا بچہ معذور کیوں ہو گیا؟ فلاں کے گھر میں فاقہ ہے؟میرے پڑوسی کا کیا حال ہے؟ فلاں کی بچیاں بن بیاہے کیوں بوڑھی ہو گئیں؟ فلاں کے جنازے میں چند لوگ بھی نہیں اور لاٹ صاحب کے جنازے میں اتنا جمِ غفیر کیوں ہے؟ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ مزدور کڑی دھوپ میں کام کر کے بھوکا، حسرت زدہ،، محرومیوں کی ہزار داستان اور بیوی بچوں کے سامنے شرمندہ کیوں ہے؟ کیا کبھی کسی نے سوچا کہ کسان کا جھونپڑا کچا کیوں ہے؟ کیا کبھی سوچا کہ محنت کش، ہنر مند اور چھوٹا پیشہ ور کیوں نسل در نسل حسرت کی تصویر ہے؟ کیا کبھی معلوم کیا کہ جرم کیوں ہوتے ہیں، چوریاں کیوں کی جاتی ہیں، ڈاکے کیوں پڑتے ہیں اور یہ کہ گناہ پہ کیسے مجبور کیا جاتا ہے؟ کیا کسی کو خیال آیا کہ غریبوں کو انصاف کیوں نہیں ملتا ہے، عوام کچہریوں میں دھکے کیوں کھاتے ہیں، پولیس غریبوں کو رگڑے کیوں لگاتی ہے اور یہ کہ غریب کی بیٹی کو غنڈے کیوں سر بازار اٹھا لے جاتے ہیں؟ کمزور کیبیوی پر ہر طاقت ور کی بدنگاہی کیوں ہے؟ بیمار بھائی کی بہن کیوں روزگار کی تلاش میں عزت گنوا بیٹھی؟ کیا سال بھر میں ایک بکرا ذبح کر دینے سے قربانی کے مقاصد حاصل ہو جاتے ہیں؟ کیا اس صورتِ حال میں حج قبول ہو جاتے ہیں؟ کیا روزے داروں کے روزے اس ظلم و بربریت کی دنیا میں رب کے ہاں پہنچ رہے ہیں کہ ادھر تو افطاری پہ انواع و اقسام کے کھانے اور پھل موجود ہیں کیونکہ 2.50فیصد زکوٰۃ دے کر بے غم ہیں اور اُدھر غریب کے دستر خوان پر بھوک بھنگڑے ڈال رہی ہے؟ غریب دال روٹی سے روزہ رکھتا اور اسی سے افطار کرتا ہے اور دن بھر جس سرمایہ دار، مالک یا آقا کے ہاں کام کرتا ہے وہ کئی قسم کے مرغوبات سے روزے کو سحرو افطار میں سیراب کرتا ہوتا ہے؟ کیا ہم نے
ہے تو کیا خدا راضی ہو گیا؟ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ محنت کش کا بچہ کیوں تعلیم حاصل نہیں کرتا جبکہ ہمارے بچے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں؟ کیا جو خدا کو مانتے ہیں ان کے ہاں تعلیمی نظام کے اتنے معیار ہو سکتے ہیں جو ہمارے ہاں ہیں؟ کیا ایمان رکھنے والوں کے معاشرے میں اتنی معاشی اور معاشرتی اونچ نیچ ہو سکتی ہے جتنی ہمارے معاشروں میں دیکھنے کو مل رہی ہے؟ کیا غلط سفارش جائز ہے؟ کیا رشوت لییا دی جا سکتی ہے؟ کیا محل اور جھونپڑے اللہ کی اس ایک زمین پر بن سکتے ہیں؟ کیایورپ کا خدا اور ہے؟ امریکہ کا خدا اور ہے؟ تھرڈ ورلڈ اور مشرق وسطیٰ کسی اور خدا کے پیدا کردہ خطہئ زمین ہیں؟ کیا افغانستان، کشمیر، فلسطین، ایتھوپیا، عراق، افریقہ اور دنیا بھر کے دیگر خطہئ ظلم و جبر کے باسیوں کی رگوں میں کوئی اور خدا خون دوڑا رہا ہے ان کے خون کی ندیاں اسی خداکے ماننے والے بہا رہے ہیں؟ اگر لکھتے جاؤ تو ایک خدا کو ماننے والوں کے ایمان کی مثالیں کبھی ختم نہ ہوں حتیٰ کہ ایک خدا اور ایک رسول ﷺ اور ایک کتاب ِ الٰہی کو ماننے والوں کی مثالیں بھی بے شمار ہیں، لیکن قلم کہاں تک لکھے اور دل کہاں تک ان ایمان داروں کے ایمان کو برداشت کرے۔
(جاری ہے)
ترتیب و پیشکش : محمد رفیع صابر
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔