اردو سے متعلق بھارتی سپریم کورٹ کا تاریخ ساز فیصلہ
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
بھارتی سپریم کورٹ نے اردو زبان کے حق میں ایک ایسا فیصلہ صادر کیا ہے جو نہ صرف اردو زبان و ثقافت کے تناظر میں اہمیت کا حامل ہے بلکہ بھارتی معاشرے کے لسانی تنوع اور رواداری کی آئینی بنیادوں کی بھی حفاظت کرتا ہے۔ تفصیلات کے مطابق مہاراشٹرا کے ضلع اکولا کی پاتور میونسپل کونسل کی عمارت پر اردو زبان کے سائن بورڈ کے خلاف سابق کونسلر ورشتائی سنجے باگاڑے کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے اردو زبان کو اس کا آئینی اور ثقافتی مقام واپس دلا دیا ہے۔
اردو زبان کی تاریخ برصغیر پاک و ہند کے دل میں صدیوں سے پیوست ہے۔ دہلی اور دکن کے میل جول سے پیدا ہونے والی یہ زبان صدیوں تک ادب، شاعری، موسیقی اور سرکاری مکاتبت کی زبان رہی۔ مغلیہ دور سے لے کر نوآبادیاتی دور تک اردو نے برصغیر میں ایک مشترکہ لسانی شناخت قائم کی، جو ہندو مسلم یکجہتی اور گنگا-جمنی تہذیب کی علامت بن گئی۔ تاہم نوآبادیاتی حکمرانی نے اس لسانی ہم آہنگی کو مذہبی شناخت میں تقسیم کر کے اردو کو صرف مسلمانوں کی زبان کے طور پر پیش کیا تھا اور یہی تصور آزاد بھارت میں بھی کئی حلقوں میں موجود رہا۔
جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس کے ونود چندرن پر مشتمل دو رکنی بینچ نے واضح الفاظ میں فیصلے میں کہا کہ "زبان کسی مذہب کی نہیں ہوتی، بلکہ ایک قوم، علاقے اور عوام کی ہوتی ہے۔” اس عدالتی میں صرف لسانی مساوات کی وکالت نہیں کی گئی بلکہ ان تمام تعصبات کو بھی چیلنج کیا گیا جو زبان کو مذہب سے جوڑتے ہیں۔
عدالت عظمٰی نے قرار دیا کہ اردو اور مراٹھی دونوں کو بھارتی آئین کے تحت برابر حیثیت حاصل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مراٹھی مہاراشٹرا کی سرکاری زبان ہے، مگر اردو کو اس ریاست میں بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور یہ عوامی رابطے کی ایک موثر زبان ہے۔ پاتور میونسپل کونسل کے اردو سائن بورڈز کا مقصد عوامی ابلاغ ہے نہ کہ کسی مذہبی فوقیت کا اعلان۔
سپریم کورٹ نے ایک اہم نکتہ اٹھایا کہ اردو بھارت کی چھٹی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے جو تقریباً تمام ریاستوں میں کسی نہ کسی حد تک موجود ہے۔ عدالت نے بمبئی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کی بھی توثیق کی کہ اردو زبان کا استعمال غیر قانونی نہیں بلکہ قابل جواز اور آئینی ہے۔
یہ فیصلہ نہ صرف اردو بولنے والے عوام کے لیے ایک نفسیاتی و قانونی تقویت کا باعث ہے بلکہ یہ لسانی جبر اور تعصبات کے خلاف ایک عدالتی اعلان ہے۔ عدالت کا یہ جملہ کہ "زبان مذہب نہیں ہوتی” محض قانونی نکتہ نہیں بلکہ ایک فکری و تہذیبی بیان بھی ہے۔
اردو صرف ایک زبان نہیں بلکہ برصغیر کی مشترکہ تہذیب کی روح بھی ہے۔ غالب، میر، اقبال، فیض اور پروین شاکر جیسے عظیم شعراء کی زبان ہونے کے ناطے یہ ایک فکری اور جذباتی ورثہ ہے۔ اردو کا دائرہ صرف مسلمانوں تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا تہذیب ہے جو مختلف مذاہب، قوموں اور علاقوں کو جوڑتا ہے۔
یہ فیصلہ بھارت میں اردو زبان سے متعلق مستقبل کی قانونی اور سماجی پالیسیوں کے لیے ایک اہم نظیر ثابت ہو سکتا ہے۔ بھارتی آئین کے سیکولر اور کثیر الثقافتی اصولوں کے تحت تمام زبانوں، خصوصاً اقلیتی زبانوں کو تحفظ دینا ضروری ہے۔ اردو کے خلاف امتیازی رویے نہ صرف غیر آئینی ہیں بلکہ بھارتی معاشرے کے کثیراللسانی خدوخال کے بھی منافی ہیں۔
عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ اس امر کی دلیل ہے کہ زبانوں کو مذہبی، نسلی یا سیاسی خول میں مقید نہیں کیا جا سکتا۔ اردو، ہندی، مراٹھی، تمل یا بنگالی، ہر زبان اپنے بولنے والوں کا آئینی حق اور تہذیبی سرمایہ ہے اور ان کا تحفظ قومی وحدت کے لیے لازمی ہے۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اردو زبان کی بقا، ترویج اور ثقافتی وقار کی بحالی کی جانب ایک تاریخی قدم ہے، جو آنے والے وقتوں میں بھارتی عدالتی تاریخ میں ایک روشن مثال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |