( ” تم اک گورکھ دھندہ ہو "
جیسا شہرہ آفاق صوفیانہ کلام لکھنے والا درویش صفت ، فقیر منش ، مگر گمنام شاعر )
تحقیق و تحریر :
سیدزادہ سخاوت بخاری
بات تاج محل آگرہ کی ہو یا لال قلعہ دلی کی ، ذکر دلی کی جامع مسجد کا ہو یا بادشاہی مسجد لاھور کا ، مورخین سے لیکر زائرین ( Visitors ) تک کے منہ سے ، ایک ہی جملہ نکلتا ہے ، واہ ، کیا ذوق تعمیر تھا مغل بادشاھوں کا ، کیسی کیسی عالی شان عمارتیں تعمیر کرگئے ۔
اگرچہ تاریخی طور پر یہ بات درست ہے کہ یہ تمام پرشکوہ ( Majestic ) عمارتیں مغلوں ہی نے اپنے اپنے دور اقتدار میں تعمیر کرائیں اور رہتی دنیاء تک اپنے حسن ذوق ( Aesthetics ) کے جھنڈے گاڑ گئے لیکن ان عمارات کی تعمیر سے لیکر آج تک کسی تاریخ نویس ( Historian ) یا زائر ( Visitor ) سے آپ نے ان شاھکار عمارات کے نقشہ نویس ( Architects ) , راج مستری اور اس عظیم الشان ڈھانچے کے مغلائی ذوق اور خیال کو حقیقت کا روپ دینے والے مزدور کا نام نہیں سنا ہوگا ۔ اسے ستم ظریفی نہ کہا جائے تو اور کیا کہیں ۔
بات فن تعمیر تک ہی محدود نہیں بلکہ آپ فلم ( Movies ) اور ڈراموں کی تشکیل پہ ہی غور کرلیں ، شہرت اور ناموری فقط ، اداکاروں اور اداکاراوں کے حصے میں آتی ہے ۔ ھیرو اور ھیروئن کروڑوں کمانے کے ساتھ ساتھ شائقین کے دل و دماغ پہ بھی چھا جاتے ہیں لیکن وہ شخص جس نے کسی ڈھابے ( Tea Stall) پر بیٹھ کر یہ کہانی تحریر کی ، اسے پراثر گیتوں سے سجایا ، بلکہ یوں کہئے کہ جس نے سب سے پہلے یہ سپنا دیکھا ، اس کے حصے میں چند سکوں کے علاوہ کچھ نہ آیا ۔ وہ گمنام ھیرو ، گمنام ہی رہا ۔
برصغیر ہند و پاک مشرقی موسیقی کا گھر ہے ۔اس سرزمین نے ابتک ایسے سینکڑوں گائک ( Singers ) پیدا کئے کہ جنہیں قدرت نے لحن داؤدی
( Tune of Dawid )
سے نوازا ۔ یہاں اس بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ دیگر انبیاء کرام کی طرح اللہ نے حضرت داود علیہ السلام کو معجزے کے طور پر ایسا گلا ( Throat ) عطاء کیا تھا کہ جب آپ کلام الہی کی تلاوت کرتے تو پرندے بھی زمین پر اتر کر اسے سنتے ۔ اسقدر سوز اور موسیقی تھی ان کی آواز میں ۔ اسی سے لحن داؤدی ( Tune of Dawid ) کی اصطلاح ( Term ) وجود میں آئی ۔
ذکر ہورہاتھا برصغیر کے گلوکاروں کا ، تو عرض ہے کہ اردو ، ہندی ، پنجابی اور دیگر زبانوں کے ابتدائی دور کے گیت ، غزل ، ٹھمری ، قوالی وغیرہ جب ریڈیو پر یا فلم اور تھیٹر میں سننے کو ملتے تو ، صرف اتنا کہ دینا کافی سمجھا جاتا تھا کہ اب آپ کے سامنے زھرہ بائی انبالے والی یا کندن لال سہگل یا عبدالرحمن کانچ والا یا شمشاد بیگم یا بڑے غلام علی خاں صاحب ایک گیت ، غزل ، قوالی یا ٹھمری وغیرہ پیش کرینگے ۔
ابتدائی دور تھا ۔ سامعین کے لئے گلوکاروں کے نام اور گایا جانیوالا کلام ہی کافی ہوتا ۔
پیش کنندہ ( Presenter ) سے لیکر سامعین تک نے کبھی اس طرف توجہ ہی نہ دی کہ جو کلام گایا جارہا ہے وہ کون سے شاعر کا ہے ۔ بہت بعد میں کسی شخص کے ذہن میں یہ بات آئی کہ جب کوئی نغمہ پیش کیا جائے تو گلوکار اور موسیقار کے ساتھ اس شاعر کا نام بھی لکھا اور پکارا جائے کہ جس نے اسے سوچا اور پھر لفظوں کی مالا میں پرو کر ہم تک پہنچایا ۔
میں اپنے دلائل کی سچائی ثابت کرنے کے لئے صرف یہ دلیل دونگا کہ آپ نے آجتک کتنے ہی گانے ، غزلیں اور قوالیاں سنی ہونگی ۔ آپ کو یہ تو یاد ہوگا کہ فلاں گانا نورجہاں نے گایا ، فلاں غزل مہدی حسن نے گائی ، فلاں گیت لتا منگیشکر کی آواز میں ہے اور فلاں قوالی نصرت فتح علی خان نے گائی تھی لیکن ان میں سے بہت کم کے بارے میں جانتے ہونگے کہ یہ کلام فلاں شاعر کا ہے ۔
قارئین کرام
یہی وہ کمی ہے ، ستم ہے ، ظلم اور
نا انصافی ہے ، جسے اجاگر کرنے کے لئے آج میں نے ایک ایسے شاعر کا انتخاب کیا ہے کہ جس نے تقریبا ہر صنف سخن (Branch of Poetry)
پر قلم اٹھایا لیکن جس کے ذہن سے ٹپکے ایک قدرے طویل اور الہامی صوفیانہ کلام نے جادو کا سا اثر دکھاتے ہوئے ، دنیائے اردو / ہندی میں موسیقی سننے والے ، ہر طبقے کو مبہوت ،متحیر ، مدہوش ( Amazed ) اور دیوانہ کرکے رکھ دیا ۔ ہندو ہو یا مسلمان ، سکھ ہو یا پارسی ، جب اور جہاں ، ناز خیالوی کے لکھے اور مرحوم استاد نصرت فتح علی خان کی آواز میں سموئے الفاظ ،
” تم اک گورکھ دھندہ ہو "
ہوا کے دوش پر سوار ہوکر نکلے ، تو محفل پہ وجد
( Emotional mood of Mind )
کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے ۔ ۔
یہی وہ مقام ہے جہاں ہمیں مرحوم استاد نصرت فتح علی خان کی مدھر آواز اور موسیقیت تو نظر آتی ہے لیکن ہم اس شخص کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ جس کے قلم سے نکلے الفاظ نے اس بے مثال گائیکی کو وجود بخشا ۔ آئیے آج ہم آپ کی ملاقات اس فقیر منش شاعر سے کراتے ہیں کہ جس نے عشق الہی میں غرق ہوکر منصور حلاج کی طرح
اناالحق تو نہیں کہا البتہ یہ کہنے پر مجبور ہوگیا ، کہ ،
” تم اک گورکھ دھندہ ہو "
حسین بن منصور حلاج کا ذکر آیا ہی گیا تو سن لیجئے ۔ منصور بغداد کا ایک دیوانہ صوفی تھا ۔ معرفت الہی کی ریاضت ( Exercise ) کرتے کرتے اس مقام آگہی ( Awareness ) تک جا پہنچا کہ اسے خدا اپنے اندر نظر آنے لگا اور اس نے انا الحق یعنی میں ہی حق ہوں کہ نعرہ بلند کردیا ۔ اس جرم کی پاداش میں اسے سولی پر لٹکا دیا گیا ۔ ہمارے آئمہ اکابر میں سے آدھے اسے ولی اللہ اور آدھے گمراہ مانتے ہیں ۔
معذرت خواہ ہوں بات سے بات نکلتی چلی جارہی ہے ۔ آئیے چلتے ہیں ,
موضع جھوک خیالی ، چک 394 گ ب ، تحصیل تاندلیانوالہ ، ضلع لائل پور (حال فیصل آباد)پنجاب ، جہاں ایک بچہ پیدا ہوا۔ والدین نے اسے
محمد صدیق کا نام دیا ۔ اسی محمد صدیق نے آگے چل کر ” ناز ” تخلص اپنایا اور اپنے گاوں جھوک خیالی کی مناسبت سے ناز خیالوی بن گیا ۔
ناز خیالوی عام روائت سے ہٹ کر شادی وغیرہ کے جھمیلے میں نہیں پھنسا ۔ ساری زندگی علم و ادب سے پیار کرتے گزار دی ۔ خوش بختی کہئے کہ اسے احسان دانش ، ساغر صدیقی اور شورش کاشمیری جیسے استادان علم و ادب سے سیکھنےکا موقع ملا ۔ ان اساتذہ کی ادبی شعاعوں سے منور اور فیضیاب ہوکر ریڈیو فیصل آباد کے ادبی و ثقافتی پروگراموں ” صندل دھرتی ” اور
” دبستان ” سے 27 برس تک وابستہ رہا ۔ یہی اس کا ذریعہ روزگار اور وسیلہ معاش تھا ۔ آخری عمر میں معاشی حالت یہ تھی کہ بیمار پڑا تو دواء کے لئے پیسے نہ تھے ۔ باالآخر اپنے مرشد خانے حجرہ صابری موضع کنجوانی تحصیل تاندلیانوالہ جاکر بتاریخ 12 دسمبر 2010 اس جہاں سے رخصت ہوگیا ۔
یہ عظیم شاعر جب تک زندہ رہا کسی نے حال تک نہ پوچھا لیکن بعد از مرگ فیصل آباد کی ایک سڑک کو ناز خیالی روڈ کا نام دے دیا گیا ۔
ناز خیالی نے صوفیانہ کلام کے علاوہ غزل ، قطعہ ، منقبت ، مرثیہ اور نعت بھی کہی ۔ ان کے کلام سے چند اشعار نقل کئے جاتے ہیں ۔
نعت کے چند اشعار
گھل جاتی ہیں جب ساغر وجدان میں نعتیں
پھر کہتا ہوں میں آقاؐ، تری شان میں نعتیں
آیات کو چوموں کبھی اشعار پہ جھوموں
نعتوں میں ہے قرآن تو قرآن میں نعتیں
یہ سلسلہ جاری رہے توصیف نبیؐ کا
بڑھتی رہیں یارب میرے دیوان میں نعتیں
غزل 1
عذاب حسرت و آلام سے نکل جاؤ
میری سحر سے میری شام سے نکل جاؤ
بہانہ چاھئیے گھر سے کوئی نکلنے کا
کسی طلب میں کسی کام سے نکل جاؤ
ہمارے خانہء دل میں رہو سکوں کے ساتھ
نکلنا چاھو تو آرام سے نکل جاؤ
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
کسی طرف بھی کسی کام سے نکل جاؤ
غزل 2
دل کا ہر زخم جواں ہو تو غزل ہوتی ہے
درد نس نس میں رواں ہو تو غزل ہوتی ہے
دل میں ہو شوق ملاقات کا طوفان بپا
اور رستے میں چٹاں ہو تو غزل ہوتی ہے
شوکت فن کی قسم حسن تخیل کی قسم
دل کے کعبے میں اذاں ہوتو غزل ہوتی ہے ۔
غزل 3
نت نئے نقش بناتے ہو مٹادیتے ہو
جانے کس جرم تمناء کی سزاء دیتے ہو
کبھی کنکر کو بنادیتے ہو ہیرے کی کنی
کبھی ہیروں کو بھی مٹی میں ملا دیتے ہو
کوئی رانجھا جو کبھی کھوج میں نکلے تیری
تم اسے جھنگ کے بیلے میں رلا دیتے ہو
جستجو لے کے تمہاری جو چلے قیس کوئی
اس کو مجنوں کسی لیلی کا بنا دیتے ہو
سوہنی گر تم کو مہینوال تصور کرلے
اس کو بپھری ہوئی لہروں میں بہا دیتے ہو
اور آخر میں ناز خیالوی کا یہ مفرد شعر ان کی بلند خیالی اور فلسفیانہ سوچ کا غماذ ہے :
شوق مصوری بھی شکاری کا خوف بھی
ٹہنی تو بن گئی تھی پرندہ نہیں بنا
سیّدزادہ سخاوت بخاری
مسقط، سلطنت عمان
شاعر،ادیب،مقرر شعلہ بیاں،سماجی کارکن اور دوستوں کا دوست
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔