تعلیم کے اہم پہلو
تحریر ( فیصل جنجوعہ)
تعلیم دنیوی ہو یا دینی، ہم نے دونوں کو رسمی کارروائی کا درجہ دے دیا ہے۔ آج کل بچوں کو دینی تعلیم دلانے کا رجحان بھی تیزی سے پنپ رہا ہے۔ اب ذرا ٹھنڈے دل سے سوچئے کہ دینی تعلیم کس طور دلانی چاہیے اور اس کا مصرف کیا ہے؟ بہت سے والدین یہ سمجھتے ہیں کہ بچے کو حافظ بنانے سے وہ اعلیٰ معیار کی زندگی کے تمام لوازم سیکھ لیتا ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ اگر بچے کو حفظ کرانے کے ساتھ ساتھ قرآن کے معانی کی تعلیم بھی دی جائے تو وہ دین کی تبلیغ کے لیے بہتر طور پر تیار ہوسکتا ہے۔ قرآن کو محض حفظ کرلینا ہمارے لیے کافی نہیں۔ اس کے مفاہیم سمجھ کر ان پر عمل کرنا بھی تو ناگزیر ہے۔ قرآن کو حفظ کرنے اور اس کے تمام معانی کو سمجھنے میں بہت فرق ہے۔ قرآن کی تشریح و تفسیر پر نظر ڈالنا بھی تو ہمارے لیے ناگزیر ہی ہے۔ اسی صورت ہم اللہ کے پیغام کو بہتر طور پر سمجھنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔
اپنے ماحول پر نظر دوڑائیے تو اندازہ ہوگا کہ جو لوگ پڑھ لکھ کر بہتر معاشی امکانات کے حصول میں کامیاب ہوجاتے ہیں وہی کامیاب کہلاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کامیابی کیا ہے؟ کیا بہتر ملازمت حاصل کرنے کو کامیابی قرار دیا جاسکتا ہے؟ کیا شاندار کیریئر ہی کامیابی ہے؟ کیا ہر بڑے وکیل، ڈاکٹر، انجینئر، ماہر تعلیم یا نامور صحافی کو کامیاب انسان قرار دیا جاسکتا ہے؟ کبھی ہم نے اس بات پر غور کیا ہے کہ تعلیم کا بنیادی مقصد دنیا کو سمجھنا اور اپنے آپ کو دنیا کے لیے زیادہ سے زیادہ کارآمد بنانا ہے۔ اگر کوئی انسان ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائے تو اسے حقیقی کامیاب قرار دیا جاسکتا ہے۔ بہت سے لوگ اعلیٰ تعلیم پانے کے بعد بہتر معاشی امکانات حاصل کرلیتے ہیں۔ ان کی ظاہری شان و شوکت قابلِ دید ہوتی ہے۔ مگر ان کی روحانی ترقی برائے نام بھی دکھائی نہیں دیتی۔ ایسی حالت میں ہم انہیں کامیاب قرار نہیں دے سکتے۔ اگر تعلیم نے کسی انسان کے دل میں دوسروں کا درد پیدا نہ کیا ہو تو اسے بہتر اور کامیاب انسان قرار نہیں دیا جاسکتا۔
بہت سے کامیاب انسان ہر وقت زیادہ سے زیادہ دولت کے حصول کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹرز نے دولت کے حصول کو زندگی کا بنیادی مقصد سمجھ لیا ہے۔ اگر کسی کو اس حالت میں لایا جائے کہ زخم لگنے کے بعد خون بہہ رہا ہو یا شدید بیماری کے بارے نبض ڈوبتی جارہی ہو تو ڈاکٹرز کو عام طور پر یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ اس سے چیک اپ اور میڈیکیشن کی فیس وصول ہوسکے گی یا نہیں!
ایک زمانہ تھا جب معلم چاہتا تھا کہ اس سے تعلیم پانے والے زندگی میں کچھ بن جائیں۔ مگر اب ایسا نہیں ہے۔ مقررہ وقت پر کلاس میں آنے اور پرائیویٹ ٹیوش لینے والوں کو میکانیکی انداز سے پڑھایا جاتا ہے اور فیس کے بدلے محض رسمی انداز سے کچھ بتا دینے کو تعلیم سمجھ لیا گیا ہے۔ یہ سوچ کا دیوالیہ پن ہی ہے، اور کچھ بھی نہیں۔
کامیاب وکیل وہ ہے جو جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کر دکھائے۔ مقدمات کو طول دینے میں کامیاب ہونے والے زیادہ کامیاب وکیل کہلاتے ہیں۔
جب تک ہم تعلیم کو زندگی بھر کا معاملہ قرار نہیں دیں گے، اپنے وجود اور اپنی اولاد کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔ معاشرے میں جس قدر بھی بگاڑ ہے، تعلیم کو رسمی معاملہ سمجھنے سے پیدا ہوا ہے۔ تعلیم ہی انسان کو بہتر زندگی کا شعور عطا کرتی ہے۔ جب تک ہم تعلیم کو پوری زندگی پر محیط قرار نہیں دیں گے تب تک کنویں کے مینڈک ہی رہیں گے، زندگی کے سمندر میں تیرنے اور زندگی کا تنوع دیکھنے کے قابل نہیں ہوسکیں گے۔ زندگی پر محیط تعلیم ہی بزرگوں کے احترام کا شعور عطا کرتی ہے۔ کسی کے دکھ کو سمجھنا اسی وقت ممکن ہے جب ہمیں اس کی باضابطہ تعلیم دی گئی ہو۔ قانون کی بالا دستی کا تصور ذہن میں اسی وقت جنم لیتا ہے جب تعلیمی عمل کے دوران ہمارے ذہن میں اس کا بیج ڈالا گیا ہو اور اس کی آبیاری بھی کی گئی ہو۔
اگر ان تمام امور کے حوالے سے معاملات کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ تعلیم کے حوالے سے ہم ادھورے ہیں یا ہماری تعلیم ادھوری ہے۔ یقیناً اسکول، کالج یا یونیورسٹی کی سطح پر حاصل کی جانے والی تعلیم سب کچھ نہیں۔ زندگی کو سمجھنا اس سے کہیں الگ اور منفرد عمل ہے۔ اس کے لیے مطالعہ اور مشاہدہ ناگزیر ہے جو بحیثیت مجموعی زندگی کو تنوع عطا کرتا ہے۔ وسیع تر مفہوم میں اِسی کو تعلیم کہتے ہیں۔
Title Image by Jan Mateboer from Pixabay
کالم نگار، ایجوکیشنٹ، شعبہ تعلیم تربیت، پرنسپل الائیڈ سکولز پنجاب گروپ آف کالجز راولپنڈی
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔