سورہ مائدہ آیت 67 میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے نبی مکرم صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کو یُوں حکم دیا جا رہا ہے کہ
مائدہ 67
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ * يَااَيُّھَاالرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ط وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَه، ط وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ط اِنَّ اللهَ لَا يَھْدِی الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ *
ترجمہ: اے پیغمبر! جو اللہ کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے، اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اس کا کچھ پیغام پہنچایا ہی نہیں اور اللہ لوگوں سے آپ کی حفاظت کرے گا، بلاشبہ اللہ کافروں کو منزل تک نہیں پہنچایا کرتا
اسلام کے تقریباً تمام ثقہ علمائے تفسیر نے اس آیت کے ذیل میں مختلف انداز سے ایک ہی تفسیر کی ہے علامہ جلال الدین سیوطی نے تفسیر در منثور میں، تفسیر ابنِ کثیر میں اور بہت سے معتبر مفسرین نے لکھا ہے کہ اس آیت کا نزول حجۃ الوداع کے موقع پر ہوا
آیت نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم نے کاروان کو رکنے کا حکم دیا اور فرمایا: جو آگے چلے گئے ہیں وہ واپس پلٹ آئیں اور جو ابھی تک نہیں پہنچے وہ عجلت کریں جب غدیر خم کے مقام پر تمام صحابہ اکٹھے ہو گئے ، تو باجماعت نماز ظہر ادا کرنے کے بعد رسول خدا صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم نے ایک فصیح و بلیغ خطبہ دیا جو خطبۂ غدیر کے نام سے مشہور ہوا اس خطبہ میں رسول اللہ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
خداوند متعال میرا ولی ہے اور میں مؤمنین کا ولی ہوں، پس میں جس کا مولا ہوں علی (ع) بھی اس کے مولا ہیں۔
اللہ کےرسول صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم نے یہ جملہ تین مرتبہ دہرایا اور فرمایا:
"یا اللہ! تو اس کے دوست اور اس کو اپنا مولا و سرپرست سمجھنے والے کو دوست رکھ اور اس کے دشمن کو دشمن رکھ؛ جو اس کی نصرت کرے اس کی مدد کر اور جو اس کو تنہا چھوڑ دے اس کو اپنے حال پر چھوڑ کر تنہا کردے”۔
اور اس کے بعد لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا:
"(یہ پیغام) غائبین کو پہنچا دیں”.
اس موقع پر، لوگوں نے امیرالمؤمنین علیہ السلام کو مبارکباد پیش کی۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ تبریک و تہنیت کہنے والوں میں پیش پیش تھے اور باقی صحابہ ان کے پیچھے پیچھے تبریک و تہنیت کہہ رہے تھے۔ حضرت عمرؓ مسلسل کہہ رہے تھے: بخٍ بخٍ لكَ ياعليؑ اصبَحتُ مولاي ومولٰی كُلِّ مؤمنٍ ومؤمنةٍ۔، یعنی مبارک ہو مبارک ہو اے علیؑ آپ ہر مؤمن مرد اور عورت کے مولا و سرپرست ہوگئے
مستند روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر ایک خیمہ لگایا کیا گیا اور آپ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ گروہ در گروہ آ کر علی علیہ السلام کو امیرالمؤمنین کے عنوان سے سلام دیں، اور حتی کہ ازواج رسول (ص) نے بھی اس حکم نبوی کی تعمیل کی.
اور اس کے بعد تمام مستند مفسرین کے مطابق سورہ مائدہ کی آیت 3 کا نزول ہوا جس میں ارشادِ ربّانی ہوا کہ
مائدہ 3
اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُم نِعْمَتیْ وَ رَضِيْتُ لَكُمُ الاِسْلَامَ دِيْناً *
ترجمہ: آج میں نے تمہارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بحیثیت دین کے پسند کر لیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیرالمؤمنین علیہ السلام کی ولایت کا اعلان کیا تو نعمان بن حارث فہری آپ ﷺ کے قریب آیا اور گُستاخانہ لب و لہجے میں آپ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم سے کہا،
"تو نے ہمیں توحید اور اپنی رسالت پر ایمان لانے اور جہاد و حج اور روزہ و نماز اور زکٰوۃ کا حکم دیا اور ہم نے بھی قبول کیا لیکن تو اس پر راضی نہ ہوا اور اب اس نوجوان کو مقرر کیا اور اس کو ہمارا ولی قرار دیا، کیا یہ اعلان ولایت تو نے اپنی طرف سے کیا یا خدا کی جانب سے؟
اس پر جنابِ رسول خدا صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کہ یہ اعلان خدا کی طرف سے تھا تو اس نے جسارت کرتے ہوئے انکار کی حالت میں کہا
اگر یہ اعلان خدا کی جانب سے تھا تو ایک پتھر آسمان سے اس کے سر پر آ گرے.اسی حالت میں آسمان کی طرف سے ایک پتھر اس کے سر پر نازل ہوا اور اس کو وہیں ہلاک کر ڈالا اور سورۃ المعارج کی پہلی اور دوسری آیات نازل ہوئیں.
المعارج 1-2
"سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ ٭ لِّلْكَافِرينَ لَيْسَ لَهُ دَافِعٌ”۔؛
ترجمہ: ایک طلب کرنے والے نے طلب کیا اس عذاب کو جو ہونے ہی والا ہے انکار کرنے والوں کے لئے اسے کوئی ٹالنے والا نہیں ہے
امام جعفر صادق علیہ السلام اور دیگر معصومین کے مطابق روزِ غدیر سب سے بڑی عید ہے بعض احباب کی طرف سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ عید غدیر الله کی سب سے بڑی عید کیوں قرار دی گئی ہے تو اس کے جواب میں بس اتنا عرض کروں گا کہ عید الفطر کو عید اسلئے قرار دیا گیا کہ مسلمان اپنے پروردگار کے حکم کی پیروی میں روزے رکھتے ہیں اور اختتام پر خوشی میں عید الفطر مناتے ہیں . جبکہ روزہ دین کا ایک اہم جزو ہے کامل دین نہیں ہے
اور عید الاضحٰی حج جیسی عظیم نعمت کے تمام اور مکمل ہونے کی خوشی میں منائ جاتی ہے جبکہ حج بھی دین کا جزو ہے کامل دین نہیں ہے ، مگر یومِ غدیر خُم کے مقام پر اللہ تعالیٰ نے پورے دین کی تکمیل فرما دی اور آیت، اَلیَومَ اَکمَلتُ لَکُم دِینَکُم………. الخ کے نزول کے ساتھ تکمیلِ دینِ اسلام کی سَنَد جاری فرما دی تو پھر کیا یہ سب سے بڑی اور اہم عید نہیں ہونی چاہیے؟
میرے عقیدے کے مطابق تو اصلِ عید یہی غدیر کا یوم ہے اور اگر آج بھی تمام مسلمان اس دن اور اس دن میں دیئے گئے پیغام کو سمجھ کر مان لیں تو ہم دنیا میں میں بھی اور آخرت میں بھی کامیاب و سرخرو ہو سکتے ہیں
سیّد مونس رضا
معلم، مدبر، مصنف
ریٹائرڈ او رینٹل ٹیچر
گورنمنٹ پائیلیٹ ہائر سیکنڈری اسکول
اٹک شہر
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔