مرنا ہے تو کیوں نہ شان سے مریں
اگر تاریخ کا دھارا نوحہ و گریہ یا بے جا تفاخر کرنے سے موڑا جا سکتا تو آج پوری دنیا پر مسلمانوں کی حکومت ہوتی۔ نام کی حد تک دنیا بھر کی مسلم امہ کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم المیہ طرز کا ہجوم ہیں یا پھر ماضی میں اپنے آباء و اجداد کے کارناموں کے نشے میں مست ہیں۔ لیکن قوموں کی تقدیر کبھی بھی خود بخود نہیں بدلتی اور نہ ہی اس میں قسمت کا کوئی ہاتھ ہوتا ہے۔ تاریخ رقم کرنے کے لیئے محنت اور جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ جیسے سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اسی طرح تاریخ کے اوراق بھی دل نام کی چیز سے خالی ہوتے ہیں۔ کوئی مورخ کسی ناکام، پس مردہ یا مغموم کردار کو گلیمیرائز کر کے اسے کامیاب قرار دے سکتا ہے اور نہ ہی اس پر ترس کھا کر وہ جھوٹا ہے تو اسے سچا کردار لکھ سکتا ہے۔ کیونکہ کردار اچھے ہوں یا برے ہوں وہ اپنی تاریخ خود لکھتے ہیں۔ لھذا تاریخ کی یہ حقیقت اٹل ہے کہ اس کے کردار بے شک تلخ اور غمناک ہی کیوں نہ ہوں وہ اپنے کرداروں کے بارے میں سچ بولتی ہے۔ بلفرض تاریخ نویس جھوٹ بھی لکھیں تو تاریخ کو پڑھنے والے اس کے کرداروں کی کوکھ سے سچ نکال ہی لیتے ہیں۔
برصغیر پاک و ہند کی تاریخ المیہ بھی ہے اور طربیہ بھی ہے۔ لیکن مغلیہ عہد کے بغیر یہ تاریخ ادھوری ہے۔ یہ ظہیر الدین بابر کی دلیری اور بہادری سے شروع ہوتی ہے اور بہادر شاہ ظفر کی عیش عشرت کے المناک انجام پر ختم ہوتی ہے۔ بہادر شاہ ظفر اور شاہی خاندان کا انجام بلاشبہ سبق آموز اور رلا دینے والی داستان ہے۔ حالانکہ مغلیہ سلطنت کا آغاز مہم جوئی کے کارناموں کے بعد بڑی شان و شوکت سے ہوا تھا۔ ظہیر الدین بابر جو برصغیر میں مغلیہ سلطنت کا بانی تھا، ابھی اس کی عمر محض 11برس تھی جب وہ سنہ 1494ء میں اپنے والد عمر شیخ مرزا کی وفات پر فرغانہ کا حکمران بن گیا تھا۔
بابر کی زندگی مسلسل کوشش اور جرات سے عبارت تھی بابر نے اپنے جد مجدا امیر تیمور کی پایا تخت سمر قند کو فتح کرنے کے لئے کئی حملے کئے مگر ناکام رہا۔ اس نے پھر بھی ہمت نہیں ہاری اور بہادری کے ساتھ ڈٹا رہا۔ آخر بابر نے 1497ء میں سمرقند کو فتح کر لیا۔ بابر ابھی ثمرقند میں ہی تھا کہ اس کے چچا زاد بھائی نے فرغانہ پر قبضہ کر لیا، بابر فرزانہ کی جانب بڑھا اور ابھی راستے میں ہی تھا کے اس کے چچا زاد نے سمرقند پر بھی قبضہ کر لیا مگر بابر نے بہت دلیری سے مقابلہ کیا اور دونوں علاقے دوبارہ حاصل کر لئے۔ اس کے بعد بابر نے کابل اور قندھار کے علاقے بھی فتح کر لئے۔
بابر نے آج سے 500سال پہلے 1526ء میں پانی پت کی پہلی جنگ میں ابراہیم لودھی کے لشکر جرار کو شکست دی اور ہندوستان کا تاج و تخت حاصل کر لیا۔ بابر نے یہ ایک ایسی سلطنت قائم کی جس کے قبضے میں اپنے عروج کے زمانے تک دنیا کی ایک چوتھائی سے زیادہ دولت تھی اور جس کا رقبہ تقریبا پورے برصغیر بشمول افغانستان پر محیط تھا۔
ظہیر الدین بابر کا تعلق امیر تیمور کے خاندان سے تھا اور ان کی والدہ قتلغ نگار کا سلسلہ نسب مشہور منگول سردار چنگیز خان سے ملتا تھا۔ اس طرح بابر کی رگوں میں ایشیا کے دو مشہور حکمرانوں کا خون دوڑتا تھا۔ بابر کو منگولوں کی طاقت اور ترکوں کی حکمرانی وراثت میں ملی تھی۔ بابر ترکیۃ زبان کا لفظ ہے جس کے معنی شیر کے ہیں۔ بابر اپنے نام کی نسبت سے بہت بہادر اور دلیر تھا جس نے شمشیر زنی، تیر اندازی کی مہارت اور جنگی حکمت عملی بچپن ہی میں سیکھ لی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ جب ظہیر الدین بابر کے بے دست و پا 10ہزار جنگجو سپاہی مرہٹوں اور میواڑ کے حکمران رانا سانگا کی کیل قبضوں سے لیس 80ہزار سے زیادہ فوج کے سامنے کھڑے تھے (بعض تاریخ دان کہتے ہیں کہ بابر کی مخالف فوج میں ایک لاکھ لڑاکا سپاہی شامل تھے) تو بابر نے اپنے سپاہیوں سے مخاطب ہو کر بلند آواز سے کہا تھا کہ، "ہم سب کی موت قریب ہے۔” یہ کہہ کر ظہیر الدین بابر تھوڑی دیر کے لیئے سر جھکا کر رک گیا تھا۔ اس کے بعد اس نے دوبارہ اپنا سر اٹھایا تھا اور پہلے سے زیادہ بلند آواز کے ساتھ گرج کر کہا تھا کہ، "ہم نے مرنا ہی ہے تو کیوں نہ شان سے مریں۔”
تاریخ میں لکھا ہے کہ اس جنگ میں فتح نے ظہیر الدین بابر کو تقریبا پورے برصغیر کا بلا شرکت غیرے بادشاہ بنا دیا تھا۔
اس کے برعکس اسی سلطنت کے آخری فرمانروا بہادر شاہ ظفر سست اور کاہل حکمران تھے جنہیں رنگ رلیاں منانے اور مشاعرے کروانے کا شوق تھا۔ ان کے درباری شاعروں میں مرزا غالب جیسے بڑے شعراء شامل تھے جن کی محفلیں صبح 5بجے تک جاری رہتی تھیں اور دوپہر دو بجے کے بعد وہ ناشتہ تناول فرماتے تھے۔
مغلیہ خاندان کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کی اولاد کے بارے بہت سی کہانیاں مشہور ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ ان کے 20بیٹے تھے۔ جب شاہی محل میں انگریز فوج داخل ہوئی تو ان کا ایک بیٹا تخت پر بیٹھا تھا ان کے مخالف کمانڈر نے پوچھا کہ آپ عقبی دروازے سے بھاگے کیوں نہیں ہیں تو اس نے جواب دیا تھا کہ مجھے جوتا پہنانے ملازم موجود نہیں تھا۔
آخری مغل تاجدار مرزا ابو ظفر بہادر شاہ کی بیوہ اور ملکہ اپنے دور کی خوبصورت ترین خاتون تھی جن کا نام زینت محل تھا جس کی عمر 34 برس تھی۔ جب شاہ ہندوستان کو جلا وطن کیا گیا۔ ایک جواں سال بیٹے بخت مرزا کو تو انگریزوں نے قتل کر دیا تھا، ننھا پوتا بچ گیا تھا۔ ایک ملازمہ تھی۔ ملکہ کو مشورہ دیا گیا کہ بوڑھے بادشاہ کے ساتھ رنگون (کالا پانی) جانے سے بہتر ہے یہاں رہ جاؤ۔ ان کا جواب تھا، جینا مرنا بادشاہ حضور کے ساتھ ہے۔ رنگون کے قید خانے میں مغل شاہی خاندان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ دنیا کے کسی شاہی خاندان کے ساتھ نہیں ہوا۔ بہادر شاہ ظفر نے 10برس ایک تنگ و تاریک گیراج میں گزارے۔ حسن و جوانی، نام و نسب اور حکمرانی سب ملیا میٹ ہو گئے۔ بہادر شاہ ظفر کے کچھ بیٹوں کو توپوں کے دہانے پر باندھ کر اڑا دیا گیا۔ ملکہ نے اپنے سامنے اپنے پوتے کو دم توڑتے دیکھا۔ انگریز کمشنر ڈیوس نے دوائی تک پہنچنے نہیں دی۔ اپنے بادشاہ حضور کے لئے ملکہ تازہ ہوا کی خاطر سفاک داروغے سے منت سماجت کرتی رہیں۔ 87 برس کی عمر میں بروز جمعہ، 7 نومبر 1862ء کو صبح 5بجے ہندوستان کے مغلیہ خاندان کے آخری چشم و چراغ کو گمنام قبر میں اتار دیا گیا۔
تب اکیلی ملکہ لاش کے پاس بیٹھی آنسووں کے موتی بکھیر رہی تھی۔ انگریز سپاہیوں نے ملکہ کو دھکے دے کر لاش اٹھائی اور جلدی جلدی دفنا کر قبر میں چونا ڈال دیا۔ انگریز کمشنر کے بقول محمڈن رول کی آخری نشانی بھی مٹ گئی۔ فرمان جاری ہوا کہ بادشاہ کا کوئی رشتہ دار وارث ہونے کا دعویدار نہیں ہو گا۔ حالانکہ ورثا زندہ تھے۔ دو مغل شہزادے جان بچانے میں کامیاب رہے تھے۔ بعض شہزادے جیلوں میں ڈالے گئے۔ جو دہلی میں قتل ہونے سے بچ نکلے وہ برما اور ہندوستان کی سرزمین میں روپوش ہو گئے تھے۔
بادشاہ کے ساتھ وفا نبھانے کیلئے رنگون میں ہجرت کر کے آنے والے مغل شاہی خاندان کے لوگ اپنی دکھیاری ملکہ کو اپنے پاس لے گئے۔ جو روکھی سوکھی کھاتے، پہلے ملکہ کو پیش کرتے اور اس سے عزت و تکریم سے پیش آتے۔ لیکن غم کیسے کم ہوتا۔ بیوہ ملکہ مرحوم بادشاہ کی حالت کو یاد کرتیں، خود گریہ کرتیں اور شاہی خاندان کی عورتیں بھی آہیں بھرتیں۔ لیکن آہ و بکاہ سے تاریخ تھوڑا بدلتی ہے۔ آج ہم مسلم مغلیہ خاندان پر بڑا فخر کرتے ہیں۔ لیکن خود ہم میں بابر والی ہمت اور مقصد کے حصول کی لگن نہیں بچی ہے۔ اسی عالم حزن میں ملکہ نے 63 برس کی عمر میں وفات پائی۔ برما کے مسلمانوں نے ملکہ کو بھی بادشاہ حضور کے پہلو میں دفنا دیا۔ بعد ازاں چندہ جمع کر کے وہاں درگاہ بنا دی گئی۔
مغل ملکہ کے ساتھ یہ سلوک برطانوی ملکہ وکٹوریہ کے دور میں ہوا۔ برطانوی ملکہ اور مغل ملکہ دونوں کی شادی 1840ء میں ہوئی تھی۔ملکہ وکٹوریہ شاہی کروفر کیساتھ وہ زیورات پہنتی تھیں جو ملکہ زینت محل کو شادی کے وقت بادشاہ سلامت نے تحفے میں دیئے تھے۔ جنہیں 1857ء میں لال قلعہ کی لوٹ مار کے دوران انگریز فوجیوں نے ملکہ زینت محل سے چھینا تھا۔ یہ نادر زر و جواہرات ملکہ الزبتھ دوئم بھی پہنتی رہیں۔ وہ کوہ نور ہیرا اپنے تاج میں سجاتی تھیں۔ ملکہ کی ذاتی ملکیت میں مغل خاندان سے لوٹی ہوئی دولت آج بھی شامل ہے۔
برصغیر اور مغلیہ خاندان کی اس تاریخ سے یہی سبق ملتا ہے کہ فتح اور شان سے وہی جیتے ہیں جو ہتھیار پھینکنے اور ہمت ہارنے کی بجائے شان سے مرنا جانتے ہیں۔ شان و شوکت اور کامیابی کے ساتھ زندہ رہنے کے لیئے بہادر شاہ ظفر کی بجائے ظہیر الدین بابر بننا پڑتا ہے۔ زندگی میں جدوجہد اور محنت سے عاری، ڈرپوک اور سست و کاہل انسانوں پر کامیابی کا کوئی دروازہ نہیں کھلتا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی انسان ہو اور زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو اس میں کامیابی کے لیئے سخت کوشی ہی کام آتی ہے۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |