کل شب تڑپ تڑپ کر، میں نے گزار ڈالی
سِینے کی ہر تمناّ ، سِینے میں مار ڈالی
اُس بے وفا کو کب تک ، دیتا خراج کوئی
آفت گلے سے اک دن ، یہ بھی اُتار ڈالی
کرنے کو کچُھ اُجالا ، آنکھوں میں سُرمہ ڈالا
اور پھر بطرزِ جوگی ، کانوں میں تار ڈالی
آتے ہی جیسے میرے ، شانتی میں آ گیا ہو
ہر بے سُکون پتاٗ، ہر بے قرار ڈالی
ہوں دور سب بلائیں ، تا کہ ٹلیں خزائیں
میں نے نئی چمن میں رسمِ بہِار ڈالی
کلام: عمران اسد
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |