ایسی باتیں بھی سرِعام میں کر جاتا ہوں
تیری تصویر میں رنگ اپنےمیں بھر جاتا ہوں
مجھ کو حالات نے تبدیل کیا ہے ایسا
دیکھ کر خود کو میں اب خودسے ڈر جاتا ہوں
میرا احباب کی باتوں پہ یقیں ہے پُختہ
شک کی سیڑھی سے مَیں فی الفور اُتر جاتا ہوں
اپنے بچوں سے ملا سکتا نہیں ہوں آنکھیں
ہاتھ خالی لیے جب شام کو گھر جاتا ہوں
کج ادائی نے جما رکھے ہیں ڈیرے کُچھ یُوں
گھر کے رستے سے بھی چُپ چاپ گزر جاتا ہوں
یُوں ڈراتا ہے اسدؔ عمر کا جنگل مجھ کو
ایک پتا بھی جو گِرتا ہے تو ڈ ر جاتا ہوں
عمران اسدؔ
پنڈیگھیب
مسقط، سلطنت عمان
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔