انسان دوست شخصیت – ڈاکٹر زاہد بلوچ مرحوم
تحریر: خالد خان گورگیج (خان پور)
اللہ تبارک و تعالی نے تمام مخلوق میں سے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور افضل ترین ذہن اور بھر پور سوچنے کی صلاحیت عطا فرمائی ہے ۔ پھر اس کی ہدایت کے لئیے پیغمبر بھیجے جنہوں نے اچھائی پھیلانے کا حکم دیا اور برائی سے منع فرما کر اعمال پر انسان کو با اختیار کردیا ۔
تمام مخلوق کی جان اللہ عزوجل کی قدرت میں ہے اور مقررہ وقت پر روح نکل جانی ہے اور جان مردہ ہو جانی ہے لیکن آپ کا نیک عمل اور کردار کبھی مردہ نہیں ہوتے ۔
ڈاکٹر زاہد بلوچ جو کہ ایک عام سا ایک ڈسپنسر تھا پھر انہوں نے ہومیو پیتھک کا کورس کیا۔ ہڈی جوڑ کا کام سیکھا اور خانپور میں بی ٹی ایم کے مقام پر اپنا کلینک بنایا لیکن وہ شخص عام لوگوں سے ہٹ کر تھا۔ جب بھی کسی مزدور غریب لاچار بے سہارا شخص کی ہڈی ٹوٹتی تو وہ جلادوں کے پاس جانے کی بجائے اس کے پاس جانے کو ترجیح دیتا اور اپنا علاج کرواتا جس کے پاس جتنا توفیق ہوتی دے آتا توفیق نہ ہوتی تو ڈھیر ساری دعائیں دے کر دوائی لے کر کلینک سے نکل جاتا۔ اکثر بوڑھی خواتین علاج کروا کر پوچھتیں کتنے پیسے؟ ڈاکٹر زاھد کہتا اماں میرے والدین کے لیے دعا کردیں۔ ڈاکٹر زاہد کی اس دریا دلی نے ڈسپنسر سے عام لوگوں میں ڈاکٹر مشہور کر دیا تھا۔
کچھ روز قبل ڈاکٹر زاہد بلوچ کی وفات کی خبر چلی سوشل میڈیا پر خبر کے حوالہ سے طوفان برپا ہو گیا۔ سارے شہر میں غم کا سماں تھا۔ ہر کسی کو ایسا محسوس ہوا کہ اس کا کوئی اپنا جدا ہو گیا ہے۔ نمازِ جنازہ کا وقت اور مقام کا اعلان ہوا تہ لوگ جنازہ گاہ میں وقت سے پہلے پہنچ گئے۔ جنازہ گاہ میں شریک لوگوں کی تعداد دیکھ کر پورا شہر حیران رہ گیا۔ لوگ ایک دوسرے کے گلے لگ کر دھاڑیں مار کر رو رہے تھے اور افسوس کر رہے تھے اس کی وفات کے بعد بے شمار ایسے لوگ ملے جنہوں نے مرحوم مسیحا کی اچھائی کی کہانیاں سنائیں اس میں سے صرف ایک واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں ۔
مرحوم مسیحا کی قل خوانی پر ساتھ بیٹھے شخص کو دیکھا جس نے سر نیچا کیا ہوا تھا اور أنکھوں سے آنسو بہا رہا تھا۔ اس کی طرف غور کیا تو اس نے مخاطب ہو کر کہا: صاحب میں غلہ منڈی میں پلے دار ہوں۔ مزدوری کرتے ہوئے میرا بازو ٹوٹ گیا تھا۔ میں ڈاکٹر صاحب کے پاس گیا اور ان کو بتلایا کہ میں ایک پلے دار ہوں اور میرا بازو ٹوٹ گیا ہے۔ اس سے پہلے وہ میری حالت بھانپ چکے تھے، کہنے لگا تمہارا پہلے ایکسرا ہو گا کروا کر آؤ۔ سوالیہ نظروں سے جب میں نے ڈاکٹر کی طرف دیکھا تو وہ مسکرانے لگے۔ مجھے موٹڑ سائیکل پر ساتھ لے کر سرکاری ہسپتال لے آئے ار ایکسرے کروایا اور پھر میرے بازو پر پلستر چڑھایا۔ پھر بند مٹھی میری ہتھیلی پر رکھی اور کہا یہ کرایہ ہے اور دوائی دے کر روانہ کیا۔ تین چار مہینے اس طرح سلسلہ چلتا رہا پھر ہچکیاں لیتے ہوئے مزدور پلے دار بولا۔
ڈاکٹر صاحب حقیقی مسیحا تھے۔ ایک ایسا شخص جس کو غریب لاچار بے۔ سہارا لوگ مسیحا کہ رہے ہیں میرے خیال سے وہ جنتی ہے۔
ڈاکٹر زاہد بلوچ ہر جمعہ کو والدین کی قبر پر دعا کے لیے جاتے تو وہاں بھی دوائیوں کا بیگ بھر کر لے جاتے مریض آجاتے۔ ان کو مفت دوائی دیتے اور والدین کی بخشش کی دعا کی درخواست کرتے۔
ڈاکٹر زاہد بلوچ جس نے اپنی زندگی میں اپنے بڑے ہونے کا احساس بھی نہ ہونے دیا۔ اس کے چلے جانے کے بعد احساس ہوا کہ ہم ایک بہت بڑے انسان سے محروم ہو گئے ہیں۔ محروم مسیحا کے خلا کو شاید صدیوں بعد بھی پُر نہ کیا جا سکے۔ ڈاکٹر زاہدبلوچ کے خوبصورت کردار پر ہر آدمی رشک کرتانظر آتا ہے ان کی وفات کے بعد اب تمام ذمہ داری اس شہر کے لوگوں پر عائد ہوتی ہے کہ اس کلینک کو زاہد ٹرسٹ کے نام پر چلایا جائے تاکہ بے کس اور بے سہارا لوگ مستفید ہوتے رہیں اور ہم اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیں۔خدانخواستہ یہ کلینک بند ہوگیا تو شہر پھر جلادوں کے نرغے میں چلا جائے گا۔ بھاری فیسیں لینے والوں بھاری کمیشن لیکر غیر معیاری ادویات کا نسخہ لکھنے والے ڈاکٹر حضرات اس مرحوم مسیحا کی زندگی کا جائزہ لے لیں اگر ان کی زندگی کا جائزہ لینے کا وقت نہیں تو اس مسیحا کا جنازہ دیکھ لیں کیونکہ وہ شخص کبھی نہیں مرتا جس کا کردار زندہ ہو۔
ڈاکٹر زاہد بلوچ کو اس تحریر کے ذریعہ خراج تحسین پیش کرنی کی کوشش تو کی لیکن میرے الفاظ ڈاکٹر زاہد بلوچ کی خدمات اور کردار سے بہت چھوٹے ہیں۔
اللہ پاک سے دُعا ہے کہ زاہد بلوچ کی طرح میرے ملک کا حقیقی مسیحا پھر کبھی نہ مرے ۔ آمین
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔