تحریر : مقبول ذکی مقبول ، بھکر پنجاب پاکستان
آپ کا اصل نام حبدار حسین شاہ ہے ۔ جب کہ ادبی دنیا میں سید حبدار قائم کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں ۔ آپ نقوی سادات سے ہیں ۔ آپ کا شجرہ ءِ نسب 38 ویں سلسلے کے بعد ہوتا ہوا جدالسادات امیر المومنین حضرت امام علی علیہ السّلام سے جا ملتا ہے ۔ آپ کے جدِ امجد مدینہ منورہ سے سامرہ سے بخارا اور بخارا سے ہجرت کر کے ہندوستان کے علاقہ اوچ شریف تشریف لائے تھے ۔ جو کہ اس وقت ہندوستان تھا اب پاکستان ہے وہاں سے پھر ضلع اٹک کی تحصیل جنڈ موضع زیارت اور پھر پنڈی گھیب کے نواحی گاؤں غریب وال میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے منتقل ہو گئے ۔
10 جنوری 1968ء کو آپ نے سید کرم حسین شاہ نقوی کے گھر میں آنکھ کھولی ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں غریب وال سے حاصل کی اور ایف اے گورنمنٹ ڈگری کالج پنڈی گھیب سے کیا 9 ستمبر 1989ء سے آپ نے پاک فوج میں سرویئر کی حیثیت سے ملازمت اختیار کر لی ۔ مختلف شہروں میں ڈیوٹی سر انجام دی جن میں اٹک گوجرانولہ ، گلگت سیاچن گلیشیٸرز، منگلا ، کھاریاں ، مری اور لاہور شامل ہیں ۔ آپ نے 26 سال سروس کی آنریری نائب صوبیدار کے عہدے سے ستمبر 2015 ء کو ریٹائرمنٹ لے لی ۔ دوران سروس بھی ادبی دنیا سے بذریعہ کتب اور تقاریر منسلک رہے اور کٸ بار بریگیڈ اور ڈویژن لیول پر پہلی پوزیشن حاصل کی 2000 میں 10 کور میں بالترتیب بریگیڈ لیول ڈویژن لیول اور کور لیول میں پہلی پوزیش لے کر لیفٹیننٹ جنرل صلاح الدین سے تعریفی سند بھی حاصل کی اس کے علاوہ آپ کی پیشہ ورانہ خدمات بھی قابلِ ذکر ہیں جب ہم نے آپ سے پوچھا کہ ایسا کام جس پر آپ کو فخر ہو تو مسکرا کر بولے کہ اپنی جد چھانگلا ولی موجِ دریا حضرت رحمت اللہ شاہ بخاریؒ پر سات سال تحقیق کر کے پہلی مرتبہ کتاب مرتب کرنے پر مجھے خوشی ہوتی ہے آپ آج بھی چھانگلا ولی گوگل پر سرچ کریں تو زیادہ مواد اللہ کے کرم سے میرا ہی ملے گا سید حبدار قائم آج کل پی ٹی سی ایل ایکسچینج اٹک میں بطور سیکیورٹی سپروائزر ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں ۔
آپ بنیادی طور پر نثر نگار ہیں ۔مضمون نگار ، کالم نگار ، تبصرہ نگار ، اور کہانی نگار بھی ہیں آپ نے کہانیاں فقط بچوں کے لئے لکھیں ہیں ۔ بعد میں آپ شاعری کی طرف آئے ہیں ۔ شاعری بھی بہت اچھی کرتے ہیں ۔ آپ نے ہر اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے ۔ حمد ، نعت ، سلام ، منقبت ، نظم ، غزل اور گیت لکھے ہیں ۔
آپ کی تحریریں مختلف اخبارات و رسائل و جرائد میں شائع ہوتی رہتی ہیں ۔ جو کہ ہماری نظروں سے گذرتی رہتی ہیں ۔ آپ کی تحریریں بہت طویل لیکن پختہ اور جاندار ہوتی ہیں ۔
جن اخبارات و رسائل و جرائد میں شائع ہوتی رہی ہیں ان کے نام درجِ ذیل ہیں ۔
روزنامہ ٫٫ نوائے وقت ،، اسلام آباد ، روزنامہ ٫٫ اساس ،، اسلام آباد ، روزنامہ ٫٫ ڈیلی کشمیر ،، مظفرآباد ، آزاد کشمیر ، روزنامہ ٫٫ سسٹم ،، لاہور روزنامہ ٫٫ بارڈر لائن ،، لاہور روزنامہ ٫٫ ٹھنڈی آگ ،، گجرات/ پاکستان روزنامہ ٫٫ تھل گزٹ ،، لیہ / پاکستان اور روزنامہ ٫٫ طالبِ نظر ،، کراچی ماہنامہ ٫٫ کاروانِ نعت ،، لاہور سہ ماہی ٫٫ دھنک رنگ ،، فتح جنگ
اگرچہ 1985 کے بعد آپ نے لکھنے کی ابتدا ماہنامہ ٫٫ سلامِ عرض ،، لاہور ماہنامہ ٫٫ جوابِ عرض ،، لاہور اور ماہنامہ ٫٫ سچی کہانی ،،سے کی تھی ۔ لیکن عسکری فراٸض کی وجہ سے لکھنے کا سلسلہ منقطع رہا
آپ کی تصانیف
درجِ ذیل ہیں
پہلی کتاب ٫٫ نمازِ شب ،،
ناشر جدید پریس ، اٹک سال اشاعت 2016ء
دوسری کتاب ٫٫ چھانگلا ولی موجِ دریا ،، ( حضرت رحمت اللہ شاہ بخاری)
جمالیات پبلی کیشز اٹک
سال اشاعت 2017 ء
تیسری کتاب ٫٫ اکھیاں وچ زمانے ،،
ادارہ جمالیات اٹک/پاکستان
سال اشاعت 2018 ء
چوتھی کتاب ٫٫ مدحِ شاہِ زمن (ﷺ)
آشنا پبلی کیشز گلگشت ، ملتان
سال اشاعت 2022ء
آپ کو مختلف ادبی تنظیموں کی طرف سے ایوارڈز سے بھی نوازا گیا ہے ۔ صرف ادبی تنظیموں نے ہی نہیں نوازا بلکہ پاکستان آرمی نے بھی تمغہ خدمت اور تعریفی سند سے نوازا ہے ادبی تنظیموں کی تفصیل درجِ ذیل ہے ۔
ایوارڈ 2023ء منجانب تنظیم انٹرنیشنل رائٹر فورم پاکستان ، اسلام آباد
اعزازی شیلڈ اور سند منجانب کارِخیر گوجرانولہ
گولڈ میڈل وکیل الکتاب ایوارڈ اور سند منجانب عاشق حسین ایڈووکیٹ میموریل حاصل پور ، بہاولپور
گولڈ میڈل فضیلت جہاں ایوارڈ 2023ء اور سند منجانب ایف جے رائٹر فورم پاکستان ، لاہور
اعزازی شیلڈ اور سند منجانب محمد یعقوب فردوسی ، بھلوال
شیلڈ اور سند منجانب بزمِ سر خیل ادب انٹرنیشنل ، لاہور
چند اشعار بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں
شکر ہے ڈس گیا سنگِ نشتر مجھے
رو پڑا دیکھ کر مجھے آسماں
۔۔۔۔۔
یہ کس ادا سے بکھیری ہیں زلفیں
کہ سر سر کو تو نے صبا کر دیا ہے
۔۔۔۔۔
جب وہ روٹی بنائے ہاتھوں سے
اس کا کنگن خمار دیتا ہے
۔۔۔۔۔
زندگی پھول بن کے آئی تھی
خار بن کر ستا رہی ہے مجھے
۔۔۔۔۔
تیرگی قتل کر کے آیا ہوں
روشنی! کر لے اعتبار مرا
۔۔۔۔۔
جو فرطِ محبت سے خوں چوستی ہے
گلوں سے وہ تتلی اڑاتے نہیں ہو
۔۔۔۔۔
اس کے رخسار کا طواف کرے
زلف کا خم بھی آج پردم ہے
۔۔۔۔۔
وہ جس کو پتھر بھی اس نے سمجھا
وہ میں ہی رہ میں پڑا ہوا تھا
۔۔۔۔۔
ہو نفرت محبت پہ قبضہ کی صورت
چلو کارواں روک دو تیرگی گا
۔۔۔۔۔
اس ملک میں قاتل کو ملے داد ہمیشہ
سو لاکھ بھی مارے وہی سلطان رہے گا
۔۔۔۔۔
گھونٹ چائے مجھے پلا دینا
پھر مرے ہونٹ ہی جلا دینا
کوئی پوچھے اگر مری الفت
اپنے گجرے اسے دکھا دینا
۔۔۔۔۔
اب نثر کا نمونہ ملاحظہ فرمائیں جو راقم الحروف ( مقبول ذکی مقبول کے فن و شخصیت پر لکھا گیا ہے) فکر و نظر کے پھول الہام میں خوشبو کے جھونکے لاتے ہیں تو صوتی ترنگ رقص کرتی ہوئی کاغذ پر بکھر کر شعر کی صورت اختیار کر لیتی ہے ۔ جو جمالیاتی پہلو بکھیرتی ہوئی اذہانِ سخنوراں کو ایک نا دیدہ سوز و گداز بخشتی ہے اور یہ سوز و گداز ایک طاقچے میں رکھی ہوئی قندیل کی مانند ہے جو خود تو جلتی ہے لیکن دوسروں کو روشنی دیتی ہے روشنی پانے والے خوش نصیب تیرگی سے نکل کر اجالوں کے گلستان میں پہنچ جاتے ہیں جہاں پر روز گلرنک سویرا جلوے بکھیرتا ہے شبنم کے قطرے گلوں پر فدا جسم و جاں کر رہے ہوتے ہیں ۔
مقبول ذکی مقبول کی کتاب ٫٫ منتہائے فکر ،، بھی ایسا ہی ایک شبنم کا قطرہ ہے جو سخن پر اپنی جان فدا کر رہا ہے اور زندگی کی کھیتی کو ہرا کرنے والی کربلا کی یاد تازہ کر رہا ہے ۔ زندگی گلوبل ولیج بنی تو دوریاں نزدیکیوں میں سمٹ گئیں لوگوں کی دور دور تک رسائی ہوتی گئی ان لوگوں میں میں بھی شامل تھا ۔ جیسے کئی نئے دوست ملے کتابوں کا تبادلہ ہوا ایوارڈ ملے محبتیں ملیں اور کاروانِ قلم بڑھتا گیا ۔ مقبول ذکی مقبول بھی مجھے فیس بُک پر ملے ان کی شخصیت میں محبت کے پہلو دیکھے تو ان سے محبت ہو گئی ان کی شاعری کے علاوہ ادب دوستی بے مثال ہے کئی ادیب دوستوں کے انٹرویوز کر کے مختلف اخبارات کی زینت بنا چکے ہیں ۔ جن میں ایک میں بھی شامل ہوں ۔
مقبول ذکی مقبول شاعری کے ساتھ نثر بھی اچھی لکھتے ہیں ۔ ان کی خوبیوں میں سب سے بڑی خوبی عشقِ محمد و آل محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم ہے ۔ جو ان کو سب سے ممتاز کرتا ہے ۔ کیونکہ یہ اجرِ رسالت بھی ہے ۔ ان کی نثر ہو یا شاعری دونوں میں سلاست کا پہلو نمایاں ہے ۔
***
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔