ڈاکٹر جہانگیر خان پی ایچ ڈی ۔۔کرکٹر / ماھر تعلیم / پرنسپل گورنمنٹ کالج اٹک قسط نمبر 4
14 جنوری 1943’…سیکنڈ ائیر کا نتیجہ دیکھا ۔تین لڑکے detain کر لئے ۔آج ڈاکخانے میں چالیس روپے سے حساب کھلوایا ہے ہر ماہ اس میں بیس روپے جمع کروں گا.16 جنوری کو میرے گھر میں شفیع وکیل آیا ۔اس کے ساتھ میرے مکان کا مالک نانک چند تھاجو مردان میں وکالت کرتا ہے ۔نانک چند کہنے لگا کہ میرے بھانجے کا داخلہ روک لیا گیا ہے اس کا داخلہ بھیج دیں میں نے انکار کر دیا تو کہنے لگا اچھا تینوں لڑکوں کا داخلہ بھیج دو ۔ میں نے پھر انکار کیا وہ غصے میں آ کر کہنے لگا میری بے عزتی ہوئی ہے اور بڑبڑاتا ہوا چلا گیا۔
کچھ دنوں بعد شہر کے ہندو اور سکھوں نے ایک قرارداد پاس کی کہ پرنسپل کا رویہ لوگوں کے ساتھ ٹھیک نہیں۔اس نے کالج کا ریزلٹ اچھا دکھانے کے لئے کچھ لڑکوں کا داخلہ بھی نہیں بھیجا ۔ اس قرارداد کی نقلیں وزیر تعلیم ،ڈی پی آئی اور ڈی سی کو بھیجیں ۔ڈی سی کا خیال تھا کہ قرارداد کی شرارت کرنے والوں پر مقدمہ درج کیا جائے۔ لیکن معاملہ رفع دفع ہو گیا ۔
17 جنوری اتوار کو رفیق کے پاس ریل پر حسن ابدال گئے ۔رفیق نے پنجہ صاحب کی سیر کرائی۔گوردوارہ میں گرنتھ صاحب رکھا ہوا تھا جس طرح مسلمان ختم قرآن پاک کراتے ہیں اسی طرح سکھ چالیس روپے دے کر گرنتھ ختم کراتے ہیں ۔گرنتھ ساحب کو اکٹھے بیٹھ کر مسلسل پڑھنے کا عمل اکھنڈ پاٹھ کہلاتا ہے اس میں ایک گرنتھی دو گھنٹے پڑھتا ہے پھر دوسرا اگلا سبق شروع کر دیتا ہے اس طرح تین دن میں گرنتھ صاحب ختم ہوتا ہے ۔اکھنڈ کا مطلب ہے ۔۔continuous / without break.
گردوارہ کے اردگرد دو منزلہ ہاسٹل نما عمارت ہے جس میں زائرین ٹھہرتے ہیں۔ایک بندہ سات دن رہ سکتا ہے ۔ لنگر چوبیس گھنٹے چلتا ہے ۔جو لوگ پچیس روپے چندہ دیتے ہیں ان کی سل گوردوارہ کے دروازے پر لگی ہے ۔پچاس اور سو والوں کی آگے اور دو سو والوں کی سل گوردوارہ کی دیوار پر لگی ہوئی ہیں۔فرش پر لگی ہوئی سلیں ارود میں اور دیوار پر لگی سلیں گوجر مکھی میں لکھی ہیں ۔گوردوارہ کا بجلی کا پلانٹ بھی ہے اور پانی کا ٹیوب ویل بھی ہے۔گوردوارہ کی اوپر والی منزل پر نقارہ ہے جو صبح چار بجے بجتا ہے حسن ابدال کے بازار میں پتھر کے کھرل اور کونڈیاں بکتی ہیں ۔
پیر ولی قندہاری کی عبادت گاہ سامنے پہاڑی پر دکھائی دیتی ہے لیکن چڑھنے میں گھنٹہ لگ گیا۔ چوٹی پر سفید گنبد بنا ہوا ہے جو سکھ پنجہ صاحب جاتے ہیں وہ اس چلہ گاہ کو ضرور دیکھتے ہیں اور نذرانہ بھی دیتے ہیں۔میں نے بھی ایک آنہ دے دیا۔ہمارے کھڑے کھڑے واہ کا ایک لڑکا ایک دنبہ بطور چڑھاوہ چھوڑ گیا ۔آج محرم کی دسویں تاریخ تھی چوٹی پر یا حسین یا حسین کی آوازیں آرہی تھیں معلوم ہوا کہ سر سکندر سکول کے پاس جلوس نکل رہا ہے ۔
حسن ابدال سے ٹانگے میں بیٹھ کر دو میل کے فاصلے پر واہ پہنچے ۔سیمنٹ فیکٹری سے بجلی واہ لائی گئی تھی ۔واہ میں چشمہ ہے وہاں سے ٹیوب ویل کے ذریعے پانی سیمنٹ فیکٹری جاتا ہے۔چشمے کے کنارے بارہ دری تھی جس کو ڈاک بنگلہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔چوکیدار نے بارہ دری کھول کر دکھائی۔سکندر کی ایم اے او کلب امرتسر کی تصویریں تھیں ۔ان کے والد اور عمر حیات ٹوانہ ۔میاں احسان الحق ۔۔فضل محمد خان ۔ ممدوٹ ۔برکت حیات اور بہنوئی عابد خان کی تصویریں تھیں۔باغ کے پاس قبرستان تھا۔اس میں (سکندر کے والد) محمد حیات..ان کی دو بیویوں اور بیٹے اسلم کی قبریں تھیں ۔واہ گاؤں دور سے دیکھا اس میں سکندر مرحوم کا مکان دو منزلہ تھا باقی سب گھر ایک منزلہ تھے
حسن ابدال میں ایک ٹیلے پرAgror اگرور ہزارہ کے خان کے بھائی نوکروں سمیت رہتے ہیں ان کو اگرور جانے کی اجازت نہیں تاکہ خانہ جنگی نہ ہو. یہ چالیس آدمی ہیں اور ان کو دوسو ماہوار پنشن ملتی ہے ۔ڈپٹی کمشنر کی اجازت کے بغیر یہ لوگ اس جگہ سے نہیں جاسکتے ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔