ڈینگی سے کیسے چھٹکارہ پایا جائے؟

شاہد اعوان، بلاتامل

ڈینگی کی بیماری کو پاکستان میں وارد ہوئے تقریباٌ دس سال کا عرصہ ہو چکا ہے جب یہ مرض یہاں پہنچا تھا تو میڈیا نے اس حوالے سے عوام میں اتنا خوف و ہراس پھیلایا تھا کہ بہت سے کم زور اور شکستہ دل افراد صرف سن کر ہی دنیا سے کنارہ کش ہو گئے تھے۔ اس مرض پر قابو پانے کے لئے پنجاب میں اس وقت کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے جنگی بنیادوں پر صوبہ بھر میں فعال کردار ادا کیا تھا مگر بعدازاں حکومتیں بدلنے پر اس جانب توجہ کم ہوتی چلی گئی جس کی وجہ سے یہ وبا انتہائی تیزی سے سراٹھا رہی ہے ۔ یہ بیماری چھوت کی بیماری ہرگز نہیں لیکن جب کسی مریض کو ڈینگی کا مرض لاحق ہو گیا اسے اگر ایک عام مچھر بھی کاٹ لے تو وہ پورے علاقے کے لئے ایک وبائی صورتحال اختیار کر لیتا ہے۔ اس مرض سے بچائو کے لئے سب سے بڑھ کر اردگرد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنا اور صاف پانی میں پرورش پانے والے مخصوص مچھر کو ختم کرنا مقصود ہے۔

ڈینگی سے کیسے چھٹکارہ پایا جائے؟
Image by shammiknr from Pixabay

گزشتہ سال ہمارے رہائشی محلے حسن ابدال میں آناٌ فاناٌ حیرت انگیز طور پر ہر گھر میں تین چار افراد اس مرض کا شکار ہوئے تھے جس میں ہمارا گھرانہ بھی شامل تھا وہ تو اللہ بھلا کرے ہمارے شہر کے ٹی ایچ کیو میں تعینات میڈیکل سپیشلسٹ ڈاکٹر بشریٰ کہوٹ کا،جو حقیقی معنوں میں ’مسیحا‘ ہیں، انہوں نے دورانِ علاج اس مرض کے تمام پہلوئوں سے اس قدر آگاہی دلائی اور اس کے لوازمات بتائے کہ ہم پورا سال ہی محتاط رہے ۔ رواں سال ایک بار پھر اس موذی مچھر نے اپنا کام دکھانا شروع کر دیا ہے سرکاری ہسپتالوں کے ساتھ ساتھ نجی ہسپتالوں میں بھی جہاں جائیں مریضوں کی ایک بڑی تعداد ڈینگی بخار میں مبتلا دکھائی دیتی ہے ۔ اس ضمن میں اے سی حسن ابدال محمد عارف قریشی نے اس بیماری کے تدارک کے لئے دن رات کی تمیز ہی ختم کر دی ہے جبکہ نوجوان ڈپٹی کمشنر اٹک حسن وقار چیمہ بھی ضلعی ہیڈ کوارٹر چھوڑ کر ہر تحصیل میں اس بیماری کی روک تھام کے لئے متحرک ہیں، اسی طرح ٹی ایچ کیو حسن ابدال کے ایم ایس ڈاکٹر نعیم اختر ، ڈاکٹر شہزاد احمد، ڈپٹی ڈی ایچ او ڈاکٹر جہانگیر کے علاوہ انتہائی متحرک نوجوان ایم اوز ڈاکٹر محمد بلال اور ڈاکٹر محمد فیضان اپنی صحت کی پرواہ کیے بغیر ڈینگی مریضوں کے ساتھ ایسا دوستانہ برتائو کر رہے ہیں جیسے یہ مریض نہیں ان کے سگے رشتہ دار ہوں ۔ ڈاکٹر بلال بتا رہے تھے کہ ان کے سینئرز نے انہیں ہدایت کی تھی کہ آپ نے یہ پیشہ اختیار تو کر لیا ہے لیکن یاد رکھنا جب آپ کے پاس کوئی مریض آئے تو ہو سکے تو مریض کے قدموں میں بیٹھ جانا ، بس استاد کی یہ نصیحت انہوں نے اپنے دل پر لکھ لی ہے وہ ہر مریض کو ایسے دیکھتے ہیں جیسے کسی اپنے قریبی عزیز رشتہ دار پر توجہ دی جاتی ہے ۔ اگر یہی جذبہ ہر معالج اپنا لے تو مریض صرف ڈاکٹر کے اپنائیت بھرے رویے اور توجہ ہی سے شفایاب ہونا شروع ہوجائیں۔ اسی ہسپتال کے ہومیو ڈاکٹر راشد محمود علاج کے ساتھ ساتھ بچوں اور بڑوں میں مہمان نوازی کی وجہ سے اتنے مشہور ہیں کہ ہسپتال آنے ہر مریض محض حاضری کے لئے ان کو مل کر ضرور جاتا ہے جبکہ بچے ٹافیوں کے حصول کے لئے ڈاکٹر صاحب کے پاس جانے کی ضد کرتے ہیں۔ یہی وہ عظیم صدقہ جاریہ ہے جس سے ناصرف اللہ کی مخلوق خوش ہوتی ہے بلکہ اللہ بھی راضی ہوتا ہے ۔ بات ہورہی تھی ڈینگی کی، تو ڈینگی وائرس میں مبتلا شخص کو بخار اتنا شدید ہوتا ہے کہ ایک دفعہ تو مریض اور اس کے لواحقین بھی پریشان ہو جاتے ہیں ، اگر اس مرض سے خوف کے بجائے سوچ سمجھ کر نبٹا جائے تو مریض ایک ہفتے کے اندر شفایاب ہونے لگتا ہے ۔ ذاتی تجربے کی بنیاد پر میں نے دیکھا ہے کہ جونہی اس مرض کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوں تو مریض اور اس کے لواحقین کو پانی اور جوسز کی مقدار میں اضافہ کر دینا چاہئے یعنی اگر عام حالات میں آپ دن میں چار گلاس پانی پیتے ہیں تو اس بیماری کے زور کو توڑنے کے لئے مریض کو روزانہ 16گلاس پانی اور جوس پینا چاہئے جس میں سیب اور گنے کا رس جسم میں خون کے خلیوں کی مطلوبہ مقدار پوری رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ڈینگی بخار کو کم کرنے کے لئے ٹھنڈے پانی کی پٹیاں اور پیناڈول گولی کا استعمال کافی ہے اور جولوگ پرائیویٹ ہسپتالوں میں جا کر ڈاکٹروں سے ہزاروں لاکھوں کے عوض ڈرپس لگواتے ہیں وہ بھی جسم میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے لگائی جاتی ہیں ۔ ڈینگی مرض میں خوفزدہ ہونے کے بجائے تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا جائے تومریض جلد صحتیاب ہونے لگتا ہے، خوراک بالکل ترک نہیں کرنی چاہئے اور مچھر دانی کا استعمال کیا جائے۔ اس مرض کا علاج سرکاری ہسپتالوں میں نسبتاٌ پرائیویٹ ہسپتالوں کے زیادہ بہتر طور پر کیا جاتا ہے نجی ہسپتالوں میں ڈاکٹر لوگوں کی کھالیں اتار ر ہے ہیں جنہیں بالکل خوفِ خدا نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں لوگوں کی عوامی آگاہی انتہائی ضروری ہے اس حوالے سے تعلیمی اداروں میں اساتذہ کو تربیت کی ضرورت ہے جہاں وہ اسمبلی میں بچوں کو درس وتدریس کے ساتھ دس پندرہ منٹ کا ڈینگی سے متعلق مختصر سا لیکچر دے کر اس وبا سے چھٹکارہ دلانے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

Shahid-Bla-Ta-Amul

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

مہنگائی ہائے مہنگائی

اتوار اکتوبر 2 , 2022
مہنگائی نے عوام کی راتوں کی نیند اْڑا کے رکھ دی ہے۔دال٬ چاول٬ آٹا سبزی٬ پھل الغرض روز مرہ کی چیزیں بھی ہماری دسترس سے دور ہو گئیں ہیں۔
مہنگائی ہائے مہنگائی

مزید دلچسپ تحریریں