تحریر و تحقیق : شاندار بخاری
مقیم مسقط
کافی دنوں کے بعد آج ایک موضوع گرفت میں ہے آیا اور سوچا کے آپ احباب کو بھی اس سے متعارف کروادوں ۔ پھر نا جانے ذہن کے میلوں پر پھیلے ہوئے سوچ کے اس باغیچے میں کہاں چھپ جائے اور کب ملاقات ہو ، کچھ معاملات و مشاہدات تو ہمیں گاہے بگاہے ہوتے رہتے ہیں اور کچھ کم کم ۔ اس میں بہت بڑا عنصر ان حالات و واقعات کا بھی ہے جن کے سبب وہ رونما ہوتے ہیں ۔
لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہم موقع کی مناسبت کو بھانپ سکیں جبتک کہ وہ ذوالجلال والاکرام ہمارے ذہنوں پر کرم نہ کرے اور اس خالی فانوس میں معرفت کا چراغ نہ جلا دے ۔
اب جو اس سوچ میں ہیں کہ یہ معرفت کس ماچس کا نام ہے جس سے یہ چراغ جلایا جاتا ہے اور یہ کہاں سے دستیاب ہوگی تو عزیزان من معرفت کے لغوی معنی علم کے ہیں یعنی اسے معرفت کہیں یا عرفان کہیں یا علم ، ہیں یہ ایک ہی حقیقت کے مختلف نام ، مطلب کے کسی بھی شئے یا شخصیت وغیرہ کی بابت علم حاصل کرنا اسے جاننا اور سمجھنا معرفت کہلاتا ہے اور جب معرفت ہو جائے تو مسائل کو ان کا حل ، سوالوں کو ان کے جواب ، خوابوں کو ان کی تعبیر ، زندگانی کو اس کا مقصد ، لا یقین کو یقین ، بھٹکے ہوئے کو اس کی منزل ، موج کو اس کا ساحل ، رام کو رحمان یعنی وقت کا امام مل جاتا ہے ۔
بُلہے شاہ کا ایک مشہور شعر ہے ،
‘ جا جا وڑدا مندر مسیتے
کدی من اپنے وچ وڑیا ای نئیں ‘
اس شعر کا بڑا سادہ سا آسان سا مفہوم ہے کہ رب کو جاننے کیساتھ ساتھ خود کو بھی جانو تو اپنے اندر چھپے رازوں سے روشناس ہو کر حقیقی معنوں میں اپنے ہونے کا مقصد اور اپنے رب کو پا لو گے ورنہ تو یوں ہے کہ صحیح تعین کا علم نہیں اور اپنے مسائل کی فائل اٹھائے ایک دفتر سے دوسرے دفتر کے چکر اور دھکے کھاتے زندگی گزرے گی ۔ ایسے ہی کسی دفتر کے باہر کوئی منشی مل جائے گا جو شارٹ کٹ کا وظیفہ بتا کر مسئلے کو اور پیچیدہ کر دے گا اور اسی بھول بھلیوں میں کھو کر رہ جائے گی زندگی اس پر میرا اپنا ایک شعر ہے ،
‘ کس طرف لے جائے جیون کچھ پتا چلتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہوں اور سرا ملتا نہیں ‘
صحیح سمت کا تعین نا ہو تو یوں لگتا ہے جیسے ایک اندھیرے کمرے میں کالی بلی کو ڈھونڈ رہے ہوں جس کی آواز تو سنائی دیتی ہے مگر ہاتھ نہیں آتی اور بہت دیر ہوجانے کے بعد یہ خیال آتا ہے کہ صرف وقت کا زیاں ہوا اور کچھ حاصل نہیں ہوا ۔ انگریزی کا ایک مقولہ کہیں پڑھا تھا اور اسے بجا پایا
it’s you versus you everyday so make sure the right you wins
Anonymous
ترجمہ یوں ہے کہ ہمارا مقابلہ کسی اور سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے ہے تو کوشش کریں کہ ہماری مثبت سوچ اور حق سچ کی جیت ہو ، حضرت آدم کی اس زمین پر نزول سے ہی ہمارے خمیر میں غلطی گوندھ دی گئی تھی اس کا بیچ ہم سب میں موجود ہوتا ہے ہمارے قول و افعال سے اسے تقویت اور توانائی ملتی ہے اب اگر ہم اچھے کام کریں تو اس سے پھول کھلتے ہیں اور ہمارے وجود کو مہکتا ہوا دلفریب گلزار بنا دیا جاتا ہے جس کی خوشبو سے ہم مہکتے ہیں اور ہم سے منسوب لوگ بھی اس کی سوندھی خوشبو سے محظوظ ہوتے ہیں لیکن اس کے برعکس ہمارے منفی افعال کیکر کی طرح کانٹوں والی بیل بن کر ہمارے وجود پر پھیل جاتی ہے اور خود کو زخمی کرنے اور نقصان پہنچانے کے علاوہ ہمارے پاس آنے والوں کو بھی چھلنی کر دیتی ہے ۔ اکثر و بیشتر ہم کچھ ایسے کام کر جاتے ہیں جن کے ہونے کے بعد ہم سوچتے ہیں کہ یہ میں نے کیا کردیا ، کاش اسے یوں کر لیتا ، اب اس کو شروع تو کر دیا ہے اسے ختم کیسے کروں ؟ یہ کیا مصیبت میں نے اپنے سر لے لی ہے اور پھر ہم فرار تلاش کرتے ہیں خود کو تسلی دینے کیلئیے کہ یو ں ہوا تھا اس لئیے میں میں نے یوں کیا یہاں تک کہ بعض اوقات اپنے سائے تک کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے ‘ غصے میں کبھی فیصلہ نہ کرو اور خوشی میں کوئی وعدہ ‘ کیونکہ اس وقت ہم جوش خطابت میں وہ سب کہہ جاتے ہیں جس کا حقیقت اور منطق کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ وعدہ وہی کریں جو نبھا سکیں ، ذمہ داری اتنی ہی لیں جتنی اٹھا سکیں ، معاملات اتنے نا الجھائیں کہ سلجھا نہ سکیں ، بگاڑیں اتنی ہی جتنی بنا سکیں ، چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائیں کہ کل کو اپنے ننگ کو ڈھانپنے کیلئیے کسی سے مانگنا نہ پڑے اس کی آسان مثال بشری تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ یوں دی جا سکتی ہے کہ جب کسی محفل میں جائیں تو دو چیزوں کا خاص خیال رکھیں کہ غیر ضروری بات نہ کریں اور کھانا کھلنے پر پہلے سے سوچ لیں کہ جو بچ جائے گا اس کے اصراف کا گناہ مجھے ملے گا اور دوسروں کی نظروں میں بھی آہیں گے کہ آ گیا ندیدہ تو پہلے سے سوچ لیا کریں کہ پلیٹ کتنی بھرنی ہے ۔
شاندار بخاری
مسقط، سلطنت عمان
مسقط، سلطنت عمان
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔