غیرت ہے بڑی چیز
کالم نگار: سید حبدار قائم
فلسطین کے شہدا کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جن میں پانچ ہزار بچے شامل ہیں جو ماں کو ماں نہیں کہہ سکتے تھے جن کی امداد امت پر واجب ہے ان کو امت نے تنہا چھوڑ دیا ہے۔
اسرائیل کے مظالم پر خود امریکہ کے لوگ چیخ اٹھے ہیں لیکن مسلمانوں کی غیرت مر چکی ہے افسوس کی بات یہ ہے کہ اسرائیل پونے دو ارب مسلمانوں کی بھیجی گئی امداد غزہ میں پہنچنے نہیں دیتا جب کہ اسی اسرائیل کے لیے امریکی امداد مسلم ممالک سے گزر کر جاتی ہے کیونکہ مسلم ممالک کے حکمرانوں میں مذہبی غیرت کا فقدان ہے ان کی پالیسیوں کی وجہ سے ساری امت شرمسار ہے دور دور تک غیرت کے آثار نظر نہیں آتے ہمارے اسلاف غیرت مند تھے جن کی گرج اب بھی فلسطین کی فضاوں میں گونجتی ہے پتہ نہیں اب مسلمانوں کو کیا ہو گیا ہے ملّا ازم نے دین کو اتنا نقصان پہنچایا ہے کہ مسلمان آپس میں دست و گریباں ہیں فروعی اختلافات شدت اختیار کر چکے ہیں اب ان کو جوڑنے والا کوئی نہیں اسی منافقانہ روش کے متعلق علامہ اقبال نے کہا تھا :۔
دینِ کافر فکر و تدبیرِ جہاد
دین ملا فی سبیل اللہ فساد
یعنی کفار مسلمانوں کے خلاف جنگ برپا کرنے کی سازش میں مصروف ہیں جب کہ ملاوں کو اللہ کے نام پر فساد پھیلانے سے ہی فرصت نہیں ہے
ایسے حالات میں جہاد کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا یہودی انسانیت کی دھجیاں اڑا رہے ہیں فلسطینی بچوں کا قتلِ عام اور اقوام متحدہ کی بند آنکھیں گلوبل ویلج پر بدنما داغ ہے مسلمانوں میں ایران کے علاوہ کوئی حاکم ایسا نہیں جو اقوام متحدہ کے دوہرے معیار کی گردن میں ہاتھ ڈالے اور ظلم کو ظلم کہے ایسی غیرت کہاں سے لائیں ؟
ایسا مومن کہاں سے لائیں؟
اب تو مسلمان حکمرانوں کی زیادہ تعداد یہودیوں کی دلال لگتی ہے مجھے کہیں اس حدیث "المومن کجسد واحد ” پر اترتا ہوا کوئی مومن نظر نہیں آ رہا
فلسطینی بچوں اور معصوم عورتوں کی دل دوز چیخیں کون سنے گا؟
کون ان کے زخموں پر پٹی باندھے گا ؟
کون ان کو تسلی دے گا ؟
کون ان کی بھوک اور بے چارگی میں مدد کرے گا اسرائیل کے چند لونڈے پورے مسلمانوں پر حاوی دکھئیٸ دیتے ہیں ہمارے جوان دنیا کی رنگینیوں میں کھو چکے ہیں بوڑھے دیکھ دیکھ کر مسلمان قوم پر ہنس رہے ہیں میں نے ایک جوان سے فلسطین کے حق میں بات کی تو اس نے کہا کہ جہادی تنظیم حماس نے پنگا کیوں لیا ہے جب ان کے پاس جدید ہتھیار نہیں ہیں فائیٹر طیارے نہیں ہیں تو انہوں نے کیوں حملے کر کے پہل کی ہے یہ جواب سن کر میں حیران ہو گیا کہ دیکھو اس جوان کو تاریخ کا ذرا بھر علم نہیں ہے یہ اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے متعلق بالکل نہیں جانتا اسے نہیں معلوم کہ یہودیوں کی یہ ناجائز ریاست مسلمانوں پر کتنے مظالم ڈھا چکی ہے کتنے بچے کتنے جوان اور کتنی عمارتیں بمبار طیاروں کے حملوں سے منہدم کر چکی ہے ؟
لیکن کون سمجھاۓ؟
یہ کام اساتذہ کا ہے یہ کام علما کا ہے یہ کام والدین کا ہے یہ کام میڈیا ہے ہم سب اپنی نئی نسل کو بتانے میں ناکام ہو گۓ ہیں پوری مسلمان قوم سواۓ ان کے جو جہاد کی حالت میں ہیں سب ناکام ہو گۓ ہیں سوشل میڈیا پر فرقہ پرستوں نے آگ لگائی ہوئی ہے گوگل پر پورن ویڈیو دیکھ دیکھ کر ہماری غیرت کا جنازہ نکل گیا ہے جس کے متعلق حضرت اقبالؒ نے فرمایا تھا:۔
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سردارا
لیکن ہمیں غیرت سے کوٸ سروکار نہیں کیونکہ ہم یہودیوں کی بنی ہوئی ہر چیز استعمال کرتے ہیں ہماری اپنی بنائی ہوئی ہر چیز میں ملاوٹ ہوتی ہے جہاد تو اس امت سے کوسوں دور ہے ہم صرف فلسطین پر افسوس ہی کر سکتے ہیں ہمارا کوئی ایسا حاکم نہیں ہے جو کفار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے آپ کو غیرت مند کہلاۓ دعا کرتا ہوں کہ اللہ پاک مسلمانوں کی غیرت کو اپنے کرم سے جگاۓ تاکہ فلسطین کی مدد کے لیے یہ اٹھ کھڑے ہوں ۔
Title Image by lisa runnels from Pixabay
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔