پاکستان ریلوے ایک حکومتی ادارہ ہے جو کہ ذرائع آمدورفت میں اہم کردار ادا کر رہا ہے ۔مسافروں کی مسافت ہو یا پھر سامان کی ترسیل پاکستان ریلوے سب سے سستا ترین ذرائع آمدورفت ہے یہ پاکستان کے دوردراز علاقوں کو آپس میں جوڑتاہے اور خوبصورت مقامات کی سیر بھی کراتاہے ۔سر ہنری ایڈورڈ نے کراچی بندرگاہ بنانے کا کام سب سے پہلے تجویز کیا اس نے نہ صرف بندرگاہ بلکہ ریلوے کا راستہ بنانے کی بھی ضرورت محسوس کی ۔یہ 1847 ء کی بات ہے جب سر ہنری ایڈورڈ سند ھ کے کمشنر بن کر آئے اس وقت سند ھ کوبمبی سے ملا دیا گیا ۔سر ہنری نے لارڈ ڈلہوز ی سے اجازت لے کر کراچی سے کوٹری ،کوٹری سے دریائے سند ھ کوپار کرتے ہوئے ملتان اور پھر ملتان سے لاہور تک ریلوے لائن بچھانے کے لیئے سروے 1858ء میں شروع کروا دیا ۔پہلی مرتبہ 13مئی 1861 ء کو کراچی سے کوٹری تک عام لوگوں کے لیئے ریلوے لائن کھول دی گئی ۔کراچی سے کیماڑی تک کے لیئے ریلوے لائن 16جون 1889 ء کو شروع کر دی گئی اور پھر کیماڑی سے کوٹری تک 1879 ء میں شروع ہوئی اس طرح کئی دوسری شاخیں پشاور سے کراچی ،پشاور سے لاہور اور لاہورسے ملتان تک انیسویں صدی کے آخر تک اور بیسوی صدی کی پہلی چوتھائی میں بنائی گئیں۔1885ء میں ریلوے کی چار شاخوں کو ملا کر ایک کمپنی سکنڈے “پنجاب اور دہلی ریلویز”بنا دی گئی جسے انڈین سیکرٹری آف سٹیٹ نے خرید لیا ۔1886ء میں اسکا نام “نارتھ ویسٹرن سٹیٹ ریلویز ” رکھا گیا جس کو بعد میں نارتھ ویسٹرن ریلو یزکے نام سے تبدیل کر دیا گیا ۔
بر صغیر کی تقسیم کے وقت “نارتھ ویسٹرن ریلویز1847 ء ” ایکٹ میں تبدیلی کر کے ریل پٹری کے راستے کو انڈیا لیونگ روٹ مائل ٹو پاکستان 5048 میل(8122 کلومیٹر)پاکستان میں تبدیل کر دیا گیایعنی ریلوے کی 5048 میل(8122 کلومیٹر) ریلوے پٹری پاکستان کے حوالے کر دی گئی۔1954ء میں ریلوے کو مردان اور چارسدہ تک بڑھا دیا گیا ۔اسی طرح کوٹ ادو سے کشمور تک کی ریلوے لائن کو 1969 ء سے 1973 ء کے درمیانی عرصے میں تعمیر کیا گیا ۔حال ہی میں حکومت نے ریلوے لائن کو کراچی سے لاہور ڈبل کرنے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں اب تک ملتان سے خا نیوال اورخانیوال سے رائیونڈ تک لائن کو ڈبل کر دیا گیا ہے اور باقی پر کام تعطل کا شکا ر ہے۔
پاکستان میں ریلوے دفاعی اہمیت کے پیش نظر لائف لائن کی حیثیت رکھتاہے ۔مگر بد قسمتی سے ہر دور میں ریلوے کی بد حالی میں اضافہ ہوتا رہا اور جمہوری حکومتوں نے ریلوے کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا تاکہ اسے تبا ہ و برباد کرکے وزرا اور حکومتی عہدے داروں کی پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کو فروغ دیا جاسکے ۔پیپلز پارٹی کے گذشتہ دور حکومت میں ریلوے کی زبوہ حالی اس مقام پر پہنچ گئی کہ ریلوے کے پاس ڈیزل اوراپنے روزمرہ اخراجات پورے کرنے کے لیئے بھی پیسے نہیں تھے ۔ملتان سمیت بڑے بڑے ریلوے اسٹیشنوں کی بجلی عدم ادائیگی بل کی بناء پر کاٹ دی گئی ۔ریلوے میں کام کرنے والے پچاسی ہزار سے زائد ملازمین کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ۔بجلی نہ ہونے کی وجہ سے ریلوے کواٹروں میں رہنے والے ملازمین کے گھروں میں پانی تک نایاب ہو گیا ۔لیکن ریلوے کے اس وقت کے وزیر غلام احمد بلور کے کا نوں پر جوں تک نہ رینگی ۔ خلاف ضابطہ ریلو ے میں اپنے علاقے کے نا ہل افراد کو پیسے لے کربھرتی کیااوراپنی ذاتی ٹرانسپورٹ کو فروغ دینے کے لیئے ریلوے کے تابوت میں آخری کیل تک ٹھونک دی ۔
وفاقی حکومت کی جانب سے ریلوے کی بحالی کے لیئے سال 2012۔2013میں 22.8 بلین روپے ریلوے کے 37مختلف پراجیکٹس کومکمل کرنے کے لیئے اد ا کئے گئے تاکہ دفاعی لحاظ سے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی ریلوے میں سدھار لایا جا سکے۔موجودہ حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعدریلوے میں خواجہ سعد رفیق کے بطوروفاقی وزیر چارج سنبھانے کے بعدریلوے میں بڑے پیمانے پر انتظامی تبدیلیاں کی گئیں جس کے نتیجے میں کرپٹ عناصر کو ہٹانے اور اہل افسران کو لگانے سے ریلوے کی حالت میں سدھار آیا۔ وفاقی حکومت کی امداد اور خصوصی توجہ سے ریلوے کی آمدن میں اضافہ ہونا شروع ہو ا ہے اور ریلوے خسارے سے نکل کر آمدن کی طرف رواں دواں ہے ۔
ریلوے کا سفر دیگر ذرائع نقل و حمل کے کافی محفوظ تصور کیا جا تا ہے مگر اس کے باوجود پاکستان ریلوے کی تاریخ میں کئی بڑے حادثات رونما ہوئے ہیں جن میں بھاری نقصانات کے ساتھ قیمتی جانوں کا ضیاع بھی ہوا ۔4 جنوری 1990 ء کو ریلوے کی تاریخ کا بھیانک حادثہ سکھرکے قریب گاؤں سنگی کے قریب پیش آیا ۔جہاں بہاؤ الدین ذکریا ایکسپریس ملتان سے کراچی جاتے ہوئے غلط کانٹا ملنے کے باعث دوسرے ٹریک پر کھڑی 67 بوگیوں پر مشتمل فریٹ کار سے 35 کلومیڑ پر آور کی رفتار سے جا ٹکرائی جس کے نتیجے میں کم از کم تین سو سات مسافر لقمہ اجل بن گئے ۔13جولائی 2005 ء کو کراچی ایکپسریس گھوٹکی اسٹیشن پر پہلے سے کھڑی کوئٹہ ایکسپریس سے جا ٹکرائی جس سے ٹرین کی 13بوگیا ں پٹری سے اتر گئیں جبکہ مخالف سمت سے آنے والی تیز گام ایکسپریس حادثے کا شکار ڈی ریل بوگیوں سے ٹکرائی جس کے نتیجے میں ایک سو بیس افراد جان سے گئے ۔21اگست 2005 ء کو سپرپارسل ایکسپریس کی لانڈھی کے قریب ملیر برج پر اورلوڈنگ کی وجہ سے ایکسل ٹوٹنے سے آٹھ بوگیاں پٹری سے اتر گئیں جس کے نتیجے میں ریلوے گاڑیوں کی آمد ورفت چوبیس گھنٹے تک معطل رہی۔
19دسمبر 2007 ء کو کراچی سے لاہور چلنے والی کراچی ایکسپریس گاوں مہاراب پور سند ھ میں پٹری سے اتر گئی جس کے نتیجے میں ٹرین کی سولہ میں سے چودہ بوگیاں پٹری سے اتر گئیں جسے دہشتگردی کا شاخسانہ قرار دیا گیا تاہم سرکاری طور پر اس حادثے کو ریلوے ٹریک کی کمزوری قرار دیا گیا ۔02 جولائی 2015 ء کو پنوں عاقل سے کھاریاں جانے والی خصوصی ٹرین کی چھ بوگیاں اور انجن وزیر آباد کے قریب ریلوے پل ٹوٹنے سے نہر میں گر گیءں جس کے نتیجے میں فوج کے تین اعلیٰ افسران سمیت انیس افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ واقع جمعرات کی دوپہر جامکے چھٹہ میں نہر چھناواں پر پیش آیا ۔سرکاری ٹی وی کے مطابق جمعہ کو چودہ افراد کی لاشیں نکال لی گئیں ۔جبکہ لاپتہ افراد کی تلاش کا کام جاری ہے ۔حادثے کے بعد فوری طورپر امدادی کاروائیاں شروع کر دی گیءں جن میں فوج کے غوطہ خور اور آرمی ایوی ایشن کے ہیلی کاپٹروں نے حصہ لیا ۔پاکستان ریلوے کے شعبہ عامہ کے ڈائریکٹر جنرل رؤف خان کا کہناہے کہ کچھ عرصہ پہلے ہی نہروں اور دریاؤں پر ریلوے ٹریک کا معائنہ کیا گیا تھا ۔ جس میں اس ٹریک کو بھی کلیر قرار دیا گیا تھا۔جبکہ سابق وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ ریلوے انتظامیہ جھوٹ بول رہی ہے کیونکہ ریلوے کے پاس اتنا بجٹ ہی نہیں ہے کہ وہ ریلوے ٹریک اور پلوں کا سروے کروا سکے کیونکہ اس پر بھاری اخراجات آتے ہیں۔
ملک بھر میں ریلوے روٹس پر 13,841چھوٹے بڑے پل ہیں جن میں سے 55%اپنی طبعی عمر پوری کر چکے ہیں۔2911پل ایک سو بیس سال پرانے ہیں۔ سو سے ایک سو بیس سال پرانے پلوں کی تعداد 1352ہے ۔ 1243پل اسی سے سو سال پرانے ہیں جبکہ ساٹھ سے اسی سال پرانے پلوں کی تعداد640ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی کسی حکومت نے ان پلوں کی مرمت اور تعمیر پر توجہ نہیں دی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انگریز دور کے ان بوسیدہ پلوں کو نئے سرے سے تعمیر کیا جائے کیونکہ اب ان حادثات کے بعد ممکنہ طور پرساٹھ سے ستر فیصد پل دوبارہ تعمیر کے قابل ہیں۔موجودہ حکومت نے پینتالیس ارب روپے سے میٹرو کے بجائے اگرریلوے کی بحالی پر توجہ دیتی تو اس سے ایک شہر کے بجائے پورے ملک میں ٹرانسپورٹیشن میں انقلاب آجاتا۔ ریلوے ٹریکس کی طرح ریلوے کالونیوں کے کوارٹر بھی اسی سے سو سال پرانے ہونے کی وجہ سے انتہائی بوسیدہ ہو چکے ہیں جن سے کسی بھی قدرتی آفات، زلزلے اور بارشوں سے وسیع پیمانے پر انسانی جانوں کا ضیاں کا احتمال ہے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ اس جانب بھی توجہ دے تاکہ ریلوے ملازمین کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کی جا سکیں۔
ابتدائی تحقیقات کے مطابق۲ جولائی کوپیش آنے والا ریلوے حادثہ بظاہر دہشت گردی کا واقعہ دیکھائی دیتا ہے۔ریلوے اور پاک آرمی کی تحقیقاتی ٹیموں نے اپنی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔اگر کوئی محکمانہ طور پر اپنے فرائض سے غفلت اور لاپرواہی کا مرتکب ہوا ہے اسے قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ آیندہ ایسے واقعات کو رونما ہونے سے روکا جا سکے۔جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے تو یہ امکان بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ملک اس وقت حالت جنگ میں ہے اور دشمن ہمارے ملک اور دفاع کو غیرمحفوظ بنانے کے لیے آئے روز نت نئے ہتھکنڈے استعمال کرتاآ رہا ہے لیکن ہمیں بحثیت قوم اپنے عزم، حوصلے اور ارادوں کو متزلزل نہیں ہونے دینا۔ہمیں اپنی پاک افواج کے ساتھ ملکرملک دشمن عناصر کو قرار واقعی سزا دینا ہو گی تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ایک بہتر مستقبل دے سکیں۔
شہزاد حسین بھٹی
ایم ایس سی ماس کیمونیکشن، ایل ایل بی
مصنف،صحافی و کالم نگار لاہور
سیکرٹری انفارمیشن، پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ,پنجاب،
سابق ایڈیٹر ہفت روزہ "سین "
مصنف "کمرہ نمبر 109” کالموں کا مجموعہ
ممبرنیشنل پریس کلب اسلام آباد،ممبرانٹرنیشنل پاور آف جرنلسٹس(آئی، پی، او ، جے)،
ممبر آل پاکستان جرنلسٹس کونسل(اے پی جے سی)،
ممبر ایمنسٹی انٹرنیشنل (اے آئی)
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔