راولپنڈی کی پرانی اور چھوٹی گلیوں سے جڑی تاریخی یادیں
سعد یہ وحید (خان پور)
مری روڈ سے بھابھارہ بازار میں داخل ہوں تو شروع میں آپ کو پرانی اور قدیم تاریخی عمارتیں نظر آئیں گی، اسی سڑک پر سیدھے چلے جائیں، مڑتے ہی صرافہ بازار میں داخل ہو جائیں گے۔ آپ کو اپنے دائیں بائیں بے شمار چھوٹی چھوٹی سڑکیں نظر آئیں گی اور اگر آپ جامع مسجد روڈ سے داخل ہوں گے تو آپ کو ایسی ہی گلیاں نظر آئیں گی جہاں آپ چھپ سکتے ہیں۔ میں آپ کے سامنے تاریخی قلعہ رکھنا چاہتا ہوں نہ صرف قلعہ بلکہ گلیوں میں چھپا مزار بھی ہے وہاں مشہور صوفی شاہ چن چراغ کا مزار بھی ہے جو کہ سب کے ماننے والوں کے لیے کسی امن کے گوشے سے کم نہیں۔ مذاہب صوفیاء کے کردار سے انکار ممکن نہیں۔ تبلیغ اسلام کے علاوہ ہماری تہذیب و روایات پر بھی ان صوفیوں کے گہرے نقوش دیکھے جا سکتے ہیں۔
یہ 1625 ء یا 1630 ء کا زمانہ تھا جب حضرت شاہ چن چراغ اپنے مرشد کے حکم پر راولپنڈی تشریف لائے اور انہوں نے یہاں پڑاؤ ڈالا۔ آہستہ آہستہ آپ کی عظمت کی شہرت لوگوں میں پھیل گئی۔آپ کی تعلیمات نے بہت سے دلوں کو سکون بخشا۔ جس میں ملک بھر سے تمام مکاتب ِفکر کے لوگ شرکت کرتے ہیں۔ پاکستان بننے سے پہلے ہندو، سکھ اور دیگر مذاہب کے لوگ عرس کی تقریبات میں جوش و خروش سے شرکت کرتے تھے اور اب بھی اسی جوش و خروش سے۔ وہ حصہ لینے کے لیے برصغیر پاک و ہند سے آتے ہیں۔
یہ سجن سنگھ کے قلعے کے بارے میں ہے، جو بھابڑا بازار سے متصل ہے، جینوں کا ایک فرقہ جو بدھ مت اور ہندو مت کے غیر متشدد پیروکار تھے۔ ان میں سے ایک میں سجن سنگھ کے آباؤ اجداد اس قلعے میں رہتے تھے۔ ساجن سنگھ نے یہ قلعہ 1893 ء میں بنایا تھا۔ یہ قلعہ ساجن سنگھ کے خاندان نے 1893 ء سے 1947ء تک 54 سال تک استعمال کیا۔ جہاں سے اسے بنایا گیا تھا، پنڈی اور اسلام آباد کو اب بھی دیکھا جا سکتا ہے۔جب پنڈی شہر اتنا وسیع نہیں تھا تو اس کے باشندے قلعے کی دراڑوں سے مارگلہ اور مری کی پہاڑیوں کا دلفریب نظارہ کرتے۔ حویلی باغات سے گھری ہوئی تھی اور یہ شہر کی پہلی عمارت تھی جس میں نانک شاہی اینٹوں کا استعمال کیا گیا تھا۔
ماہر مصوروں کی جانب سے حویلی کے مکینوں کی تصاویر کے ساتھ دیواروں پر مختلف فن پارے پینٹ کیے گئے تھے۔ چاروں طرف کمرے جبکہ دونوں طرف کی سیڑھیاں اوپر کی منزل تک جاتی ہیں۔ بالائی منزل پر لکڑی کے کام سے مزین خوبصورت محرابیں ہیں۔ حویلی کے دروازے، کھڑکیاں اور دراڑیں اب بھی بہت آراستہ ہیں۔ اس وقت ٹائلیں برطانیہ سے منگوائی گئی تھیں۔ اگر شام کو اس چار منزلہ حویلی میں چراغاں ہوتے تو حویلی کے 45 کمرے روشن ہو جاتے۔
کچھ پرانے رہائشیوں کے مطابق حویلی کی دیواروں کو سونے کی جڑوں سے سجایا گیا تھا، چین سے درآمد کیے گئے سونے اور چاندی کے برتن اور وکٹورین طرز کا فرنیچر بھی استعمال کیا گیا تھا۔ حویلی کا احاطہ شدہ رقبہ تقریباً 24 ہزار مربع فٹ تھا۔ تعمیراتی کام میں لوہا اور لوہے کی چادریں اٹلی سے اور تانبا برطانیہ سے منگوایا گیا۔ 1937ء میں حویلی میں بجلی بھی لگائی گئی۔ قلعہ ساجن سنگھ میں شوخیاں، روشنیاں، ناچ گانا اور گانوں سے بھری محفلیں اب ماضی بن چکی ہیں۔
تنگ مگر روشن گلیاں، جہاں بکثرت، کثیر المنزلہ، بلند و بالا، خوبصورت، محل نما گھر پروان چڑھے، پیار و محبت، عقیدت اور احترام کے رشتے پروان چڑھے، جن کے دل ایک دوسرے کے ساتھ دھڑکتے سنائی دیں گے، جہاں تاریخ نے قدم قدم پر دعوت دی ہے۔. دیکھو قدیم تہذیبی اور ثقافتی ورثے کی اہمیت کو فراموش کر دیا گیا ہے۔ ان کو اجاگر کرنے کی کوشش کریں۔ یہ آواز میری بے چین روح کو سکون نہیں آنے دیتی اور میں ان گلیوں کی خاک چھاننے نکل جاتا ہوں۔ وقت کا بہاؤ پلٹنا شروع ہو جاتا ہے۔ صرف ایک قدم کے فاصلے پر تاریخ اور ثقافت کے اثرات ہر طرف بکھرے پڑے ہیں۔ جیسے جیسے میں ترقی کرتا ہوں، میری پیاس بڑھتی جاتی ہے۔
٭٭٭
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔