اٹک کی پہاڑیاں اور درخت

کالا چٹا سے جنوب اور تحصیل پنڈی گھیب کے جنوب مغرب میں نرڑہ مکھڈ کی پہاڑیاں واقع ھیں-دریائے سندھ کے کنارے سےبنی اونچی نیچی ڈٰؑھیریاں بمشکل ھی پہاڑیوں میں شمار ہوتی ہیں۔ ان میں سب سے اونچا مقام سطح سمندر سے 1800 فٹ بلند ہے۔ انکی ڈھلانیں عموما” مشرق سے مغرب کی سمت میں ہیں۔ دریائے سندھ کی دوسری طرف خٹک علاقے میں ایک پہاڑی سلسلہ ہے لیکن اس طرف کم اونچائی کی چوٹیاں ہیں۔ نرڑہ کے علاقے میں کچھ زرخیز وادیاں بھی ہیں جن میں کم زرخیز اور ہلکی زمین ہے۔ پورے ضلع میں اُڑیال کا شکار یہاں اچھا ہوتا ہے۔ شمال کی طرف فتح جنگ اور کیمبلپور کے درمیان اسی طرح چونے کے پتھر کی پہاڑیاں چٹا پہاڑ بناتی ہیں۔ ضلع کے انتہائی شمال میں اونچی زمین اور لارنس پور (فقیر آباد) پرانی چٹانوں کے سلسلے سے بنا ہوا ہے۔ اسکا نام (اٹک سلیٹ) ہے۔ معدنیات یا جانوروں کی مدفون باقیات کی غیر موجودگی میں یہ چٹانیں بہت قدیم طبقاتی دور سے تعلق رکھتی ہیں۔ عام طور پر ان پہاڑوں کا پھیلاو شرقا” غربا” ہے اور ہمالیہ کے عام پھیلاو کے متوازی ہیں۔ اس سے مزید شمال کی طرف چھوٹی پہاڑیاں ان کی بیرونی فصیل ہیں۔ اس ضلع کی نباتات کسی خاص اہمیت کی حامل نہیں۔ پورے ضلع میں کالا چٹا پہاڑ کا جنگل ہی قابل ذکر ہے۔ کچھ اور بھی محفوظ جنگلی علاقے ہیں مثلا” کھیری مورت (کھیری مار) کو اگر اور نرڑہ کے کچھ علاقے۔ اور اب کچھ اٹک کے مشہور درختوں کے بارے میں ۔

پھلاہی: پُھلاہی کاعام درخت ہر جگہ موجود ہے۔ ان میں سے کچھ بڑے ہیں جن سے عمارتی لکڑی بنتی ہے اور بل کھاتی گانٹھوں والے ہیں۔ ضلع اٹک میں یہی ایک اہم درخت ہے جو کافی تعداد میں ہر جگہ پایا جاتا ہے۔ بھیڑ بکریاں اور اونٹ اسکے پتے شوق سے کھاتے ہیں اسکی لکڑی کالی، مضبوط اور وزن میں بھاری ہے۔ بڑے درختوں سے پن چکیاں ہل اور تمام گھریلو زرعی اوزار و آلات بنائے جاتے ہیں۔ لہذا علاقے کے تمام دوسرے درختوں پر اس کو ترجیح ہے۔ یہ درخت آہستہ آہستہ پرورش پاتا ہے لیکن اسکی پوری عمر سے پہلے اسکو کاٹا جائے تو اسکی لکڑی خراب اور بے کار ہو جاتی ہے۔

کیکر: بہت اونچا اور بڑا درخت ہے جو عام طور پر سڑکوں اور کھیتوں کے کنارے پایا جاتا ہے۔ وادی میں اچھی قسم کا کیکر ملتا ہے جسے خود لگایا جاتا ہے اور خود رکھوالی بھی کی جاتی ہے۔ یہ پہاڑ کے نزدیک یا پہاڑ کے اوپر نہیں ہے۔ جسکی وجہ پہاڑی علاقوں میں سخت سردی ہوتی ہے۔ یہ جہاں بھی اگتا ہے بہت تیزی سے بڑھتا ہے۔ اسکی لکڑی سخت اور مضبوط ہے اور ہل چلانے کے اوزار اور کنوئوں کے رہٹ بیل گاڑیوں کے پہیے اور دوسرے مقاصد میں استعمال ہوتی ہے۔ جلانے کے کام بھی آتی ہے۔ اسکی چھال اور بیج چمڑہ رنگنے کے کام آتے ہیں۔ اسکی پھلیاں بھیڑ بکریوں کی اچھی خوراک ہیں۔ اس سے نکلی ہوئی گوندقبض کی بیماری میں شفا ہے۔

شیشم: شیشم ضلع اٹک کے زرخیز علاقوں میں بکثرت پایا جاتا ہے۔ کالا چٹا کے جنوب میں کم پایا جاتا ہے۔ ضلع کے مشرقی حصوں میں ندیوں اور نالوں کے کنارے عموما” ملتا ہے۔

کاہو: سب سے اہم اور مفید درخت ہے۔ یہ جنگلی زیتون کا درخت ہے جو کالا چٹا ، کھیری مورت اور کواگر کی پہاڑیوں میں ملتا ہے۔ یہ ہمیشہ اچھی زمین اور چونے کے پتھر کی نشاندہی کرتا ہے۔ بھیڑ بکریاں اسکے پتے کھاتی ہیں۔ اسکا پھل نہ تو کھایا جاتا ہے اور نہ اس سے تیل نکلتا ہے۔ البتہ لکڑی سخت ہے اور بہت اچھی ہے۔ چھڑیاں، کنگھیاں، گلے کے زیور اور مالائیں اس سے بنتی ہیں۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

نگار ضو تر ے قدموں کا دھوون

بدھ دسمبر 2 , 2020
الفاظ کی صوتی ترنگ جب بالیدگیء افکار پہ دستک دیتی ہے تو الفاظ کی رم جھم اشعار کی صورت میں ایک ریشمی تبسم لے کر شعر میں ڈھلتی ہے غم گسارِ دل فگاراں مدنی آقاؐ کاعشق اسے نعت کا آہنگ عطا کرتا ہے
نگار ضو تر ے قدموں کا دھوون

مزید دلچسپ تحریریں