ہجرت کے دکھ
مصنفہ: سدرہ منور
زیبو بی بی اپنے نئے گھر کی تعمیر پر بہت خوش تھی کچے صحن میں چکنی مٹی کا لیپ کرنے کے بعد گھر کے آنگن میں نیم کے درخت کے نیچے چارپائی ڈال کے بیٹھی زیبو بی بی اپنے پوتے کے گھر آنے کا انتظار کر رہی تھی۔
"نی سرداراں! ویر گھر آون والا اے چھیتی روٹی پکا لے۔”
"اچھا بی بی!” سرداراں نےدھیمے لہجے میں جواب دیا۔ سردارں بی بی اور محمد طفیل زیبو بی بی کا کل سرمایہ حیات تھے۔ دونوں ابھی بہت چھوٹے تھے جب والدہ کا انتقال ہو گیا۔ والدہ کے بعد والد کی عمر نے زیادہ دیر وفا نہ کی اور وہ بھی بچوں کو چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے۔ بیٹے اور بہو کی اس ناگہانی موت پر زیبو بی بی شدید رنجیدہ تھی۔ ان یتیم بچوں کا اللہ کے بعد واحد سہارا زیبو بی بی تھی۔ ان دونوں کی دنیا بھی صرف اپنی دادی تک ہی محدود تھی۔ زیبو بی بی کے چھ بیٹے تھے مگر صاحب اولاد ایک ہی بیٹا تھا یعنی محمد طفیل اپنے خاندان کا اکلوتا وارث اور دادی کا لاڈلا تھا۔ محمد طفیل نہایت سیدھا سادہ دنیا کے داؤ پیچ اور دھوکے سمجھنے سے قاصر نوجوان تھا۔
وقت کا پہیہ چلتا رہا ماہ و سال گزرتے رہے یہاں تک کہ زیبو بی بی نے اپنی پوتی سردارں بی بی کا نکاح کر دیا۔ اب وہ فکر مند تھی اپنے اکلوتے وارث کی شادی کے لیے۔زیبو بی بی نے بڑے چاؤ سے نیا گھر بنایا۔ یہ سال تھا اگست 1947 کا زیبو بی بی کے گھر میں خوشیاں مہک رہی تھیں کیونکہ اس کے پوتے کا رشتہ گاؤں کے لمبڑدار ہدایت خان کی بیٹی صغری بی بی سے طے ہو گیا تھا۔ سردارں بھی خوشی سے سرشار اکلوتے بھائی کی شادی کی تیاری میں دادی کا ہاتھ بٹانے کے لئے آ چکی تھی پھر وہ دن آ گیا جب صغری اور محمد طفیل کا نکاح ہو گیا۔ زیبو بی بی اور سرداراں صغری کے جہیز میں آنے والے رنگلے پلنگ، پیتل کے برتن، رنگ برنگے ہاتھ کے بنے بستر اور دیگر سامان سمیٹ رہی تھیں۔ صغری نہایت سمجھدار، معاملہ فہم، دور اندیش اور پرہیزگار خاتون تھی۔ زیبو بی بی نہایت خوش تھی کہ وہ اپنے فرض سے سبکدوش ہو گئی مگر وہ کب جانتی تھی کہ اس کی یہ خوشی عارضی ہے۔
محمد طفیل چارپائی پہ لیٹی دادی کے پاؤں دباتے ہوئے بتا رہا تھا۔”بی بی بڑا شور مچا ہے کہ ہندوستان کے دو حصے ہو جائیں گے ایک حصہ پاکستان بن جائے گا اور ایک حصہ ہندوستان۔”
"میرا پتر تو دھیان نال اپنا کام کر ساڈا گھر اے اسیں کتھے جانا اے چھڈ کے اے بس لوکاں دے منہ دیاں گلاں نے۔” ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ شور تیزی پکڑتا گیا۔ اب زیبو بھی فکر مند ہونے لگی۔ زیبو بی بی اپنی اس فکر کا اظہار اپنے پوتے اور بہو سے کر رہی تھی۔ دونوں نے تسلی دی کہ بی بی اللہ سے دعا کرو اللہ تعالی سب دی خیر کرے۔
"پر پتر مینوں خیر نظر نہیں آ رہی۔” اسی فکر میں دن گزرتے گئے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ حالات خراب ہوتے گئے۔ اب ارد گرد کے گاؤں کے لوگوں نے اپنے مال مویشی اور قیمتی سامان محفوظ مقام پر منتقل کرنا شروع کر دیا۔
بری خبروں کے آنے کا سلسلہ جاری تھا۔اب اس بات پہ سب کو یقین آ چکا تھا کہ ہندوستان کی تقسیم ہو گی۔مگر اتنی دردناک یہ کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا۔ معمول کے مطابق زندگی رواں دواں تھی۔ دوپہر کے کھانے کے لیے صغری بی بی تندور پر گرم گرم روٹیاں لگا رہی تھی۔ مٹی کے مٹکے میں ٹھنڈی لسی مکھن سے بھرا پیتل کاپیالہ آنگن کی گھنی چھاؤں اور گھر کے بھولے مکین آنے والی مصیبت سے بےخبر اپنی زندگی میں مگن تھے۔ ایک دم سے باہر سے زوردار آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔
"نسو نسو اپنی جان بچاؤ جتھے آ گئے نے۔” یہ آوازیں سن کے زیبو بی بی کا کلیجہ منہ کو آ گیا۔
"یا اللہ! خیر کری۔” اتنے میں کسی نے زور سے دروازہ پیٹا اور کہا۔
"طفیل گھر دیا بیبیاں نو لے کے جلدی نکل جا۔ امرتسر ہندوستان داحصہ بن گیا اے۔” محمد طفیل نہایت پریشانی کے عالم میں اندر کی طرف پلٹا گھر کی خواتین کو کوئی بھی بات بتانے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ ساری بات سن چکی تھیں۔ صورتحال نہایت خوفناک تھی ۔
بلوائیوں نے مسلمانوں کے گھروں کو لوٹنا شروع کر دیا تھا۔ گاؤں کے تمام لوگ ایک جگہ جمع ہو رہے تھے اور تیزی سے گاؤں سے نکلنے کی تیاری کر رہے تھے۔ زیبوبی بی نے بہو اور بیٹے سے کہا کہ ضروری سامان لو اور جلدی سے نکل جاؤ میری فکر نہ کرو میں گھر کا خیال رکھوں گی۔اس وقت سب کے ذہنوں میں یہ بات تھی کہ یہ فسادات چند دن کی بات ہے اس کے بعد سب اپنے گھروں کو واپس آجائیں گے۔ محمد طفیل اپنی دادی کو چھوڑ کر جانے کے لیے کسی طرح سے تیار نہیں تھا۔ جب کہ حملہ آور تیزی سے گاؤں کی طرف بڑھ رہے تھے۔ گاؤں کے مکین قافلے کی صورت میں گاؤں کو چھوڑ کر جا رہے تھے۔ زیبو بی بی نے زبردستی اپنے بہو اور بیٹے کو قافلے کے ساتھ روانہ کیا۔ تینوں روتے ہوئے ایک دوسرے سے آخری دفعہ ملے۔ صغری بی بی نے پیتل کی ایک دیگچی میں چند روٹیاں رکھیں قرآن پاک کو سینے سے لگایا اپنے گھر پر آخری نظر ڈالی اور روتے ہوئے بےسروسامانی کے عالم میں منزل سے بے خبر گھر سے چل پڑے۔
جیسے ہی قافلہ گاؤں سے باہر نکلا تو حملہ آور گاؤں میں پہنچ گئے۔ مسلمانوں کے گھروں کو لوٹنا شروع کر دیا گیا۔ زیبو بی بی کا گھر بھی انہی لاکھوں بد قسمت گھرانوں میں سے ایک تھا۔ زیبو بی بی تن تنہا گھر میں بیٹھی ہے۔ اتنے میں حملہ آور گھر میں داخل ہوتے ہیں۔ چند ماہ قبل آئے جہیز کے سامان کو بے دردی سے لوٹنا شروع کر دیا۔
"ہائے رحم کرو میری پوتی دا سامان نہ لے کے جاؤ۔” زیبو بی بی کی چیخ و پکار زمین و آسمان ہلا رہی تھی۔مگر کوئی سننے والا نہیں تھا۔ بوڑھی زیبو قیامت کا یہ منظر اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہی تھی بوڑھی آنکھوں میں قیامت خیز منظر دیکھنے کی سکت کہاں تھی۔ زیبو بی بی اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی۔ دوسری طرف قافلہ گاؤں کی حدود سے باہر نکل چکا تھا۔
محمد طفیل نہایت رنجیدہ تھا اپنی دادی کو اس طرح اکیلے چھوڑنے پر، پھر ایک گہری سوچ کے بعد سب کے کہنے اور روکنے کے باوجود وہ گاؤں کی طرف واپس پلٹا سب نے لاکھ منع کیا کہ واپس نہ جاؤ مارے جاؤ گے مگر وہ نہ رکا۔ تیزی سے گاؤں میں داخل ہوتے ہوئے اپنے گھر کی طرف دوڑا مگر گھر کا منظر دیکھ کر کیا قیامت ٹوٹ پڑی بوڑھی دادی پاگل ہو چکی تھی۔ گھر لٹ چکا تھااس نے جلدی سے دادی کو کندھوں پر اٹھایا اور واپس قافلے کی طرف چل پڑا کوئی سواری پاس نہیں تھی۔ موت کا خطرہ ہر طرف منڈلا رہا تھا مگر مارنے والے سے بچانے والا زیادہ بڑا ہے۔ دونوں دادی پوتا بحفاظت قافلے کے ساتھ جا ملے۔
چونکہ زیبو بی بی اپنا ذہنی توازن کھو چکی تھی اس لیے وہ چیخ و پکار کر رہی تھی جو منظر اس کی آنکھوں نے دیکھا وہ اسی کا ماتم کر رہی تھی۔ قافلہ بغیر کسی منزل کے تعین کے چل رہا تھا۔ مرد عورتوں کے گرد ایک حفاظتی حصار بنا کے چل رہے تھے۔ سردارں بی بی اپنی دو سال کی بیٹی کو اٹھائے انجان منزل کی طرف چل رہی تھی۔رات کا اندھیرا بے سر و سامانی کا عالم، بھوک اور پیاس کی شدت، موت کے منڈلاتے سائے، خون سے رنگین زمین، معصوم جان کہاں یہ سب سہہ سکتی تھی۔ سردارں بی بی کی بیٹی منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ گئی۔ ایسے کئی معصوم لاشے بےگور و کفن پڑے تھے۔
تین یا چار دن کے بعد یہ لٹا پٹا قافلہ پاکستان کی سرزمین میں داخل ہوا اور لاہور پہنچ گیا۔ محمد طفیل زیبو بی بی کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر امرتسر سے لاہور تک لے آیا۔ اب یہ گاؤں کے تمام لوگ ایک مہاجر کیمپ میں تھے۔ مہاجر کیمپ میں جب قافلے پہنچ رہے تھے تو ہر طرف قیامت صغری برپا تھی۔زخموں سے چور مہاجر سکھوں کے ہاتھوں برباد عورتیں اور چیختے چلاتے ماں باپ سے بچھڑے بچے ہر طرف مہاجر کیمپ میں پھیلے ہوئے تھے۔اللہ کے کرم سے محمد طفیل اور ان کا پورا گاؤں باحفاظت مہاجر کیمپ تک پہنچ گیا تھا۔
کچھ دن مہاجر کیمپ میں رہنے کے بعد محمد طفیل اپنی بیوی اور دادی کو لے کر صغری بی بی کی بہن عائشہ کے خاندان کے ساتھ لایل پور کے نواحی قصبے ڈجکوٹ میں منتقل ہو گیا۔ جیسے ہی یہ لوگ اپنی منزل پر پہنچے اسی دن زیبو بی بی اپنے خالق حقیقی سے جا ملی۔ قیامت کے بعد ایک اور قیامت مہاجر کیمپ میں ملنے والا کفن زیبو بی بی کو پہنا دیا گیا۔ یوں شہر کے قبرستان میں پہلی مہاجر زیبو دفن ہو گئی۔چند کلو گیہوں جو مہاجر کیمپ میں دیے گئے صغری بی بی ہاتھ میں لیے چکی ڈھونڈ رہی ہے۔ تاکہ اس کو پیس کے پیٹ کی آگ کو ٹھنڈا کیا جا سکے۔ کوئی اپنا پاس نہیں جو اس غم کی گھڑی میں تین وقت کا کھانا دے سکے۔
صغری بی بی کے گاؤں کے تمام لوگ لائل پور کے ایک اور نواحی گاؤں میں منتقل ہو گئے تھے۔ صغری بی بی کے والد کا شمار گاؤں کے سرکردہ لوگوں میں ہوتا تھا اور محمد طفیل بھی اچھے زمیندار گھرانے سے تھا۔ اپنے گاؤں کے لوگوں کے ساتھ ان کا پیار محبت اور انسیت تھی کہ گاؤں کے لوگ ان کو ڈجکوٹ شہر سے واپس اپنے پاس لے آئے۔ یوں زندگی ایک نئے انداز سے شروع ہو گئی۔ زندگی کا یہ رنگ بڑا اذیت ناک تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ حالات بدلتے گئے وقت گزرتا گیا مگر صغری بی بی اور محمد طفیل کے ہجرت کے دکھ بر قرار تھے۔
رات کو کھلے صحن میں بیٹھے صغری بی بی کے پوتے پوتیاں ہر روز فرمائش کرتے بڑی امی کہانی سناؤ آپ پاکستان کیسے آئے؟ اس کے ساتھ ہی آنسوؤں کی ایک لڑی صغری بی بی کی گالوں پر بہنے لگتی اور وہ کہانی سناتے ہوئے بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگتی اور بچے حیران ہو کے دیکھتے کہ بڑی امی رو کیوں رہی ہیں۔کیونکہ وہ اس درد سے نا آشنا تھے جس سے وہ گزری تھی۔ ان کے لیے وہ صرف ایک کہانی تھی مگر انہوں نے اس کہانی کے تمام دکھ اپنی جان پر سہے تھے۔
میں صغری بی بی کی پوتی 73 سال کے بعد ان کے دکھ کی کہانی کو زیب قرطاس کرتے ہوئے اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکی۔ تو ان کا کرب کتنا شدید تھا جنہوں نے یہ سارے منظر اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ صغری بی بی کا انتقال 2001 اور محمد طفیل کا انتقال 2009 میں ہوا مگر آخری وقت تک ہجرت کے دکھ تازہ تھے۔ آج ہم نے 14 اگست کو میوزیکل نائٹ ون ویلنگ شور شرابہ اور انجوائے کرنے کا دن بنا لیا کیونکہ ہم ان دکھوں تکلیفوں اور بھیانک مناظر کو نہیں جانتے جو اس دن پیش آئے۔ آئیے عہد کریں اگست کے اس مہینے کو جاہلوں کی طرح نہیں بلکہ ایک مہذب قوم کی طرح منائیں گے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد کریں گے۔ جس مقصد کے لیے یہ سرزمین پاک وجود میں آئی۔ اللہ اس سرزمین کا حامی و ناصر ہو آمین یا رب العالمین
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |