ہجر میں روتے ہوئے دو نین
تبصرہ نگار:۔ سید حبدار قاٸم
تنویرِ نعت دل کو تاباں کر کے انسان کی نہ صرف سیرت اجالتی ہے بل کہ انسان کو قربِ خدا وند عالم سے ہم کنار کرتی ہے اور اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار بھی کراتی ہے
مجھتے نعت کہتے ہوٸے پانچ چھ سال ہوٸے ہیں یقین جانیے دوسری اصنافِ سخن کی طرف دھیان ہی نہیں جاتا وہ اس لیے کہ اللہ رب العزت نے اپنے کلام میں ارشاد فرمایا ہے:۔
ورفعنا لک ذکرک
یعنی حبیب ﷺ! ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کر دیا ہے
جب آپ ﷺ کا ذکر بلند ہے تو پھر نیچے کیا دیکھنا اللہ پاک کے بعد آپ ہی ہیں جن کا ذکر بلند ہے آپ کو سلاموں اور درودوں میں یاد رکھنا چاہیے میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ جب ہم حضور ﷺ کو اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ کہتے ہیں تو حضور ﷺ اس کا جواب دیتے ہیں اور آپ کا جواب دینا ہماری سلامتی کا باعث بنتا ہے کیوں کہ حضور ﷺ کا وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ کہہ دینا ہماری سلامتی کے لیے حرفِ آخر ہے کیونکہ آپ ﷺ کا کہا ہوا رب نہیں ٹالتا۔
درود و سلام کے بعد ارفع ذکر نعت کی صورت اختیار کرتا ہے اور شاعر کو یہ فضیلت صفِ حسانؓ میں جا کھڑا کرتی ہے داود تابش بھی ان خوش نصیب شعرا میں شامل ہیں جنہیں یہ فضیلت حاصل ہے نعت کے ساتھ سلام و مناقب اسی طرح نعت کو مکمل کرتے ہیں جس طرح درود پاک میں آلِ مُحَمَّد ﷺ کا ذکر درود کو مکمل کرتا ہے
داود تابش کی نعت کو اسی لیے میں مکمل کہتا ہوں کیونکہ درِ بتول سلام اللہ علیہا میں سلام و مناقب دونوں موجود ہیں۔
داود تابش میں حسنِ موسیقیت انہیں دوسرے شعرا سے ممتاز کرتی ہے کیونکہ وہ صوتی ترنگ سے واقف ہیں اس بار انہوں نے کتاب پر کسی سے راٸے بھی نہیں لکھواٸی کیوں کہ میرے خیال میں آپ نے سوچا ہو گا کہ میں جن پر لکھ رہا ہوں یہ کتاب انہیں پسند آ جاٸے تو بات بن جاٸے گی دنیا والے تو حاسد ہیں ادب کی دنیا میں حسد اس قدر زیادہ ہے کہ کٸی ادبی گدی نشین دوسرے شعرا کا لکھنا بھی پسند نہیں کرتے اور انہیں منع کرتے ہیں کہ کم لکھا کریں اور یہ بات مجھے بھی کہی گٸی ہے کہ کم لکھا کریں بھاٸی ہم سرکار ﷺ کا ذکر کر رہے ہیں جس قدر ہماری توفیق ہے تو اس میں آپ کیوں کوٸلہ ہو رہے ہیں
بہرحال مسلسل نعت کی خوشبو میں رہنے سے انسان کے کردار میں تبدیلیاں آتی ہیں داود تابش صاحب کی سرشت میں بھی درخشانی نظر آتی ہے آپ تحمل مزاج صابر اور پیکرِ اخلاص ہیں کچھ عرصہ پہلے کچھ کم ظرف لوگوں نے آپ کو تکلیف دی جس پر آپ کی خاموشی آپ کے حسنِ کردار کی منہ بولتی تصویر ہے
جہاں تک میں نے آپ کے کلام کو دیکھا ہے مجھے اسے میں سلاست و بلاغت نظر آٸی ہے آپ کے کلام کا حسن، تلمیحات اور استعارات ہیں جو آپ کے اشعار میں نمایاں ہیں خوبصورت ردیفوں کا استعمال آپ کے جمالِ سخن کی دلیل ہے میری جوں جوں آپ سے ملاقاتیں بڑھ رہی ہیں آپ کے کردار کا حسن سامنے آ رہا ہے
داود تابش فروغِ نعت کے لیے فتح جنگ شہر میں ایک حوالہ ہیں آپ نعت خوانوں کی تربیت کرتے ہیں اور جوانوں کو نعت کی طرف ابھارتے ہیں
آج کل کچھ لوگوں نے سوشل میڈیا کو فروغِ نعت کی گدی بنایا ہوا ہے اور ایسے گدی نشین ہی اصل میں نعت گوٸی اور نعت خوانی میں رکاوٹ بنتے ہیں نعت کانفرنسوں میں ان گدی نشینوں کو دعوت دی جاتی ہے اور سٹیجوں کی زینت بنایا جاتا ہے ہم جیسوں کو آج تک ایسی کسی کانفرنس میں دعوت نہیں دی گٸی حالانکہ ہم بھی اپنی بساط کے مطابق نعت کی خدمت کر رہے ہیں
ایسے لوگ ہر سال فروغ نعت پر ایوارڈ شو منعقد کراتے ہیں اور آپس میں تقسیم کر کے واہ واہ کرتے ہیں میں نے ایسے کٸی لوگوں کے قریب ہونے کی کوشش کی ہے لیکن گدی نشینوں کے دلوں پر بھی سٹیٹس پرستی اور زر پرستی کے جالے ہیں یہ دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوا اور یہ لوگ اپنے خاص دوستوں کو اپنے سے کم تجربہ کار نعت گو شعرا کی حوصلہ افزاٸی سے بھی منع کرتے ہیں اور ایسے گدی نشینوں کا یہ جملہ غریب نعت گو شعرا کے لیے بہت مشہور ہے
” اِساں کجھ نٸیں نیں آنا وینا”
یعنی یہ شخص کچھ بھی نہیں جانتا ۔ نفرت کا یہ نشتر ان کے سینوں کی کالک ہے ایسے لوگوں کے دور میں داود تابش ایک روشنی کی کرن ہیں جو اپنی طاقت کے مطابق فروغِ نعت کر رہے ہیں
باباٸے اٹک نعت گو حضرت سعادت حسن آس بغیر کسی لالچ اور پذیراٸی کے فروغِ نعت کرتے نہیں تھکتے اور مجھ جیسے کٸی افراد کو نعت گوٸی کی طرف لاٸے ہیں داود تابش کی کتاب درِ بتول پر پہلا تبصرہ انہوں نے لکھا ہے جسے پڑھ کر میرا دل بھی خوش ہو گیا ہے کیوں کہ وہ اپنے جونیٸر شعرا کی حوصلہ افزاٸی بہت خوش دلی سے کرتے ہیں
اور یہ خاصہ ہر کسی کے نصیب میں کہاں ہے
بہرحال داود تابش ایسے لوگوں سے الگ مزاج رکھتے ہیں اور نعت کا فروغ چاہتے ہیں اپنے نٸے ادبی مجلہ میرے لفظ کا پہلا شمارہ بھی نعت نمبر شاٸع کر رہے ہیں یہ نعتیہ مضامین اور انعات پر مشتمل ہے جو ان کی نعت سے محبت کا ثبوت بھی ہے داود تابش کی فکری عفت اور اسلوبیاتی صباحت ان کے کلام سے عیاں ہے
درِ بتول سلام اللہ علیہا میں داود تابش کی مودتوں میں ڈھلے فن پاروں کے عکس ہاٸے جمیل ان اشعار میں ملاحظہ فرمایے:۔
اپنے شانوں پہ جو کاتب ہیں انہیں کہتا ہوں
ہجر میں روتے یہ دو نین برابر لکھنا
حد سے سوا حیات میں خواہش نہیں رہی
اتنا ہی رزق دے جو ضرورت ہے کردگار
میں مطمٸن ہوں عالم محسوس میں بہت
خوش ہیں حضور ﷺ آپ کے حسنین شکر ہے
یہ مودت مری کیجیے گا قبول
اور ہے پاس کیا سیدہ فاطمہ
حضور ﷺ آپ نے بخشا وقار غربت میں
بڑے بڑوں میں کیا ہے شمار غربت میں
آج کی بات نہیں قلب حزیں تابش کا
عشقِ احمد ﷺ سے یہ سرشار بڑی دیر ہے
نعت کہتا ہوں عنایت ہے شہ والا کی
میرے اشعار میں برکت ہے شہ والا کی
رفعت سید ابرار سمجھتا کیسے
پیکر خاک ہوں کیا نور کا ادراک ملے
ظلمتِ شب کا فسوں ٹوٹ گیا اہل خرد
یوں زمانے میں سحر ذات پیمبر سے ہوٸ
افلاس رکاوٹ ہے مدینے کے سفر میں
اسباب بنا دیجیے سرکار ﷺ دوبارہ
سنبھالتی ہے سنبھالے گی حشر میں مجھ کو
حضورﷺ آپ کی رحمت پہ ہے یقیں پختہ
کتنا ہے کرم سید ابرار ابھی تک
ہر نخل تمنا ہے ثمر بار ابھی تک
مثلِ جامی تو نہیں ان ﷺ کے کرم سے لیکن
میرے اشعار میں صد شکر اثر کافی ہے
زندگی لگنے لگی جیسے ہی تاریک مجھے
کر لیا سید لولاک ﷺ نے نزدیک مجھے
کون لے گا خبر اس بشر کی ادھر
جس کو خیر البشر ﷺ نے کیا مسترد
وہ دن حیات میں یوم سعید ہوتا ہے
کہ جس میں نعت کا مصرع کشید ہوتا ہے
دمبدم میری ضرورت میرے خواجہ کی نظر
صرف جینے کی ہے صورت میرے خواجہ کی نظر
درد والوں کا جو سوال بھی ہے
اس کا تابش جواب نعت میں ہے
کمرے میں عشا پڑھ کے تصور میں بصد شوق
تصویر مدینےکی بناتا رہا شب بھر
مصرع بھی نہیں ہوتا کسی طور غزل کا
یہ نعت پیمبر کی ہے تاثیر شب و روز
جو در سید والا پہ اماں ملتی ہے
اور اس عالم امکاں میں کہاں ملتی ہے
بات سے بات چلی بات مدینے پہنچی
بخت ور ہوں جو مری نعت مدینے پہنچی
کیوں نہ ہوتا میں ظفر یاب عدو سے تابش
میں نے تعداد میں لشکر کو بہتر رکھا
سبحان الله اشعار پڑھ کر دل و نگاہ معنبر ہو گٸے ہیں ایسے بے ساختہ اشعار لکھنا سرکار ﷺ کے کرم کے بنا ممکن نہیں ہے داود تابش بہت خوش قسمت ہیں جن کی بالیدگی ٕ فکر اوج کی طرف گامزن ہے عرفانِ نعت کے مدارج زینہ بہ زینہ طے کرنا خوش قسمت انسانوں کے نصیب میں ہوتا ہے داود تابش ایسے ہی خوش قسمت نعت گو شعرا میں شامل ہیں میں اتنی خوب صورت کتاب لکھنے پر انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ پاک ان کو مزید کامیابیوں سے سرشار فرماٸے۔آمین
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔