کتاب ” سیرت المومنین "کی سطریں اس لیے اس کتاب میں شامل کی ہیں تاکہ شیعہ اثناء عشری اور جو بھی مسلمان کتابِ ھذا کا مطالعہ کرے اسکو نمازِ شب کی اہمیت کا علم ہو۔ حضرت علیؑ نے اجل کی مشکل گھڑیوں میں بھی درسِ نماز دیا اور آپؑ کے دیے ہوئے درس پر اہل بیتؑ کے بقیہ افراد نے کچھ ایسا عمل کیا کہ تاریخ کا سینہ ان سجدہ ریز جبینوں کے ذکر سے منور ہوا پڑا ہے۔
امام حسینؑ کے جسم پر ایک سو تیرہ سوراخ تیروں کے تھے، تینتیس زخم نیزوں کے تھے اور چونتیس زخم تلواروں کے تھے اتنے زیادہ زخموں اور کربلا کے دکھوں کے باوجود نماز کو ترک نہ کیا بلکہ نمازِ شب کا دامن بھی نہ چھوڑا اور مولا علیؑ کی معظمہ بیٹی اور اپنی بہن حضرت زینب سلام اللہ علیہا کو آخری وقت الوداع کرتے ہوئے نمازِ شب کی تاکید کی۔ بی بی پاک نے آپ کے دیے ہوئے درسِ نماز شب پر اسطرح عمل کیا کہ کہ بہتر شہداء کی لاشیں بے گور و کفن چھوڑنے کے باوجود، ہاتھ رسیوں سے بندھے ہوئے ہونے کے باوجود ، اپنے سامنے بھاگتے ہوئے اونٹوں سے گرتے ہوئے معصوم بچوں کو اونٹوں کے پاوں تلے کچلا ہوا دیکھا جانے کے باوجود چار ہزار پانچ سو چھیانوے۔
(4596) میل کی مسافت 36 اور بعض روایتوں کے مطابق 26 شہر ،(72)بہتر بازار 1446 گلیوں اور 288 موڑوں پہ دو دو لاکھ کے ہجوم میں پر نم آنکھوں سے یہ دیکھنے کے باوجود کہ کوئی آکر مجھ سے کہے گا کہ تیرے علی اکبرؑ کا بڑا افسوس ہے ۔ تیرے علی اصغر ؑکی تشنہ لبی میں حرمل کا تیر ستم پیوست ہونے کا بڑا افسوس ہے،تیرے بھائی عباسؑ کے بازووں کے کٹ جانے کا بڑا افسوس ہے،تیرے مظلوم بھائی حسینؑ کا لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک جانے کا بڑا افسوس ہے اور تیری سکینہ ؑ کا زنداں میں گھٹ گھٹ کر مرجانے کا بڑا افسوس ہے اور تیرے پاک قافلے کے لٹ جانے کا بڑا افسوس ہے تیرے زین العابدین ؑکے اسیر ہوکر آنکھوں سے خون رونے کا بڑا افسوس ہے۔ ان کیفیتوں کے باوجود بی بی زینب سلام اللہ علیہا نے نمازِ شب کو ترک نہ کر کے ایک درسِ عظیم دیا ہے۔ اور اکثر نمازیں بی بی نے اپنی سواری کی پیٹھ پر پڑھی ہیں۔ پاک بی بی نے یہ قندیل اسی لیےروشن کی تھی کہ زمانے میں ہم جیسے لوگ اللہ جل شانہ سے لو لگانے کی کاوشِ پیہم کریں۔ خوشنودیء رب العزت کے حصول کے لیے صعوبتوں کا برداشت کرنا ہی بندگی کی معراج ہے۔ حضور اکرم صلٰی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کو بہت طویل قیام کرتے جس کی وجہ سے آپ ﷺ کے پائے اقدس پر ورم پڑ جاتے۔ جب صحابہ کرام استفسار کرتے کہ آپ ﷺتو معصوم ہیں اور آپ ﷺکو اس قدر تکلیف و الم اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے تو آپ ﷺجواب میں ارشاد فرماتے کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ گویا اللہ کا شکر ادا کرنے کا بہترین وقت آدھی رات کے بعد ہی ہوتا ہے۔ ویسے تو دن کی کسی ساعت میں بھی شکر ادا کرنا رحمت خداوندی کے حصول کا موجب ہے لیکن جو مزہ اور تڑپ رات کے سناٹوں میں ہے۔ وہ دن میں نہیں۔ خون دل سے جو چراغ جلائے جاتے ہیں ان کی روشنی جاوداں ہوتی ہے۔ اس لیے راتوں کو زیادہ سے زیادہ اپنے جسم کو تکلیف دے کر رضائے الٰہی خریدی جاسکتی ہے۔ جس کا بہترین انعام جنت ہے۔ کیونکہ بقول شاعر
اسی کو حق ہے فضائے چمن میں رہنے کا
جو اپنے خون سے آرائش بہار کرے
سیّد حبدار قائم
کتاب ‘ نماز شب ‘ کی سلسلہ وار اشاعت
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔