سر زمین بہرائچ جہاں ایک طرف عظیم شہدا ئے اسلام کو اپنے آغوش میں محفوظ کئے ہوئے ہے وہیں دوسری طرف علم و ادب کے شہسواروں کو بھی اپنی خاک سے عالم میں لاتی ہے ،پناہ بھی دیتی ہے اور ساتھ ہی اپنے میں ہمیشہ کے لئے آسودۂ خواب بھی کرتی ہے۔انہیں علم و ادب کے شہسواروں میں ایک نام ایسا ہے جن کا تعلق ایک ایسے علمی خانوادے سے تھا جس نے بہرائچ میں اردو ادب کی شمع جلائی اور آج تک اس خانوادے سے اردو کی خدمت جاری وساری ہے
عبد الرحمن خاں وصفیؔ بہرائچی ضلع بہرائچ کے ایک مشہور استاد تھے۔ وصفی ؔصا حب کی پیدائش ۲۲؍اکتوبر ۱۹۱۴ءکو شہر کے محلہ میراخیل پورہ بہرائچ میں ہوئی تھی۔ آپ کے والد کا نام حافظ عبد القادر اور والدہ کا نام محترمہ مقبول بیگم تھا۔
وصفی صاحب خود رقم کرتے ہیں :۔
”ہمارے مورث اعلیٰ اللہ داد خاں کے والد دور مغلیہ میں کابل کے سرحدی علاقہ وزیرستان حسن خیل ہندوستان وارد ہوے خاندان کے بعض فرد ملیح آباد اور بعض فرد مرادآباد میں قیام پذیر ہوئے۔ ہمارے جداعلیٰ مولوی ضامن علی خاںانیق ؔبہرائچی بہرائچ تشریف لائے اوریہیں کے ہو کے رہ گے۔انیقؔ بہرائچی صاحب بیاض اور صاحب کتاب شاعر تھے۔ انکا سا را علمی اثاثہ ضائع ہوچکا ہے صرف دو مطبوعہ کتابیں مل سکیں جو ابتک محفوظ ہیں۔ ایک کا عنوان ’’مناقب چار یار‘اور دوسری فارسی میں ہے اس کے علاوہ کچھ قلمی نسخے بھی ہیں۔ ‘‘(افکار وصفی ؔ۱۹۸۶ءص۱۱)
ڈاکڑمحمدنعیم اللہ خاں خیالیؔ لکھتے ہیں :۔
”برادر گرامی جناب وصفیؔ ایک شستہ و سنجیدہ شاعرانہ ذوق کے حامل ہیں۔ جوبازار کا خریداہوامال نہیں بلکہ موروثی جائداد ہے اور اس پر حق مالکانہ رکھتے ہیں۔ آپ کے پردادا حضرت ضامن علی خاں انیقؔ تو جناب میر انیسؔ کے ہمعصرتھے۔ ان کا اکثرفارسی اور اردوکلام بشکل مطبوعہ و مخطوطہ موجود ہے۔ اسی لیے وصفیؔ صاحب نے اگرچہ باقاعدہ کسی کی شاگردی اختیا رنہیں کی مگر وراثتہ جو مذاق سخن اس میں پختگی ہے،وقار ہے،ایک اندازہے،ادائیگی کابانکپن ہے،ڈھب سے بات کہنے کا قرینہ ہے۔‘‘(افکار وصفیؔ۱۹۸۶ءص ۱۸-۱۹)
وصفی صاحب نے شاعری کا سفر ۱۹۴۰ء میں ایک آل انڈیا طرحی مشاعرے سے کیا تھا جہاں آپ نے اپنی پہلی غزل پڑھی تھی۔جو انجمن ریاض ادب کے اہتمام میں چھوٹی بازار میں ہوا تھا۔جس کے صدر منشی محمد یار خاں رافت ؔ،جنرل سکریڑی بابو لاڈلی پرساد حیرتؔ تھے۔
دبستان لکھنو کے ممتاز شاعر حضرت والی آسی ؔ لکھتے ہیں :۔
”سید سالار مسعود غازیؒ کی آخری آرامگاہ(بہرائچ) عبد الرحمن خاں وصفی کا مولد و مسکن ہے۔آپ کا خاندان بہرائچ میں کئی پشتوں سے آباد ہے اور ان کے خانوادے میں تصوف اور شاعری کی روایت بڑی قدیم ہے،چنانچہ وصفی صاحب کے کلام پر صوفیانہ رنگ کی جھلک نمایا طور پر نظر آتی ہے۔ “(افکار وصفیؔ پر بیک کور پر تعارف )
نعمت ؔ بہرائچی لکھتے ہیں:۔
”وصفیؔ صاحب کے کلام میں صوفیانہ رنگ کی جھلک نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔جملہ اصناف سخن پر دسترس کے باوجود غزل سے آپ کو ایک خاص لگاؤ تھا۔شاید اسی لئے وہ مشاہدۂ حق کی تمام ترگفتگو بادہ و ساغر کے پردے میں کرتے ہیں۔اعلیٰ سے اعلیٰ مضامین کو وہ ایسی سادگی اور سلاست کے ساتھ بیان کر جاتے ہیں کہ غزل اپنی تمام جلوہ سامانیوں کے ساتھ دلوں میں اترتی چلی جاتی ہے۔پچاس سال سے زیادہ آپ نے ادبی خدمات انجام دی۔“(تذکرۂ شعرائے ضلع بہرائچ،۱۹۹۴ء ص۷۲)
عبرت ؔبہرائچی صاحب لکھتے ہیں کہ وصفیؔ صاحب انجمن ریاض ادب کے سکریٹری تھے۔(جذبات شفیعؔ ص۳۶)
وصفی صاحب کے شاگروں میں زائر حرم قاری عبد الطیف نوری لطیفؔ بہرائچی،اطہرؔرحمانی اور فیضؔ بہرائچی کا نام قابل ذکر ہے۔ ۱۹۸۶ءمیں فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی لکھنؤ اتر پردیش کے مالی تعاون سے آپ کی غزلوں کا مجموعہ ’’ افکار وصفی ‘‘ شائع ہوا تھا۔
وصفیؔ صاحب میرے پرنانا حاجی شفیع اللہ شفیعؔ بہرائچی کے خاص دوستوں میں تھے۔وصفی صاحب ہر روز شام کو دکان پر آتے تھے۔آپ نے میرے پردادا حاجی قادر میاں چونے والے(برادرحاجی شفیع اللہ شفیعؔ بہرائچی) کے انتقال پُر ملال پر ایک نظم کہی تھی جس کا قلمی نسخہ آج بھی ہمارے یہاں موجود ہے ۔جو دکان کے پیڈ پر لکھی ہوئی ہے۔وصفی ؔ صاحب شہر کے معروف گھڑی ساز بھی تھے۔
وصفیؔ بہرائچی کا انتقال ۱۳؍اپریل۱۹۹۹ء میں شہر بہرائچ کے محلہ قاضی پورہ میں واقع مکان میں ہوا تھا اور تدفین شہر کے مشہور قبرستان مولوی باغ میں جد امجد حضرت انیقؔ بہرائچی کے پہلو میں ہوئی۔
استاذا لشعرا ء حضرت عبد الرحمن خاں وصفی ؔ بہرائچی کے انتقال پر قطعہ از بشیراحمد خاںکامل ؔبہرائچی
نو روز[1]میں اٹل کی حکومت چلی گئی
اس آنی جانی چیز کا کیا اعتبارہے
غم یہ ہے پرما ننٹ صدارت چلی گئی
یہ غم نہیں کہ حضرت وصفیؔ چلے گئے
نمونہ کلام وصفیؔ
قطعہ
یہ اندرا گاندھی سے سبق ہم کو ملا ہے
فتنہ جب اٹھے کوئی تو طاقت سے دبا دو
وصفیؔہے یہی فرض یہی شرط وفا بھی
اس خاک کے ہر ذرے کو گلزار بنا دو
٭٭٭
متفرق اشعار
مذہب اپنا عشق ہے وصفیؔ
باقی جانیں شیخ و برہمن
٭٭٭
گذرے ہوئے حالات کی تلخی کو بُھلا دیں
اب آئیے ماحول کو شائستہ بنا دیں
٭٭٭
کیا چیز محبت ہے زمانے کو دکھا دو
دل صاف کرو اتنا کہ آئینہ بنا دو
٭٭٭
کیا کیا سپردِ خاک ہوئے نامور تمام
اک روز سب کو کرنا ہے اپنا سفر تمام
٭٭٭
بشر کل تھے کیا آج کیا بن گئے ہیں
اصول ایسے کچھ رہنما بن گئے ہیں
٭٭٭
ترے رحم و کرم کا ہوں غلام میکدے میں
مرے نام کا بھی ساقی کوئی جام میکدے میں
مرے ساقیا دعا کر مرے سا قیا دعا کر
مجھے آئے گر اجل کا تو پیام میکدے میں
غزل
دل ان کی محبت کا جو دیوانہ لگے ہے
یہ ایسی حقیقت ہے جو افسانہ لگے ہے
عالم نہ کوئی پوچھے مری وحشت دل کا
گھر اپنے اگر جاؤں تو ویرانہ لگے ہے
بڑھتے نہیں کیوں میرے قدم آگے کی جانب
نزدیک ہی شاید در جانانہ لگے ہے
ویسے تو کسی نے مجھے ایسا نہیں جانا
دیوانہ کہا تم نے تو دیوانہ لگے ہے
روداد الم ان سے جو قاصد نے بیاں کی
فرمانے لگے ہنس کے یہ افسانہ لگے ہے
میں نے تو بنائی تھی فقط آپ کی تصویر
دل میرا مگر آج صنم خانہ لگے ہے
اب اپنا بھی بیگانہ نظر آتا ہے وصفیؔ
بیگانہ تو بیگانہ ہے بیگانہ لگے ہے
سابق وزیر اعظم پنڈت اٹل بہاری واجپئی کی پہلی حکومت (۱۹۹۶ء)جو صرف تیرہ روز رکی تھی کی طرف شاعر نے اشارہ کیا ہے۔(جنید احمد نور)[1]
جنید احمد نور
بہرائچ، اتر پردیش
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔