حسن نصیر سندھو:طنز و مزاح کا ایف 16

حسن نصیر سندھو:طنز و مزاح کا ایف 16

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی٭

(ورلڈ ریکارڈ ہولڈر)

[email protected]

حسن نصیر سندھوطنزیہ و مزاحیہ تحریریں لکھتے ہیں بہت اچھا لکھتے ہیں آپ کی تحریر قارئین کے چہرے پر مسکراہٹ لاتی ہے، آپ طنز و مزاح کے ایف 16 ہیں۔ آپ نے اپنی دلچسپ تحریر ”ماں بولی پنجابی” میں پنجابی زبان کی اہمیت اور اس کی چاشنی پر روشنی ڈالی ہے، آپ کی یہ تحریر ایک دلکش، طنزیہ، اور جذباتی انداز میں پنجابی زبان کی وکالت کرتی ہے۔ اس تحریر میں نہ صرف پنجابی زبان کی خوبصورتی کو اجاگر کیا گیا ہے بلکہ اس کے مقابلے میں انگریزی اور اردو کے استعماری اثرات کو بھی طنز کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔حسن نصیر سندھو لکھتے ہیں”جیتے جی اگر اپنی ماں بولی پنجابی کے حسن پر نہ لکھا تو پھر کیا لکھا۔ اگرچہ میں بھی ان مظلوم بچوں میں سے تھا، جنہیں بچپن سے ہی یہ وہم دل میں ڈال دیا جاتا ہے، کہ اردو اور انگلش بولنے والے ہی صرف تہذیب یافتہ ہوتے ہیں اور پنجابی بولنے والے پینڈو۔ جب کہ میرے نزدیک پنجاب کا مطلب ہی یہ ہے، کہ پنجابی بولنے والوں کا علاقہ۔ خیر جب ہم ایف سی کالج لاہور گیارہویں جماعت میں ہاسٹل میں رہنے کے لیے گئے، تو مختلف علاقوں اور دیہاتوں سے آئے گبرو جوانوں کی پنجابی سن کر اس زبان کے گرویدہ ہو گئے۔اور پنجابی باقاعدہ سیکھی۔ اور اب عادت یہ ہے، کوئی انگلش میں بھی بات کر رہا ہو، تو جواب ہمارا پنجابی ہی ہوتا ہے۔ شروع شروع میں لاہور کی لڑکیوں نے ہمیں پینڈو پینڈو کہہ کر مجھے اور مجھ جیسوں کو احساس کمتری کا شکار کرنے کی کوشش ضرور کی، پر انہیں منہ کی کھانی پڑی، کیونکہ ہم لڑکوں میں اس احساس نامی چیز کی کمی اور oucre سے سفید لٹھا کا سیلا سوٹ اور بوٹس کی لمبے منہ والی جوتی پہننے کی لگن زیادہ تھی”۔

تحریر کا آغاز مصنف کے ذاتی تجربات سے ہوتا ہے جہاں وہ اپنے بچپن کے اُن لمحات کا ذکر کرتے ہیں جب پنجابی بولنے والے بچوں کو احساس کمتری کا شکار بنایا جاتا تھا۔ اس بیان سے وہ معاشرتی تعصب کو نمایاں کرتے ہیں جو مقامی زبانوں کے خلاف عام ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ "پنجابی بولنے والے پینڈو” تصور کیے جاتے ہیں، اس بات کا غماز ہے کہ ہماری تہذیبی شناخت پر بیرونی اثرات نے کیسا گہرا اثر ڈالا ہے۔ حسن نصیر رقمطراز ہیں ” پنجابی میں ہم oh my God نہیں کہتے،بلکہ اپنے سینے پر ہاتھ مار کر ہائے او میرے ربا بولتے ہیں۔ پنجابی میں ہم Are you happy now نہیں بولتے کتے بلکہ بولتے ہیں ” پے گئی ہن تھنڈ کلیجے نوں” ۔

پنجابی میں ہمbuzz off نہیں بولتے بلکہ منہ کو تھوڑا سا اوپر کر کے "در فٹے منہ” بولتے ہیں۔ پنجابی میں ہم Get off my back نہیں کہتے،بلکہ اپنے دائیں ہاتھ کو ہوا میں نچاں کر کہتے ہیں "جا مگروں وی لے جا”۔ پنجابی میں ہم To each their own نہیں کہتے، بلکہ سکھ کا سانس لیتے ہوئے کہتے ہیں "سانوں کی”۔ ایک دوسرے سے ملتے ہیں پنجابی میں ہم what’s upنہیں کہتے، بلکہ "ہور کوئی نوی تازی سنا ویرا ” کہتے ہیں۔”

حسن نصیر سندھو نے پنجابی اور انگریزی/اردو کے عام الفاظ اور جملوں کا دلچسپ تقابل کیا ہے، جو تحریر کو دلکش اور مزاحیہ بناتا ہے۔ مثلاً:”Oh My God” کے مقابلے میں "ہائے او میرے ربا”، "Get off my back” کے بدلے "جا مگروں وی لے جا”، "Social distancing” کو "پراں مر” سے بدلنا، یہ مثالیں نہ صرف پنجابی زبان کے جاندار اور فطری اظہار کی عکاس ہیں بلکہ زبان کی ثقافتی جڑوں کو بھی اجاگر کرتی ہیں۔ مصنف نے یہ واضح کیا ہے کہ پنجابی اپنی منفرد مٹھاس اور طنز کے ذریعے انسانی جذبات کو زیادہ قریب سے بیان کرتی ہے۔ مصنف لکھتے ہیں ” پنجابی میں ہم Behave yourself نہیں کہتے بلکہ "بندے دا پتر بن جا” کہتے ہیں۔ پنجابی میں ہم That’s more than sufficient نہیں کہتے،بلکہ "جناب ہور کی چاہیدا” کہتے ہیں۔پنجابی میں ہم All the bestنہیں کہتے بلکہ پورے مان کے ساتھ بولتے "او چک دے پھٹے”۔ پنجابی میں ہم Get out نہیں بولتے بلکہ سادگی سے بولتے "دفع ہوجا” ۔ پنجابی میں ہم Leave it be نہیں بولتے مجھے بلکل کہ معاملے کو ختم کرنے کے لیے بقول مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین "مٹی پاؤ جی” کہتے ہیں۔

پنجابی میں ہم Mind your own business نہیں کہتے بلکہ ہم آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتے ہیں "تینوں کی”۔ پنجابی میں ہم Welcome نہیں بولتے بلکہ دونوں بازو اور سینہ کشادہ کر کے "جی آیاں نوں” بولتے ہیں۔ پنجابی میں ہم Social distancing نہیں بولتے بلکہ پیار سے بولتے ہیں "پراں مر”۔ اور بقول پاکستانی فلم سٹار میرا ہم Kill the waves نہیں کہتے بلکہ "موجاں مار” کہتے ہیں۔”

مصنف نے زبان کے ذریعے تہذیبی شناخت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح پنجابی بولنے والے نوجوانوں کو معاشرتی سطح پر کمتر سمجھا گیا، لیکن انہوں نے اس احساس کو اپنی زبان سے محبت میں بدل دیا۔ لاہور کی لڑکیوں کے "پینڈو” کہنے پر طنزیہ ردعمل اور خود کو پنجابی زبان کے لیے وقف کرنا ایک مضبوط پیغام ہے کہ اپنی جڑوں سے جڑے رہنا کتنا ضروری ہے۔حسن نصیر لکھتے ہیں ” ہم چھوٹے بچے کو Baby بےبی نہیں بولتے بلکہ کا بولتے ہیں اور لڑکیوں کی تعریف کے لیے Such a Gorgeous lady نہیں بولتے بلکہ "دودھ تے مکھن نال پلی مٹیارے” بولتے ہیں۔
اگر یہ تحریر پڑھ کر آپ کو سمجھ آئی ہے یا نہیں آئی۔ پر اگر اپکے دل کو لگی تو سمجھ لیں آپ کے اندر بھی ایک چھوٹا سا پینڈو زندہ ہے اس لئے ہم آپ کو Congratulate نہیں کہتے بلکہ تہانوں ودھائی ہو کہتے ہیں۔اور اگر آپ کو مزہ نہیں آیا تو ہم پنجابی لوگ ہیں ہمیں جتنا مزہ یہ کہنے میں آتا ہے کہ "میری جوتی نو وی پرواہ نہیں” اتنا I don’t care کہنے میں نہیں آتا۔”

حسن نصیر سندھو کا اندازِ بیان دلکش اور طنزیہ ہے۔ وہ قاری کو ہنساتے ہوئے ایک اہم معاشرتی پیغام بھی دیتے ہیں۔ پنجابی زبان کی اصطلاحات اور انگریزی جملوں کے مابین فرق کو مزاحیہ انداز میں پیش کرنا قاری کو غور و فکر کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیوں ہم اپنی زبان کو کمتر سمجھتے ہیں۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ حسن نصیر سندھو کی یہ تحریر صرف پنجابی زبان کی وکالت نہیں کرتی بلکہ ہر مقامی زبان کے تحفظ اور فروغ کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔نصیر سندھو نے اپنی ماں بولی کے حسن کو اس خوبصورتی سے پیش کیا ہے کہ قاری اپنے اندر کے "پینڈو” کو زندہ محسوس کرتا ہے اور اپنی زبان سے محبت کا ایک نیا پہلو دریافت کرتا ہے۔ تحریر کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ یہ قاری کو نہ صرف ہنساتی ہے بلکہ سوچنے اور غور و فکر کرنے پر بھی مجبور کرتی ہے کہ زبان صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ تہذیب اور ثقافت کی زندہ تصویر ہے۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

ابھی کچھ لوگ باقی ہیں

بدھ نومبر 20 , 2024
اپنی سروس کے دوران بطورِ اردو ٹیچر ،اردو میں بچوں کی خستہ حالی اور کتب بیزاری دیکھ کر مجھے بڑی شدت سے احساس ہونے لگا
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں

مزید دلچسپ تحریریں