حسینہ واجد کا آئینہ خانہ

حسینہ واجد کا آئینہ خانہ

حسینہ واجد کا آئینہ خانہ

یہ دنیا مکافات عمل کی جگہ ہے۔ یہاں انسان جیسا بیج بوتا ہے اسے ویسی ہی فصل کاٹنا پڑتی ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے لوگ روزانہ اپنی انا اور بد اعمالیوں کی وجہ سے نشان عبرت بنتے ہیں۔ لیکن ہم انسان دوسروں کو مقافات سے گزرتے دیکھ کر اس وقت تک سبق نہیں سیکھتے ہیں کہ جب تک خود ہمارے سر پر نہیں آن پڑتی ہے۔ اس پر مستزاد بعض بدبخت تو ایسے بھی ہیں کہ وہ خود پر یہ سب مظالم ڈھا کر بھی زندگی سے کوئی سبق نہیں سیکھتے ہیں۔

ہمارے ہمسائے میں شیخ حسینہ واجد کا انجام ہمارے لیئے ایک بہت بڑا سبق لیئے ہوئے ہے۔ بنگلہ دیش میں وزارت عظمی سے استعفی دے کر ملک و ملک بھاگنے والی حسینہ واجد کے بارے اطلاعات ہیں کہ انہوں نے سیاسی قیدیوں کے لیئے ایک پراسرار “آئینہ گھر” تعمیر کر رکھا تھا جس میں وہ اپنے سیاسی مخالفین کو طرح طرح کی اذیتیں دیتی تھیں۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ عقوبت خانہ اس کے سیاسی قیدیوں کے لیئے کسی جہنم سے کم نہیں تھا۔ پنجابی میں کہتے ہیں کہ “ات خدا دا ویر اے” محترمہ حسینہ واجد کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا کہ عین اس وقت جب وہ ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر ہندوستان بھاگ رہی تھیں طلباء اور عوام اس سے نفرت کی آگ میں جل رہے تھے، اس کے والد کے مجسمہ پر ہتھوڑے برسا رہے تھے، وزیراعظم ہاوس میں توڑ پھوڑ کر رہے تھے، سامان لوٹ رہے تھے اور جو لباس حسینہ واجد پہنتی تھی اسے نفرت و حقارت اور بدتمیزی کے ساتھ ہوا میں لہرا رہے تھے۔

یہ “آئینہ گھر” دراصل اس کے سیاسی مخالفین کے لیئے خوف کا گڑھ تھا۔ یہاں سیاسی قیدیوں کو سخت اذیت ناک سزائیں دی جاتی تھیں جس سے ان کے اندر خوف پیدا ہو جاتا تھا۔ وہاں حراست میں رکھے گئے اور رہا کیئے جانے والے لوگ مشکل سے ہی سے اس بارے میں بات کرتے تھے کہ وہاں ان پر کیا گزرتی رہی تھی۔ جس کی اب تفصیلات سامنے آ رہی ہیں۔

بنگلہ دیش میں 21 اگست سنہ 2016ء کو بیرسٹر احمد بن قاسم ارمان اپنا نارمل دن گزار رہے تھے کہ انہیں ڈھاکہ کے میرپور میں ان کے گھر سے گرفتار کر لیا گیا۔ دو دن بعد، سابق بریگیڈیئر جنرل عبداللہ الامان اعظمی کو بھی قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے 1971ء کی جنگ آزادی میں انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں اٹھا لیا۔ ان دونوں افراد کا مقام شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے تحت چلنے والی ایک خفیہ جیل تھی جو قیدیوں میں “آئینہ گھر” کے طور پر مشہور تھی۔

بنگلہ دیش کے ایک اخبار “ڈیلی آبزرور” کی ایک رپورٹ کے مطابق، ارمان اور اعظمی دونوں کو 8 سال تک بدترین حالات میں بغیر کسی مقدمے کے قید میں اسی جیل خانہ میں رکھا گیا تھا، جنہیں حسینہ واجد کی حکومت کا دھڑن تختہ ہونے کے بعد 6اگست 2024 کو رہا کیا گیا۔

بنگلہ دیش میں اس پراسرار حراستی مرکز کے بارے میں معلومات منظر عام پر اس وقت آئیں جب حسینہ واجد کی حکومت گر چکی تھی اور وہ ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئیں تھیں۔حسینہ واجد کی حکومت لوگوں کو اچانک لاپتہ کرنے اور سیاسی مخالفین کے ساتھ سخت سلوک روا رکھنے کے لیے مشہور تھی مگر عام لوگ اس سے بے خبر تھے کہ اس کے سیاسی مخالفین پر قید کے دوران کیا سلوک کیا جاتا یے۔

اخباری اطلاعات کے مطابق، اس آئینہ گھر کے علاوہ 23 دیگر خفیہ حراستی مراکز بھی تھے، جن میں سے کچھ ڈھاکہ میں بھی تھے۔ ان پراسرار جگہوں میں سے ایک ڈھاکہ چھاؤنی میں بھی تھا جسے آئینہ گھر کہا جاتا تھا۔ اس آئینہ گھر کو مبینہ طور پر بنگلہ دیش کی ملٹری انٹیلی جنس ایجنسی ”ڈائریکٹوریٹ جنرل آف فورسز انٹیلی جنس” (DGFI) چلاتا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں صرف سیاسی قیدیوں ہی کو نہیں رکھا جاتا تھا، بلکہ اس آئینہ گھر کا استعمال شدت پسندوں کو بھی حراست میں رکھنے کے لئے کیا جاتا تھا۔

2024 میں ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق، بنگلہ دیشی فورسز نے سنہ 2009ء سے لے کر اب تک 600 سے زائد لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا تھا، شیخ حسینہ چوتھی بار سال رواں 2024ء میں برسراقتدار آئی تھیں اور ان کی حکومت نے ان جبری گمشدگیوں کی تحقیقات کے لئے اقوام متحدہ کی مدد لینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ خیال رہے کہ بنگلہ دیش میں تشدد کے الزامات کی تحقیقات شاذ و نادر ہی ہوتی ہے جہاں 100 سے زائد افراد ابھی بھی لاپتہ ہیں۔

سنہ 2022ء میں، بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے رہنما مرزا فخر الاسلام عالمگیر نے کہا کہ پارٹی کی قائم مقام چیئرمین اور سابق وزیر اعظم خالدہ ضیاء کے بیٹے طارق رحمٰن بھی آئینہ گھر کا شکار ہوئے۔ طارق رحمٰن، جو بعد میں لندن منتقل ہو گئے تھے والدہ کی رہائی کے بعد بنگلہ دیش واپس جانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

بنگلہ دیش کے اخبار “پرتھم آلو” نے ان کے حوالے سے کہا، “جن لوگوں کو قتل کیا جانا ہوتا ہے، انہیں اس آئینہ گھر کے ٹارچر سیل میں لے جایا جاتا ہے، اور جن لوگوں کو زندہ رکھا جانا ہوتا یے اُنہیں یہاں برسوں تک تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور قید رکھا جاتا ہے”۔

بنگلہ دیش میں اقوام متحدہ کے ریذیڈنٹ کوآرڈینیٹر گیوین لیوس نے جب ڈی جی ایف آئی ہیڈکوارٹر کا دورہ کیا اور آئینہ گھر کے بارے میں سوال کیا تو دی بزنس اسٹینڈرڈ آف بنگلہ دیش کی رپورٹ کے مطابق، لیوس کو بتایا گیا کہ آئینہ گھر کا کوئی وجود نہیں تھا۔ حالانکہ شیخ محمد سلیم گاڑیوں کی مرمت کی دکان پر تھے جب انہیں ایک فون کال کے بعد اغوا کر لیا گیا۔ وہ بھی آئینہ گھر لے جائے گئے۔ حسین الرحمٰن ایک ایوارڈ یافتہ فوجی افسر تھے، جنہیں کئی سال خدمات انجام دینے کے بعد یہاں حراست میں رکھا گیا تھا۔ شیخ محمد سلیم اور حسین الرحمٰن دونوں نے نیٹرا نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ راز فاش کیئے۔ شیخ سلیم نے کہا کہ ان کے سیلوں میں کھڑکیاں نہیں تھیں، ایک اونچی چھت تھی جس میں صرف ایک روشنی کی کرن آتی تھی، جبکہ بلند آواز اور بڑے ایگزاسٹ فین تھے۔ ان پنکھوں کی آوازوں نے کمرے کی ہر دوسری آواز کو غرق کر دیا تھا۔ وہ عمارت کے اندر تھرتھراہٹ محسوس کر سکتے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ قریب میں کوئی ائیرپورٹ یا ائیربیس تھا۔

انہوں نے بتایا کہ پچھلے قیدیوں نے سیل کی دیواروں پر ڈی جی ایف آئی لکھا تھا۔ شیخ سلیم نے نیٹرا نیوز کو یہ بھی بتایا کہ “میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مجھ سے پہلے اس جیل میں کتنے لوگ بند تھے۔” انہوں نے بتایا کہ عقوبت خانہ میں ایک جگہ لکھا تھا: “ڈی جی ایف آئی مجھے یہاں لایا۔” ان کے مطابق کچھ نقش و نگار دوسروں کے مقابلے میں زیادہ جذباتی کرنے والے تھے۔ ایک قیدی نے لکھا تھا، “براہ کرم میرے گھر والوں سے کہیں کہ وہ مجھے تلاش کرنا بند نہ کریں اور انہیں بتائیں کہ حکومت مجھے یہاں لے کر آئی ہے۔”

عقوبت خانے میں شیخ سلیم کو وہ عزت نہیں دی گئی جو دوسرے معزز قیدیوں کو ملتی تھی۔ انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور مارا پیٹا گیا۔ غریب دوست ڈاکٹر یونس شیخ حسینہ کو کبھی ایک آنکھ نہیں بھائے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک دن، انہوں نے مجھے بہت مارا پیٹا اور پھر مجھے ایک مختلف سیل میں لے گئے۔ دراصل سلیم وہ شخص نہیں تھا جسے وہ گرفتار کرنا چاہتے تھے۔ سلیم غلط شناخت کا شکار ہوئے تھے اور انہیں جلد ہی رہا کر دیا گیا جس کے بعد وہ ملائیشیا چلے گئے۔

اسی طرح حسین الرحمٰن بنگلہ دیشی فوج میں سابق لیفٹیننٹ کرنل تھے۔ وہ “بیر پراتیک” نام کا ایک بڑا ملٹری بہادری ایوارڈ حاصل کرنے والی شخصیت تھے۔ وہ ریپڈ ایکشن بٹالین (RAB) کے کمانڈر تھے جو کہ ایک بدنام زمانہ نیم فوجی گروپ ہے، جس پر امریکہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پابندیاں عائد کی تھیں۔ حسین الرحمٰن گروپ عسکریت پسندی کے خلاف کارروائیوں کا حصہ رہے تھے، سنہ 2012ء میں انہیں عسکریت پسندوں کے ساتھ ملوث ہونے کے الزام میں برطرف کر دیا گیا تھا۔ انہیں سب سے پہلے سنہ 2011ء میں اغوا کیا گیا تھا۔ پھر سنہ 2018ء میں وہ آئینہ گھر پہنچائے گئے۔ جب انہوں نے بیت الخلا کے ایگزاسٹ فین سے جھانکا تو وہ آئینہ گھر کا مقام پہچاننے میں کامیاب رہے۔

2018 میں انہیں میرپور ڈیفنس آفیسرز ہاؤسنگ سوسائٹی میں واقع ان کے گھر سے پکڑا گیا تھا اور آخر کار، انہیں فروری 2020 میں رہا کر دیا گیا۔ شروع میں، وہ کسی سے بات کرنے کو تیار نہیں تھے۔ انہوں نے بھی بتایا کہ آئینہ گھر کے 30 سیل تھے۔ ساؤنڈ پروف تفتیشی سیل، جہاں قیدیوں پر تشدد کیا جاتا تھا۔ آئینہ گھر کی حفاظت سویلینز اور فوج دونوں کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ “جب میں وہاں اس جیل میں تھا، میں نے مختلف سیلوں میں بہت سے لوگوں کو روتے ہوئے سنا۔ میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے رہا کیا گیا، لیکن بہت سے بدقسمت لوگ اب بھی وہاں موجود ہیں۔”

شیخ سلیم نے وائس آف امریکہ کو بتایا، “میں صرف ان کی خاطر یہ بڑا خطرہ مول لے رہا ہوں۔ میں حکومت پر زور دے رہا ہوں کہ وہ جبری گمشدگیوں کے اس گھناؤنے جرم کو روکے”۔

ذوالقرنین سائر نے وی او اے نیوز کو بتایا کہ جب متاثرین کو رہا کیا جاتا ہے، تو وہ اپنی اور اپنے خاندان کی جان بچانے کے لیے خاموشی اختیار کرتے ہیں۔

ماضی میں یہی کچھ پاکستان میں بھی صدر جنرل ضیاءالحق کے دور میں ہوتا رہا مگر انہوں نے بھی اس سے کوئی سبق نہ سیکھا اور بلآخر 17اگست 1988ء کو بہاولپور میں ایک ہوائی حادثے کا شکار ہو گئے۔ آج بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم حسینہ واجد بھی اپنے اعمال کے کٹہرے میں ہیں۔ وہ بنگلہ دیش کی چوتھی بار وزیراعظم بنیں مگر تاحال امریکہ اور برطانیہ نے اسے ایک “پناہ گزین” کے طور پر بھی اپنے ملک میں جگہ دینے سے انکار کر دیا یے۔

Title Image by Joseph Fulgham from Pixabay

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

مرکزی سیرت کمیٹی اٹک کا اجلاس 2024

ہفتہ اگست 10 , 2024
مرکزی سیرت کمیٹی اٹک کا نمائندہ اجلاس حاجی محمد الیاس چشتی کی نگرانی اور حاجی محمد الماس چشتی کی صدارت میں الخیر ہاوس
مرکزی سیرت کمیٹی اٹک کا اجلاس 2024

مزید دلچسپ تحریریں