شاہد اعوان، بلاتامل
چیختے ہیں حیات کے لمحے
ٹیس زخموں میں پھر اٹھی ہے شاید
شوق و غم کے ملے جلے جذبات کو الفاظ کے آئینے میں اتارنا بڑا دشوار ہوتا ہے کیونکہ ایسے مقام پر گویائی کے قرینے ساتھ چھوڑ جاتے ہیں، اظہار کی جرأتیں دم توڑ دیتی ہیں۔ جب کبھی بھی ساز پر چوٹ پڑتی ہے تو وہ اپنے ظرف کے مطابق کوئی نہ کوئی آواز ضرور نکالتا ہے ایسی صورتحال میں جب دل ونظر کی تاروں کو چھیڑا جائے تو جہاں خوشی کے نغمے پھوٹتے ہیں وہاں چیخوں سے مشابہ سُریں بھی نکلتی ہیں ۔ اشک غم کی علامت ہوتے ہیں اور تبسم خوشی کا ثبوت ، صدف کی قدرو قیمت موتی کے دم سے وابستہ ہے ان موتیوں کو کوئی صاحبِ دل جوہری ہی سمجھ سکتا ہے۔ اس تمہید کو طوالت دینے کے بجائے اس دل فگار شخصیت کا تعارف مطلوب ہے۔
اہلِ نظر بھی پڑھ نہ سکے اقتباسِ غم
چہرہ اَٹا ہوا تھا یوں گردوغبار میں
اُن کی شخصیت ہشت پہلو ہے وہ جہاں خالص فوجی ہیں وہاں ماہر تعلیم بھی ہیں۔ راہوں میں پڑا ہوا سنگلاخ پتھرمحرضِ شکل میں کس طرح نمودار ہوتا ہے؟ عامی یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ قلمکار اپنے فن کو تخلیق کرنے کے لئے شب و روز احساس و فکر کی صلیب پر لٹکا رہتا ہے تب کہیں شاہکار بنتا ہے عامیوں کو یہ شاہکار بنا بنایا ملتا ہے اس لئے تماشائی داخلی کیفیات کے اس لطفِ کرب سے عاری ہوتے ہیں، جہاں کہیں اچھی تخلیق دیکھیں سمجھ لیں کہ کوئی نہ کوئی سچ مصلوب ہوا ہے۔ یہی کیفیت پروفیسر ملک محمد نواز کی شاہکار ’’سرگزشتِ دلنواز‘‘ کے 495صفحات میں آپ کو نظر آئے گی کتاب کے ورق ورق پر افکار کی سسکیاں اورا ٓہیں سننے کو ملیں گی، انہوں نے روایتی اور افسانوی اسلوب کو ترک کر کے تحریر میں حقیقی رنگ بھرے ہیں اور کوئی تصنع یا بناوٹ کہیں نظر نہیں آتی۔ بندہ فقیر کی پروفیسر ملک محمد نواز سے 21فروری2022ء کو اُن کے دولت خانے تلہ گنگ میں پہلی بالمشافہ ملاقات تھی انہوں نے مجھے جتنی محبت اور شفقت دی وہ میرے لئے قیمتی اثاثہ ہے۔ گھر واپس لوٹ کر ان کی عنایت کردہ ’آب بیتی‘ کا مطالعہ شروع کیا تو جی یہی کرتا تھا کہ ایک ہی نشست میں ختم کر لوں لیکن کتاب میں شامل واقعات اور کہانیاں اتنی دلچسپ اور سبق آموز ہیں کہ انہیں بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے ۔ آپ بیتی اور جگ بیتی میں فرق یہ ہے کہ آپ بیتی میں کئی مقامات پر انسان جھول کھا جاتا ہے اور کہیں کہیں افسانوی رنگ بھی بھرنا پڑتا ہے، جبکہ جگ بیتی چونکہ دوسرے کی ہوتی ہے اس میں چسکے لے لے کر اور غیر ضروری چیزوں کو شامل کرکے کسی کو اونچا یا نیچا دکھایا جاسکتا ہے۔ حق گوئی ایک مشکل کام ہے تاہم پروفیسر صاحب کی حقائق پر مبنی کہانیاں خود پکار پکار کر اپنی سچائی کی گواہی دے رہی ہیں کہ موجودہ صدی میں جب انسان محض دولت کے زور پر یا عہدوں کے پیچھے چھپ کر اپنی ذات بدلنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے ، ایسے میں موصوف نے کھلے دل و دماغ سے سچ اور صرف سچ ہی بیان کیا ہے ۔ تلہ گنگ اور وادیٔ سُون کی بہت سی جہتیں ناصرف ملتی ہیں بلکہ زبان، کلچر، طرزِ بودوباش سب ایک جیسے ہیں اس دھرتی کے مکین اپنا مافی الضمیر چھپانا بھی چاہیں تو چھپا نہیں سکتے کہ ان کا چہرہ الفاظ کا ساتھ نہیں دیتا، دشمنیاں بھی کھلم کھلا ہوتی ہیں اور دوستیاں بھی قبرستان تک جاتی ہیں۔ پروفیسر صاحب جہاں جہاں بھی رہے ان علاقوں کے جغرافیے اور تاریخ کو سپردِ قرطاس کر دیا یہی وجہ ہے کہ قاری کوکتاب کا مطالعہ کر کے بہت سی معلومات ملتی ہیں۔ مصنف نے دوستوں یا خونی رشتوں میں ذرا کوتاہی یا جھول دیکھا تو اسے تحریر میں لانے میں بالکل بھی بخل سے کام نہیں لیا ۔ یقین جانئے ان کی دکھ بھری کہانیاں پڑھ کر کئی بار اشکبار بھی ہوا، انہوں نے اپنے والدین کی جس طرح خدمت کا حق ادا کیا وہ بھی نوجوان نسل کے لئے ایک نمونہ اور سبق ہے۔ ملک صاحب اپنی پیاری بیٹی ڈاکٹر فرزانہ کا بار بار ذکر کر کے اور اس کی کامیابیوں کی داستان بیان کر کے باپ بیٹی کے ازلی محبت بھرے رشتے کو اجاگر کرتے ہیں، بلاشبہ وہ بہادر اور سچے باپ کی ہونہار صاحبزادی ہیں دعا ہے اللہ انہیں مزید کامیابیوں سے نوازے اور ان کی طرح سب بیٹیوں کو ماں باپ کے لئے قرار و سکون کا باعث فرمائے۔ صاحبِ کتاب نے جس طرح اپنے دوستوں کو کھلے لفظوں میں خراج پیش کیا ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے دوست احباب کے لئے کس قدر نیک جذبات رکھتے ہیں اور اسے بیان کرنے میں کنجوسی کا مظاہرہ ہرگز نہیں کرتے ۔ پروفیسر ملک محمد نواز کی تحریریں اتنی عمدہ اور اردو ادب کا ایسا خوبصورت شاہکار ہیں جنہیں نصاب کا حصہ بننا چاہئے تاکہ وہ طلبا کے لئے زندگی کے سفر میں چراغِ راہ ثابت ہوں۔ پروفیسر صاحب ایک بے ضرر انسان ہیں وہ پہلی ملاقات ہی میں ایسا تاثر چھوڑتے ہیں جو دیر تک اپنے حصار میں جکڑے رکھتا ہے ۔ میرے پڑھنے والوں سے گزارش ہے کہ پروفیسر ملک محمد نواز کی آپ بیتی کا ضرور مطالعہ کریں یہ معلومات کا بیش بہا انمول خزانہ ہے۔
شاہد اعوان
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔