تحریر: شہزادحسین بھٹی
کالم: دُرریز
28 اکتوبر 2018 کو پرائم منسٹر عمران خان نے پی ایم سیٹیزن پورٹل کا افتتاح کیا جس کا بنیادی مقصد سرکاری دفاتر کو متحرک کر کے انفرادی و اجتماعی عوامی مسائل کا حل تھا۔ اس نظا م کے تحت تمام سرکاری اداروں کو موبائل سافٹ ویئر کے ذریعے منسلک کیا گیا اور پی ایم آفس میں مین کنڑول رکھا گیا تاکہ عوامی شکایات اور اُن کے حل کے حوالے سے کی جانے والی پیش رفت کو مانیٹر کیا جاسکے۔یہ نظام دُنیا کے کئی ممالک میں نافذ ہے اور اس کے خاطر خواہ نتائج بھی سامنے آئے ہیں لیکن پاکستان میںاس نظا م کے نافذہونے کے باوجود عمومی دفتری نظام اور عوامی شکایات کا ازالہ کے حوالے سے کوئی انقلابی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔افسر شاہی حکومت کی آنکھوںمیں دھول جھونکنے کے لیے شکایات پورٹل پر پُھرتیاں تو دیکھاتی ہے لیکن حقیقت میں عوامی مسائل جُوں کے توںہیں۔اگرچہ لاکھوں کی تعداد میں شکایات پورٹل پر کی جا چکی ہیں لیکن ماسوائے چند سو شکایات کے باقی تمام کو حکومتی ادار ے خود ہی یک طرفہ طور پر یہ کہہ کر بند کر دیتے ہیں کہ مذکورہ شکایت پر ریلیف دے دیا گیا ہے یا نہیں دیا جا سکتا یا ڈراپ کر دی جاتی ہے جوکہ سراسر غلط ہے۔ شکایت بند کرنے کا اختیار صرف اور صرف شکایت کنندہ کو ہی ہونا چاہیے۔ راقم نے اب تک عوامی مفاد اور ذاتی شکایات تقریباً تیس کے قریب کیں لیکن ماسوائے ایک دو کے باقی سب کو مذکورہ بالا بیانات دے کر بند کر دیا گیا۔یوں یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ نظام موجودہ حکومت کے اقتدار تک ہے ا س کے بعد یہ پورٹل بھی دیگر پروگراموں کی طرح بند کر دیا جائے گا۔
غیر مطلوبہ،نا پسندیدہ اور غیر اخلاقی روّیہ،جس کی وجہ سے آپ خوف،پریشانی،خطرہ، بے سکونی یا شکار ہوجانا محسوس کریں، ہراساں کرنا کہلاتا ہے۔اِس کی وجہ سے کام کی جگہ،تحقیق کے کاموں اورمعاشرتی زندگی پر خوف، مخالفت اور ناگواری کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔جب اِس طرزِ عمل میں نا پسندیدہ جنسی پیش قدمی،جنسی رعایت طلب کرنا، یا جنسی نوعیت کا زبانی یا جسمانی طرزِ عمل بھی شامل ہو تو یہ جنسی طور پر ہراساں کرناکہلاتا ہے۔پنجاب میں ہراسانی کے کیسزتین سو فیصد سے بھی بڑھ چکے ہیں۔ اگرچہ قانون موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا ماسوائے چند کیسز کے جو میڈیا کی توجہ حاصل کر لیتے ہیں۔ایک سوشل میڈیا صارف نے راقم کو بتایا کہ کچھ دن پہلے اس کے بیٹے سے راولپنڈی کے ڈائیو بس اسٹینڈسے 29 اگست کو اس کا موبائل چھینا گیا، اسلام آباد پولیس نے چار دن کی تاخیر سے اس کی ایف آئی آر درج کی تھی، اور اس دن کے بعد انویسٹی گیشن آفیسر ستو پی کر سو گیا، میں نے پہلے بھی انہیں بتایا تھا، کہ موبائل کا ڈیٹا اور لوکیشن آن تھا، چور بائیک پر بھاگتے ہوئے سیدھا ترنول تھانے میں جا رکا اور وہیں پر فون بند کر دیا۔
ہم نے پولیس کی روایتی ہڈ حرامی کو دیکھتے ہوئے ایک امید کے سہارے وزیر اعظم سٹیزن پورٹل پر اپنی شکایت درج کروائی اور آج ہی اس کا جواب بمعہ دو عدد خطوط کے ملا، جو کہ ایک متعلقہ تھانے کے انویسٹیگیشن آفیسر کی طرف سے 12 ستمبر کو لکھا گیا تھا، کہ کمپلینٹ پر مستعدی سے کام جاری ہے، ایف آئی آر درج کروائی گئی ہے، جاسوس اور مخبر علاقے میں پھیلائے گئے ہیں اور فون کا آئی ای ایم ای ٹریسنگ کے لئے بھجوا دیا گیا ہے اور بہت جلد چور کو قابو کر لیا جائے گا۔ 18 ستمبر کو متعلقہ ایس پی نے اسی خط کے مندرجات کو انگریزی میں ٹرانسلیٹ کر کے ڈی آئی جی اسلام آباد کو ایک مراسلہ بھیجا کہ کمپلینٹ پہ تیزی سے کام ہو رہا ہے۔اسی طرح ڈی آئی جی اسلام نے اس مراسلے پر دلی اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے آج میرے بیٹے کو ایک ای میل بھیج دیا کہ آپ کا مسلہ حل ہوگیا ہے اورآپ کی شکایت بند کر دی گئی ہے۔
پورٹل کہانی میں ٹویسٹ آگے آتا ہے۔ متعلقہ تھانے سے انویسٹیگیشن آفیسر نے شکایت کنندہ کو فون کیا کہ آپ کا ملزم گرفتارہو گیا ہے، میں نے کہا کہ ملزم کہاں ہے؟ تاکہ اس کو پہچان لیں کہ واقعی ہمارا ملزم ہے بھی یا نہیں؟ جواب ملا کہ اس کوہم نے جسمانی ریمانڈ کے لئے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا لیکن ریمانڈ نہیں ملااواسے ر جیل بھیج دیاگیا ہے، میںنے کہا کہ پھر میں کیسے سمجھوں کہ وہ ہمارا ہی ملزم ہے؟ ہم نے اس سے سات آٹھ موبائل برآمد کئے ہیں، میں نے کہا کہ یہ تو اچھی بات ہے یقینناًہماراا موبائل بھی اس میں ہوگا، جواب ملا نہیں جی آپکا موبائل اِن میں نہیں ہے، آپ کا موبائل اس نے بیچ دیا ہے، کس کوبیچا ہے؟میرا اگلا سوال یہ تھا،جی وہ کسی راہگیر پہ بیچ دیا ہے اس لئے اس کو ٹریس کرنا پڑے گا، میں نے کہا،یہ کہانیاں پرانی ہوگئیں ہیں، نہ آپ نے چور پکڑا ہے، نہ موبائل برآمد کئے ہیں، آپ نے خانہ پری کی ہے،آپ نے کیس اور کمپلینٹ کو سر سے اتارنے کے لئے کسی بے گناہ یا گناہ گار کو ویسے ہی گرفتاری ڈال کر اپنا درد سرہلکا کیا ہے، یہ پولیس کے پرانے حربے ہیں۔
اسی طرح الشفاء ٹرسٹ آئی ہسپتال راولپنڈی میں دس سال سے کا م کرنے والی نرس نے جب ایک ڈاکٹر حسن رضا گلزارکے آن جاب ہراسمنٹ کے حوالے سے جب ایڈمنسٹریڑ اور ایگزیکٹو ڈائریکڑ کو شکایت کی تو بجائے اس کی شکایت پر ایکشن لیا جاتا اُلٹا اُسے ہی نوکری سے برخاست کر دیا گیا کہ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے کی بانسری۔جب اُس نرس نے پرائم منسٹر پورٹل پر شکایت نمبر PU230821-88940520 درج کروائی جو ڈی سی راولپنڈی سے مارک ہوکرڈی پی او اور وہاں سے ڈی ایس پی انویسٹی گیشن اور وہاں سے وویمن پولیس اسٹیشن وہ وہاں سے خود ہی بند کر دی گئی کہ” ـ کنٹینٹ ناٹ کلیئر ـ”۔ کتنے مزے کی بات ہے کہ جس کیس کو پولیس نے حل کرنا ہے وہی اس شکایت کو بند کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ پی ایم سیٹیزن پورٹل کی افادیت سے انکار ممکن نہیں لیکن اس میں کئی قانونی سقم موجود ہیں جنہیں درست کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے۔ پولیس کو کنٹرول کرنا بہت مشکل کام ہے۔ ہر دس شکایات میں سے آٹھ یا نو شکایات پولیس سے متعلقہ ہوتی ہیں لہذا پولیس سے باز پُرس اور شکایات کو بند کرنے کا اختیار کسی دوسرے ادارے سے سپرد کیا جانا چاہیے تبھی اس پورٹل سے استفادہ ثمر آور ثابت ہو سکتا ہے وگرنہ یہ سعی لاحاصل ہی رہے گا
شہزاد حسین بھٹی
ایم ایس سی ماس کیمونیکشن، ایل ایل بی
مصنف،صحافی و کالم نگار لاہور
سیکرٹری انفارمیشن، پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ,پنجاب،
سابق ایڈیٹر ہفت روزہ “سین “
مصنف “کمرہ نمبر 109” کالموں کا مجموعہ ممبرنیشنل پریس کلب اسلام آباد،ممبرانٹرنیشنل پاور آف جرنلسٹس(آئی، پی، او ، جے)، ممبر آل پاکستان جرنلسٹس کونسل(اے پی جے سی)، ممبر ایمنسٹی انٹرنیشنل (اے آئی)
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔