شائد ہماری عقلوں پر پردہ پڑ گیا ہے کہ ہم گناہوں کی زندگی سے توبہ نہیں کر رہے ہیں کیونکہ قیامت کے روز ہمارے یہی ہاتھ ، زبان اور یہی پاؤں ہمارے خلاف اللہ کی بارگاہ میں گواہی دیں گے جو ہم کرتے رہے ہیں اور اُس دن جب پہاڑ ایسے ہوں گے جیسے دھنکی ہوئی رنگین اون، اور اس دن جب آسمان پھاڑ دیا جائے گا، جب زلزلے آئیں گے، جب صور پھونکا جائے گا ، اُس دن سے پہلے جس نے نماز شب پڑھی ہو گی اور گناہوں سے بچا ہو گا وہ اپنے اعضائے جسم کی گواہی سے بچ جائے گا اور جو بندہ گناہوں کے اڈوں کی طرف جاتا رہا ہو گا اس کے اعضائے جسم کی گواہی اسے لے ڈوبے گی
۔ سورہ یٰسین کی یہ آیت مبارکہ ہمیں اسی چیز سے ڈراتی ہے۔
الیوم نختم علی افواھھم وتکلمنا ایدیھم و تشهد ارجلهم بما کانو یکسبون۔
یٰسین
یعنی ” آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور وہ جو کچھ کرتے رہے تھے اس کے متعلق ان کے ہاتھ ہم سے بیان کریں گے اور ان کے پاوں (ان کی) گواہی دیں گے "
جو قدم دن کے اجالوں میں نماز ادا کرنے کے لیے مسجد کی طرف اور جو رات کی تاریکیوں میں نمازِ شب کی طرف بڑھے ہوں گے ۔ اُس دن خوشی و مسرت کا اظہار کریں گے اور جو قدم سینماوں، گناہ کی دلدلی گلیوں اور برائی کے گڑھوں کی طرف بڑھے ہوں گے وہ دکھ و بیچارگی کے عالم میں ہوں گے ۔ اور وہی قدم اپنے متعلقہ انسان کے خلاف گواہی دیں گے ۔ اس لیے ہمیں عذاب الہی سے بچنے کی سعی کرنی چاہیے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب ہم اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل بیت اطہار ؑکے فرمودات پر عمل پیرا ہو کر حقوق اللہ اور حقوق العباد کے فرائض کو پورا کرنے کی سعی کریں۔ اور عذاب الٰہی سے احتراز کی سعی مشکل ضرور ہے نا ممکن نہیں ! بس وقت اور محبت کی ضرورت ہے بقول شاعر
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
نماز شب سے مزین قلب دنیا و آخرت میں ہمیشہ سرخرو ہوتا ہے
ہمارے اسلاف اسی لیے پورے عالم پر چھائے رہے کہ ایک طرف انہوں نے مسلسل کاوش ، عزم صمیم ، بلند نصب العین اور ثابت قدمی سے کفار کے بتوں کو پاش پاش کیا جب کہ دوسری طرف ان کی جبینیں بارگاہ ایزدی میں بھی جھکی رہیں ۔ ہماری تباہی و بربادی اسلاف کے اُس راہ سے ہٹ جانے سے ہوئی ہے کہ جن کی راہ کو کتاب ھدٰی میں صراط مستقیم کہتے ہیں ۔ جو راه اختیار کرنے کے متعلق الله کا بلند مرتبه نبیؐ بتاتا ہے، اور وہ راہ جو اہل بیت محمدؐ بتاتے ہیں ۔ ہمارے اسلاف قرآن کے درخشاں الفاظ کی جگمگاہٹ سے منور ہوکر ظلمتوں میں اجالا بکھیرتے رہے جبکہ ہم نے قرآن کو فراموش کر کے اپنی عزت و ناموس کھو دی ہے۔
بقول اقبال
"وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قُرآں ہو کر "
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قرآن وسنت پرعمل پیرا ہوکر اپنی کھوئی ہوئی میراث اور عزت و ناموسں دوبارہ حاصل کریں ۔ اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب ہم فرائض نمازوں کے علاوہ سنت نمازوں کے ساتھ خصوصا نماز شب ادا کرنے کی سعی کریں۔
جس طرح موجِ صبح نشاط دلوں کو تازگی بخشتی ہے بالکل اسی طرح خشوع وخضوع سے با قاعدہ نماز شب ادا کر نے والے کے دل و روح کو سکون و طمانیت حاصل ہوتی ہے۔ نماز شب ادا کرنے والے کی حفاظت خود خداوند عالم فرماتا ہے اسی لیے آنحضورؐ نے نماز شب کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے۔
آج اگر ہم آنحضورؐ کے بتائے ہوئے ضوابط پرعمل پیرا ہوں تو ہماری بستیاں معصوم عصمتوں کا قبرستان نہ بنیں ہمارے گھروں ،مسجدوں ، امام بارگاہوں اور گلی کوچوں سے گولیوں سے چھلنی اور بموں سے دریدہ لاشیں نہ ملیں ۔
اس کی وجہ کیا ہے !
میرے خیال میں اس کی وجہ بس یہی ہے کہ ہم نے ساقی ءکوثر ، شافع ء محشر بدرِ منور اور روحِ مصور حضرت محمدؐ کے بتائے ہوئے روشن احکام پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے رب کعبہ کی قسم ! اگر ہم آج بھی آنحضورؐ سے محبت و
والفت کا اظہار نماز شب میں درود و سلام کی صورت میں ادا کریں تو خدا وند غفار ہمیں اپنی رحمتوں ،برکتوں اور عظمتوں سے نواز دے اور ہماری ہر میدان میں حفاظت فرمائے اور آنحضورؐ کی اطاعت اللہ تعالی کی ہی اطاعت ہے جیسے کہ قرآن حکیم واضح فرماتا ہے۔
من يطع الرسول فقد اطاع الله
جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی ۔
اور حضورﷺ کی اطاعت کا اعجاز و عرفان اسی صورت میں پتہ چلتا ہے کہ جب ہم نماز شب ادا کریں اور رات کا کثیر وقت قرآن حکیم کی تلاوت میں صرف کریں کیونکہ بقول اقبال
"گر تو می خواہی مسلمان زیستن
نیست ممکن جز بہ قر آن زیستن”
یعنی” اگر تم مسلمان کی حیثیت سے زندہ رہنا چاہتے ہوتو قرآن کے بغیر رہنا ناممکن ہے ۔”
نماز شب میں قرآن حکیم کی کثرت سے تلاوت کرنا اور کثرت سے محمدؐ وآل محمدؐ پر درود وسلام پڑھنا نماز کی شان ، نماز کی آن، نماز کی روح اور نماز کی جان ہے کیونکہ ذکر مصطفٰؐی اور ذکر مرتضٰی الله تعالٰی کو بہت پسند ہے حضور پر درود و سلام کے نذرانے توشہءآخرت ثابت ہوں گے ۔ کیونکہ آپ کا ذکر اعلٰی و ارفع ہے جس کا ثبوت قرآن حکیم کی یہ آیت مبارکہ ہے۔
ورفعنا لک ذکرک
ہم نے آپؐ کے ذکر کو بلند کر دیا ہے
بقول شاعر
"خدا کا ذکر کرے ذکر مصطفٰیؐ نہ کرے
ہمارے منہ میں ہو ایسی زباں خدا نہ کرے”
اسی لیے ہم بھی ذکرمصطفیؐ ضرور کرتے ہیں۔ کہ اس ذکر کی برکت سے اللہ تعالٰی کی ذات راضی ہو جاتی ہے مزید جب نماز شب میں استغفار کی جائے تو گناہ مٹ جاتے ہیں جب گناہ مٹ جائیں تو اعضائے جسم نے کیا گواہی دینی ہے کیونکہ استغفار کے بعد اللہ تعالٰی انسان کو بالکل ایسے کر دیتا ہے جیسے وہ انسان ابھی پیدا ہوا ہو۔ اسی صورت حال کو میں نے ان اشعار میں قلمبند کرنے کی کوشش کی ہے ۔ لیجیے اشعار ملاحظہ کیجیے:۔
” قیامت کو گواہی دیں گے میرے جسم کے اعضا
اسی اک بات سے اوسان میرے غیب رہتے ہیں
اسی سے بچنے کی خاطر نمازِ شب میں پڑھتا ہوں
کہ استغفار جس میں ہو کہاں پھر عیب رہتے ہیں
سیّد حبدار قائم
کتاب ” نماز شب ” کی سلسلہ وار اشاعت
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔