ہم سب گھُنّے ہیں
آج کافی عرصہ بعد میں اُس شہر گیا تھا جہاں میرے بچپن اور اوائلِ جوانی کا وقت گزرا۔ یہ شہر مردان ہے۔ بہت خوبصورت یادیں وابستہ ہیں۔ بہت اچھے اور پیارے لوگ جن سے پیار کے رشتے تھے۔ کبھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑے کبھی روٹھنا اور کبھی من جانا۔ دوستی کی بنا پر ایک دوسرے کے لیے جھگڑے کرنا۔ کرکٹ ہاکی فُٹ بال گلی ڈنڈا بلور(بنٹے) کھیلنا۔ پتنگ بازی بھی ایک من بھاتا مشغلہ تھا۔ مجھے اس شہر کی بہت سی باتیں نہ صرف دوسرے شہروں کے مقابلہ میں منفرد لگیں بلکہ بہت اچھی لگیں۔ ایک جو بہت اچھی بات تھی وہ یہ کہ ایک محلے میں کافی عرصہ تک اکٹھا رہنے کی وجہ باہمی ربط کا سلسلہ اتنا مضبوط تھا کہ جیسے رشتہ دار ہوں۔
پرانے محلہ سے گزرتے ہوئے میں ایک جگہ ٹھٹک کر رک گیا۔ یہاں ایک پُرانی سی دُکان ہوا کرتی تھی جو کہ اب تبدیل ہوکر کچھ بہتر صورت حال میں موجود تھی۔ پہلے اس دُکان پر ایک ادھیڑ عمر شخص بیٹھے ہوتے تھے۔ ان کو سب لوگ “چاچا گُھنّا” کہتے تھے۔
بچپن میں اس دُکان سے دن میں کئی بار سودا سلف لینے جاتے تھے۔ چاچا گھُنّا کی ایک بات جو ہمیں اچھی لگتی تھی وہ یہ کہ وہ ہمیں ہر بار تھوڑی سی کوئی نہ کوئی چیز کھانے کو دیتے تھے۔ کبھی چنّے کبھی ٹافی دیتے تھے۔ جس کی وجہ سے ہم اُن کے پاس جانے کو ترجیح دیتے تھے۔
چاچا گھُنّا گم گو اور خاموش طبع انسان تھے۔ محلے کے کسی بندہ سے کوئی خاص تعلق واسطہ نہ تھا۔ بس اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔
وقت گزرتا رہا ہم بچپن سے نکل کر جوانی کی حدود میں داخل ہو گئے۔ مڈل سکول سے نکل کر اعلٰی ثانوی کلاس میں چلے گئے۔ یہ وہ دور تھا جب تدریسی کُتب کے ساتھ ساتھ ہم نے ڈائجسٹ اور دیگر افسانوی کتب میں دلچسپی لینا شروع کردی تھی۔ الفاظ کے معنی سمجھنا شروع کر دئیے تھے۔ میں چاچا گھُنّا کے پاس جاتا تھا تو یہ جان چُکا تھا کہ “گھُنّا” کے معنی اچھے نہیں ہیں۔ کسی بھی بندے کو اگر گھُنّا کہا جائے تو وہ اچھا محسوس نہیں کرتا ہے۔ اُس کو بُرا لگے گا۔ لیکن کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ چاچا گھُنّا اپنے لیئے یہ الفاظ کیوں برداشت کرتے ہیں۔ لیکن ایک دن دل میں آ گیا اور میں نے چاچا سے پوچھ ہی لیا کہ اپ کا اصل نام کیا ہے۔ چاچا نے ایک جھٹکے کے سر کو گھمایا اور میری طرف تیز نظروں سے دیکھنے لگے۔ جیسے وہ اس سوال کی توقع نہیں کر رہے تھے۔ چاچا نے خاموشی سے دوسری طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ میرے سوال کا جواب نہ دیا۔ ایک گہری سانس لی اور اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔ لیکن اُن کی اس خاموشی نے میرے تجسس کو بڑھا دیا۔ اُس وقت تو میں نے دوبارہ سوال نہیں کیا۔ لیکن دل میں خلش سی رہ گئی۔ اور مجھے چاچا سے ہمدردی ہونا شروع ہو گئی تھی۔ اور میں جاننا چاہتا تھا کہ چاچا اس نام کا بُرا کیوں محسوس نہیں کرتے۔ کچھ عرصہ یوں ہی گزر گیا۔ ایک دفعہ گرمیوں کے دنوں میں شام کے وقت بہت تیز بارش ہوئی اور طوفانی ہوائیں چلیں کچھ دیر بعد جب بارش تھمی تو مجھے پکوڑوں کی طلب ہوئی۔ میں باہر نکلا چاچا کی دُکان کے ساتھ پکوڑے بنانے والا بیٹھتا تھا۔ میں پکوڑے لے کر گھر جانا ہی چاہتا تھا کہ اچانک نظر چاچا پر پڑی میں نے پکوڑے چاچا کی طرف بڑھا دئیے۔ چاچا نے ذرا سی پس و پیش کے بعد کچھ پکوڑے لے لیے۔ میں وہیں بیٹھ گیا۔ چاچا کو موڈ خوشگوار دیکھ کر میں آج ایک بار پھر چاچا سے پوچھ لیا کہ چاچا اپنا اصلی نام بتائیں۔ مجھے اچھا نہیں لگتا میں اپ کو گھنّا کہوں۔ میں نے دیکھا کہ چاچا کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی آ گئی۔ کہنے لگے مجھے کبھی کسی نے نہیں کہا کہ “آپ کو گھُنّا کہتے ہوئے اچھا نہیں لگتا”
۔ آپ نے پوچھا تو آپ کو بتاتا ہوں۔ میرا نام سرفراز ہے۔
میں نے کہا کہ اپ کا نام بہت خوبصورت ہے۔ پھر اپ سب کو کیوں نہیں کہتے کہ آپ کا نام لیا کریں۔
کہنے لگے میں نے کہا تھا۔ شروع شروع جب میں نے یہاں دُکان کھولی تھی لیکن لوگ میری کم گو طبیعت کی وجہ سے پھر بھی کہتے ہیں۔ اب میں لوگوں سے لڑ تو نہیں سکتا۔ آخر کار دُکان داری بھی کرنی ہے۔ لوگوں کو ناراض کر کے میں دُکان تو نہیں چلا سکتا۔ میری سات بیٹیاں ہیں۔ اُن کو بیاہنا بھی ہے لوگوں سے لڑتا رہوں تو کام کیسے کروں۔
اب میں سمجھ گیا کہ چاچا اپنی مجبوری کی وجہ سے سب برداشت کر رہے ہیں۔ بحر حال میں نے اس کے بعد اُن چاچا سرفراز کہنا شروع کر دیا۔
دن گزرتے رہے میں میٹرک کر کے فرسٹ ائر کا سٹوڈنٹ بن گیا۔
میں نے دیکھا کہ ہمارے معاشرے میں چاچا سرفراز جیسے بہت سارے لوگ موجود ہیں۔ جو کسی نہ کسی صورت کچھ نہ کچھ برداشت کر رہے ہیں۔
ہمارے ہمسایہ میں ایک صاحب تھے اُن کا نام عالم زیب خان تھا۔ ایک پرائیوٹ دفتر میں کام کرتے تھے۔ ایک دن میرے والد صاحب کے پاس آئے اور کافی اداس تھے۔ کہنے لگے کہ وہ اپنے دفتر کے مالک کے رویے کی وجہ سے بہت پریشان ہیں وہ اُن کو بہت زیادہ پریشان کرتا ہے۔ اگر بچوں کی مجبوری نہ ہوتی ایسی نوکری کو لات مار کر گھر آ جاتا۔ ساتھ ہی انہوں میرے والد صاحب سے کہا کہ کہیں اور نوکری ڈھونڈ دیں۔
اسی محلہ شمیم خالہ رہتی تھیں اُن کے میاں بہت سخت مزاج تھے۔ وہ اکثر میری امی کے پاس آ کر شکایت کرتی تھیں اور یہ کہتی تھیں کہ اگر بچوں کی مجبوری نہ ہو تو میں ایک دن بھی اس گھر میں نہ ٹکوں۔
ہمارے اک عزیز اپنی بیوی کی وجہ سے پریشان تھے اور اکثر کہتے تھے کہ بچوں کا خیال نہ ہوتا تو میں اس بیوی کو فارغ کر دیتا۔
میں نے دیکھا کہ اپنی غرض کے لیے ہر کو ئی گھُنّا بنا ہوا ہے
تو پھر صرف “چاچا سرفراز ہی گھُنّا” کیوں؟
ہم سب گھُنّے ہیں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |