حکیم عبدالرؤف کیانی کا افسانہ "راہب” کا فنی و فکری مطالعہ
حکیم عبدالرؤف کیانی 8 جنوری 1975 کو راولپنڈی کے شمال مغربی گاؤں منگوٹ میں پیدا ہوئے، آپ کی کتابوں میں برف میں جلتے لوگ، خزاں آلود بہار ،پیالہ، درد کا اخری طواف چار افسانوی مجموعے اور ایک مشہور ناول دھندلکے دائرے شامل ہیں۔ فلسفے اور منطق پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ مبادیات منطق و علوم فلسفہ ان کی مشہور کتاب ہے جو نیشنل بک فاؤنڈیشن حکومت پاکستان نے چھاپی ہے۔ان کی کتابوں کے تراجم سندھی ،انگلش اور گرمکھی میں چھپ چکے ہیں ان کی کتابوں پر 14 سے زائد مقالے مختلف یونیورسٹیوں میں مکمل ہو چکے ہیں، ہندوستان سے بھی ان کا افسانوی مجموعہ درد کا آخری طواف چھپ چکا ہے۔ صحافت سے بھی تعلق ہے۔ قومی اخبارات میں ان کے کالم چھپتے رہتے ہیں۔ حکیم عبدالرؤف کیانی اپنی کہانی کا آغاز یوں کرتے ہیں ”تینوں دوست غار کی تلاش میں سارا دن جنگل کے پرخار اور اجنبی پگڈنڈیوں پر چلتے چلتے ہمت ہار چکے تھے۔ مایوس نہ ہوں آگے چلتے ہیں۔ایک دوست نے پر امید لہجے میں کہا۔ قریب بہتے پانی میں قدرے کم گہرائی میں پڑے ہوئے چھوٹے چھوٹے گول مٹول اور ملائم پتھروں پر قدم سہارتے ہوئے وہ آگے بڑھے۔ "وہ سامنے روشنی دیکھو!” دیا ٹمٹما رہا ہے۔ "وہی غار ہو گا۔”
حکیم عبدالرؤف کیانی کا افسانہ "راہب” کے بیانیہ میں انسانی فطرت، معاشرتی ادراک اور معنی کی جستجو کی جڑی ہوئی پیچیدگیوں کو بیان کیا گیا ہے۔ ایک پراسرار جنگل اور توغر نامی ایک غار میں رہنے والے کے پس منظر میں بنائی گئی یہ کہانی قارئین کو ایک فکر انگیز اور دلچسپ سفر پر لے جاتی ہے۔ حکیم عبدالرؤف کیانی لکھتے ہیں ” وہ آگے بڑھتے ہوئے قریب پہنچے-توغار کے دائیں بائیں وہ بھیڑ بکریوں کو چارہ ڈال رہا تھا۔ سامنے لکڑی کے ڈربے کے قریب مرغ اور کبوتر دانہ دنکا چگ رہے تھے۔ اس نے آگے بڑھ کر ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ انہیں غار کے اندر چٹائ پر بٹھاتے ہوئے ان کی تواضع کیلئے انہیں سبزیوں اور خشک گوشت کا اچار،جڑی بوٹیوں کے خوشبودار قہوے کے ساتھ پیش کیا۔ وہ گویا ہوئے،ہمارا گمان تھا۔ "آپ آدم بیزار شخص ہیں” مگر آپ ہم سے محبت سے پیش آئے۔ "وہ مسکرا کر بولا”، "میں بیزار آدم ہوں”، "چلو آو ہمارے ساتھ” "ترک دنیا کسی صورت روا نہیں ہے”، دنیا بہت پر رونق ہے۔چلو ضد ترک کر دو ۔تمہاری ہر شرط ماننے کیلئے تیار ہیں۔ "شرط ایک ہی ہے”، "کیا” پہلے چل کے تمہاری دنیا دیکھوں گا۔ "چلو اٹھو چلیں”
کہانی تین دوستوں کے ساتھ شروع ہوتی ہے جو ایک غار کی تلاش میں گھنے جنگل میں سفر کر رہے ہیں۔ توغر کے ساتھ ان کا سامنا، ایک پراسرار راہب، ایک ایسی داستان کے لیے مرحلہ طے کرتا ہے جو محض جسمانی کھوج سے بالاتر ہے۔ توغر کی عاجزانہ مہمان نوازی اس کی خود ساختہ "ناگوار” فطرت کے ساتھ مل کر معاشرتی اصولوں کو چیلنج کرتی ہے اور انسانیت کے جوہر پر غور و فکر کرنے کا اشارہ کرتی ہے۔ حکیم عبدالرؤف کیانی رقمطراز ہیں ” وہ شہر کے عین وسط میں پہنچ کر رک گیا اور شہر میں گھومتے پھرتے رنگ برنگی کپڑوں میں ملبوس لوگوں کے رش کو حیرانی سے دیکھنے لگا۔ "ترک راہبانیت کا خیال دل میں آتے ہی”، سامنے پر رونق ہنستے بستے شہر میں چلتے پھرتے بے گناہ لوگوں کی بیچ ایک شخص نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا ۔دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف لاشوں کے لیتھڑوں اور خون سے لت پت بازار کربلا کا منظر پیش کرنے لگا۔ قریب بیٹھا مورخ اپنے جسم میں سوئ سے چھید کرکے خون کی روشنائ دنیا کی تاریخ رقم کر رہا تھا۔ وہ بھاگتا ہوا جنگل کی طرف بڑھا اور چند لمحوں میں اوجھل ہو گیا۔ "پھر؟ "پھر وہ ہمیشہ کیلئے اسی غار میں مقیم ہو گیا۔” "اس کے بعد”؟ اس کے بعد صدیاں بیت گئیں لوگ اسے راضی کرنے کا جواز ڈھونڈتے رہے”۔
اپنی ذات کو ظاہر کرنے سے پہلے توغر کے دوستوں کی دنیا کا تجربہ کرنے کے مطالبے کے ذریعے عبدالرؤف کیانی قارئین کو معاشرے میں رائج تعصبات اور ناانصافیوں کا مقابلہ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ جنگل کے سکون سے شہر کی افراتفری کی طرف اچانک منتقلی انسانی حالت کی تلخ حقیقتوں کی واضح یاد دہانی کا کام کرتی ہے۔ تشدد اور تاریخی صدمے کے مناظر کے ساتھ ترک رہبانیت کا جوڑ امن کی نزاکت اور تنازعات کے پائیدار داغوں کو واضح کرتا ہے۔
کہانی کا پراسرار نتیجہ قارئین کو تنہائی میں رہنے کے لیے توغر کے انتخاب کے مضمرات پر غور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ صدیاں گزر جاتی ہیں، پھر بھی توغر کی موجودگی معاشرے کے اجتماعی شعور کو پریشان کرتی رہتی ہے، جو حل نہ ہونے والی شکایات اور مستقل تلاش کی علامت کے طور پر کام کرتی ہے۔
"راہب” روایتی افسانوں کی حدود سے ماورا بہترین کہانی ہے، یہ افسانہ قارئین کو وجودی موضوعات اور سماجی حرکیات کی زبردست تلاش کی پیشکش کرتا ہے۔ عبدالرؤوف کیانی کی شاندار کہانی قارئین کو انسانی فطرت کی پیچیدگیوں اور ہنگاموں سے بھری دنیا میں معنی کی مستقل جستجو پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ عبدالرؤف کیانی کا افسانہ "راہب” کہانی سنانے کی پائیدار طاقت کی ایک پُرجوش یاددہانی کے طور پر ہمارے سامنے ہے۔ کیانی کی بیانیہ صلاحیت افسانے کی صنف کو مزید مقبول بناتی ہے، اسے فلسفیانہ تحقیقات اور سماجی تنقید کے لیے ایک بہترین معاشرتی افسانے میں تبدیل کرتی ہے۔ میں مصنف کو اتنی اچھی کہانی تخلیق کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اس امید کے ساتھ کہ مصنف اس سے بھی اچھی کہانی لکھ کر اردو ادب کی خدمت کرتے رہیں گے۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔