حیدر قریشی کی اَفسانہ نگار ی
تحریر : معظمہ شمس تبریز ( رحیم یار خان )
اپنی تعلیم کے سلسلے میں ، میں تو رحیم یار خان کی ہو کر رہ گئی ہو ں اور میر ا اَگلا پڑائو مدینتہ الاولیاء ملتان شریف ہے مگر میرا آبائی مسکن گڑھی اختیار خان ہی ہے۔ فطری طور پر اپنے شہر کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جان لینے کی خواہش بہت رہی اور مجھے یہ تجسس اور جستجو کی خو لگانے میں بابا جانی کا کردار بہت زیادہ ہے جو پروفیسر نذر خلیق صاحب کے چہیتے شاگردوں میں سے ایک ہیں۔ خود بھی بڑے باذوق ادیب ، شاعر اور مقرر ہیں مگر ادب کے کسی موضوع پر بات کر لیں ان کی معلومات ایک آبشار کی طرح ادب کی تاریخ ، ارتقا یا سرد گرم سے آشنائی کرانے والے الفاظ و محاورات اور منتخب اشعار سے مزین مالائوں سے آپ کو مالا مال کر تے چلے جاتے ہیں ۔ اپنے اساتذہ کے حسنِ سلوک اور احسان کا ذکر خود پر فرض گردانتے ہیں جس میں پروفیسر نذر خلیق کا حصہ کم از کم ستر فیصد ضرور ہوتا ہے۔
ایک بار دل میں آئی کہ ان کے بارے میں جانا جائے ۔ انٹرنیٹ پر سرچ کیا تو بڑی خوشی ہوئی ان کی تحریروں میں ایک انٹرویو پر ہر بات دل کو لگنے والی ملکی ۔ یہ انٹرویو نامور ادیب ، خوب صورت شاعر اور درسِ عمل کے داعی حیدرقریشی سے کیا گیا تھا ۔ نام نوٹ کر لیا اور بابا جانی سے ملاقات کا انتظار کرنے لگی ۔ خوش قسمتی یہ ملاقات جلد ہوگئی ۔ فوراً پوچھا بابا جانی ! یہ حیدر قریشی صاحب کون ہیں ؟
کہاں سے ہیں اور کیسے ہیں ؟
جواب ملا ، ان کا ذکر جہاں سے بھی شروع کرون بہت اچھا لگے گا مگر جو بات سن کر تم یقینا خوشی سے اچھل پڑ و گی ۔ وہ یہ ہے کہ ان کے آبا و ٔ اجداد نے کافی عرصہ اسی قصبہ گڑھی اختیار خان میں گزارا ہے ۔ اس گئے گزرے دور میں بھی عمرانی نفاست اس خان دان کی پہچان تھی ۔ آج بھی قریشی خان دان یہاں پہ آباد ہے جو کہ نفاست کے ساتھ ساتھ زیورِ تعلیم سے بھی ۔ ان ہی میں سے بہت سے نوجوان میرے ہونہار شاگردوں کی فہرست میں اوّل اوّل ہیں جن میں سے میاں فہیم اور اس کے کزن قابلِ ذکر ہیں ۔ بات بالکل سچ ہوئی میں یہ سن کر پھولے نہیں سما رہی تھی کہ اتنے بڑے ادیب ، نثر نگار شاعر اور سب سے بڑھ کر بہت بڑے انسان کا تعلق میرے قصبے اور شہر سے ہے ۔
ساتھ ہی بابا نے کہا کل آپ کو ایک کتاب گفٹ کروں گا جس میں اس حوالے سے آپ کے سارے سوالوں کے جواب ملیں گے ۔ اب میں گھڑیوں کو انگلیوں پر گننے لگی ۔ خدا خدا کر کے شب بیتی ، صبح ناشتے کی میز پر ہی بابا جانی نے کہا : میں آپ کے تجسس سے خوب واقف ہوں ۔ لیجئے یہ رہی آپ کی کتاب ، میں انتظار کر رہا تھا کہ آپ ناشتہ ختم کر لو ۔ بڑے چائو سے کتاب لی ، سرورق پر مشربِ اقبال سے مربوط ایک دریش کی تصویر پر نظر آئی ، کتاب کا نام تھا ’’ شعورو ادراک ‘‘ کتاب نمبر 4، اکتو بر تا دسمبر 2020ء ( حیدر قریشی گولڈن جوبلی نمبر ) ۔ نیچے بائیں جانب مدیر : محمد یوسف وحید تحریر تھا ۔
مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ مدیر مجلہ شعوروا دراک ، محمد یوسف وحید نے میری طرح میدانِ ادب میں نو آموز شعرا ، نثر نگاروں اور کسی بھی حوالے سے ادبی کام کر نے والوں کا جو آج تک شاید سنی سنائی معلومات کو بند کمرے میں بیٹھ کر محقق کے ٹیگ سے ناانصافی کرنے والے لکھاریو ں کی سہل پسندی کے سبب صرفِ نظر کا شکار ہو چلے تھے ۔ اس کے برعکس محمد یوسف وحید نے قریہ قریہ گھوم کر ادب سے منسلک لوگوں کے دروازوں پر دستک دی اور اگر صاحب خود نہ مل سکا تو اس قیسِ ادب نے دوبارہ سہہ بارہ چکر کاٹنے سے بھی دریغ نہیں کیا ۔
٭
ان دنوں میں اپنا دوسرا افسانہ شروع کر چکی تھی ۔ کسبِ فیض کی نیت سے ان کے افسانوں کو چھٹ سے تلاشا ۔ تھوڑی دیر میں بہت جان لینے کی عادت سی ہوگئی ہے ۔ لہٰذا افسانوں کے عنوانات دیکھنے لگی جن کو اگر میں اپنے الفاظ میں بیان کروں تو وہ کچھ یوں ہے کہ حیدر قریشی افسانے کے ٹائیٹل میں ہی اپنا سودا بیچ لیتے ہیں ۔ ایسا جامع اور زندگی کے ساتھ فرداً فرداً ہر کسی سے جڑی کہانی کا سرنامہ بطور عنون بر تتے ہیں کہ ہزار کام چھوڑ کے بھی قاری اسے روایت دینے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ حیدر قریشی زندگی کے جمع نفی تمام پہلوئوں پر نہایت گہری نظر رکھتا ہے اور ہر وہ واقعہ بھی لازماً نوے فیصد میری اور آپ کی کہانی ہوتی ہے جس میں کبھی کبھی وہ قریقِ ثالث بن کر پند و نصائح کا دفتر سجاتا ہے اور بھٹکی انسانیت کو نہ صرف اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے کا ماحول فراہم کرتا ہے بلکہ توبتہ النصوح کی ترغیب بھی دلاتا ہے اور درست سمت میں سفر کے لیے راہیں بھی متعین کرتا چلا جاتا ہے ۔
اگلا مرحلہ کردار کا انتخاب ہے اور یہ تو آپ بخوبی جانتے ہوں گے کہ افسانہ نگار اپنے سارے کردار جو ادا کر رہا ہوتا ہے اسی طرح حیدر قریشی بھی بالکل ایک ایسے الگ پہچان بنا لیتا ہے ۔ جسے بابا جانی نے one man armyکہہ کر میرا وہ مسئلہ حل کر دیا ہے جو حیدر قریشی کی اس کیفیت کو بیان کر نے کے لیے کافی دن سوچ وچار میں مصروف رکھا تھا ۔
حیدر قریشی انسان کوتعارف معاشرے کے حوالے سے پیش کرنے کا ماہرِ اعظم معلوم ہوتا ہے ۔ وہ پہلے تو مسئلہ کا ادراک کرتا ہے ۔ اسے آپ کے سامنے رکھتا ہے اور آپ کی گفت گو کا حصہ بنانے میں کامیاب ہونے کے فوراًبعد از خود ا س سے جڑے مختلف سوال اُبھارتا ہے ۔ پھر ان کے حل کے لیے بہترین تجاویز اس خوب صورت انداز میں آپ کے سامنے رکھتا ہے کہ خواہ آپ کسی کو بتائیں نہ بتائیں مگر اپنے گریبان میں جھانکتے بھی ہیں ۔ احساسِ زیاں بھی کرتے ہیں اور خاموشی سے اصلاح بھی کر لیتے ہیں ۔ میرے خیال میں حیدرقریشی کے افسانوں کی ہر دلعزیزی کے پسِ پردہ ان کا وہی وَصف کار فرما ہے کہ وہ اُصولِ آمادگی پر کامل بھروسہ رکھتے ہیں اور اس پر عمل پیر ابھی اس انداز سے ہوتے ہیں کہ قاری کے سامنے پہلے حاصل نعمتوں کا ذکر آتا ہے پھراچانک جون کی گرمی اور اس کی تمازت کی تصویر دکھائی جاتی ہے ۔ اس کی شدت کو واضح کرنے کے لیے روہی کی تپتی ریت اور جھلسا دینے والی لُو کا اتنا مفصّل نقشہ کھینچتے ہیں کہ قاری خود کو پیاسا روہیلا ماننے پر مجبور ہوجاتا ہے بلکہ اسی میں سفر بھی کرنے لگتا ہے ۔ پھر وہ گویا ٹیلی پیتھی کے ذریعے بندے کا دھیان بندہ پرور سے جوڑتے ہیں ۔ دستِ دُعا بلند ہوتا ہے اور رِم جھم اور جل تھل ہوجاتا ہے ۔ قاری ربّ کا شکرادا کرتا ہے اور ایک سنگی بیلی دوست اور جانِ عزیز بن کر قاری کے ساتھ چلنے لگتا ہے اور اسے افسانے کے آخری لفظ تک ہر گز یہ خبر نہیں ہونے دیتا کہ یہ سارا ماحول اس نے محض اپنے زورِ قلم سے پید ا کیا ہے ۔ حیدر قریشی ایک ایسے ہم جولی خیر خواہ اور شریکِ سفر ثابت ہوتا ہے جو جھوٹی تسلی نہیں دیتا بلکہ یہ حقیقت آپ کے سامنے رکھ اُمید کا دامن تھامے رکھنے کا درس دیتا نظر آتا ہے کہ
جو دُکھ جھیلے وہ سُکھ پاتا ہے
جیسے رُت کے بعد سویر آتا ہے
روشنی کی کرن بطور استعارہ انسان کے شعورِاوّل سے جڑی ملتی ہے جسے کبھی کسی قسم کا گرہن لگ ہی نہیں سکتا ۔ حیدر قریشی نہایت فنکارانہ انداز میں اس استعارہ کی حقیقی حیثیت کھوج کر ہمارے سامنے رکھتے ہیں کہ ہم نہ صرف اس کے وجود کو مان لیتے ہیں بلکہ ہمہ قسم زبوں حالی کا شافی وکافی نسخہ بھی مان لیتے ہیں ۔
کیوں کہ خونِ جگر سے جلے دیپک کی اکیلی لو ہی پاس کا سارا اندھیرا اڑا لے جاتی ہے ۔
’ ’ ہوا کی تلاش ‘‘ اس روشنی کا بہترین عکس پیش کرتی ہے ۔ ’’ گلاب کہانی ‘‘ سمبل ہے انسان کی لطافت کا جسے ہوس کے جبّر نے کثافت زدہ کر دیاہے ۔ بہر حال حیدر قریشی کا اوّل و آخر سبق سچ کو تلا ش کر کے اسے قربت کرکے زندگی کو زندہ کرنے بلکہ زندہ رکھنے کا ہے ۔ امید ہے نئے لکھاری اس بات کو نہ صرف سمجھیں گے بلکہ مشعلِ راہ بھی بنائیں گے ۔
٭
(بحوالہ : مجلہ شعوروادراک خان پور ،شمارہ نمبر5(جنوری تا مارچ 2021ء) مدیر: محمد یوسف وحید ،ناشر: الوحید ادبی اکیڈمی خان پور)
٭٭٭
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔