حیدر قریشی کا گلشنِ اَدب

حیدر قریشی کا گلشنِ اَدب
تحریر: محمد یوسف وحید
(مدیر: شعوروادراک خان پور )

شہر کی گلیوں نے چومے تھے قدم رو رو کر
جب ترے شہر سے یہ شہر بدر آئے تھے
حیدرقریشی ہمہ جہت ادیب اور شاعرہیں ۔وہ بیک وقت ماہیا ، تحقیق و تنقید ، خاکہ ، افسانہ ، انشائیہ اور سفر نامہ نگار ہیں ۔ اس کے علاوہ حالاتِ حاضرہ پر مضمون نگاری کے ساتھ یاد نگاری کے حوالے سے بھی بھر پور اور عمدہ کام کر چکے ہیں ۔حیدر قریشی کا اہم کام اُردو ماہیا کے حوالے سے تحقیقی،تنقیدی اور تخلیقی ہر لحاظ سے بنیادی اہمیت کا حامل ہے ۔
حیدر قریشی کا بنیادی تعلق خان پور اوراُن کے آبائو اجداد کا تعلق خان پور کے مضافات میں موجود اہم تاریخی ، ادبی اور روحانی مرکز گڑھی اختیار خان سے ہے ۔ حیدر قریشی کی زیرِ ادارت ادبی پرچہ ’’ جدید ادب ‘‘بھی شائع ہوا جس کے اوّلین کچھ شمارے خان پور اور بعد ازاں جرمنی سے جاری ہو ئے ۔
گزشتہ سال دسمبر 2020ء میں حید رقریشی کے ۵۰ سال مکمل ہو چکے ہیں ۔ اسی مناسبت سے حیدر قریشی کے ۵۰ سالہ ادبی سفر پر خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے فروغِ علم و ادب کے تحت الوحید ادبی اکیڈمی خان پور کے زیرِ اہتمام گزشتہ سال علمی ،ادبی اور ثقافتی مجلہ ’’ شعوروادراک ‘‘کا شمارہ نمبر ۴۔( اکتوبر تا دسمبر ۲۰۲۰ء ) خاص شمارہ ’’حیدر قریشی گولڈن جوبلی نمبر ‘‘ ناچیز کی زیرِ ادارت شائع ہوچکا ہے ۔جس میں حیدر قریشی کی باوقار شخصیت اور فن کے حوالے سے جملہ موضوعات پر پاکستان بھر کے عمدہ قلم کاروں کی تخلیقات، یادیں اورباتیں شامل ہیں ۔حیدر قریشی کے فن و شخصیت پر مشتمل یہ اپنی نوعیت کا نہایت عمدہ ، جامع اور بھر پور خاص نمبر ہے ۔
یہ مختصر مضمون ’’ حیدر قریشی گولڈن جوبلی نمبر ‘‘ میں شامل ہے جس میںمختصر تعارف و تذکرہ اور اشعار کی صورت میںیاد ِ ماضی کی جھلکیاں پیش کی گئی ہیں ۔
٭

Haidar Qureshi


پچاس سال علم و اَدب کی ترویج و اَشاعت کے لیے وقف کرنے والے اُردو ، سرائیکی کے معروف شاعر ، نقاد، محقق ، ادیب و مدیر حیدر قریشی کوگزشتہ سال دسمبر 2020ء میں اپنی اَدبی زندگی کے 50سال پورے ہونے پر تہہ دل سے مبارک باد پیش کرتے ہیں ۔
کسے خبر تھی کہ آج سے پچاس سال قبل ایک عام سی غزل سے اَدبی دنیا میں داخل ہونے والے نو آموز نو جوان غلام حیدر ارشد جو اپنی مستقل مزاجی ، غیر متزلزل طبیعت اور سچے جذبے و لگن کے ساتھ ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے اَدبی دنیا میں حیدر قریشی کے نام سے معروف ومتعارف ہوا ۔
حیدر قریشی نے اَدبی دنیا میں قدم رکھنے کے ابتدائی سالوں میںمختلف علمی و اَدبی موضوعات پر ترتیب و تدوین کا کام کیا ۔ جس میں اُردو کے ساتھ ساتھ سرائیکی زبان میں بھی مقامی و غیر مقامی اَدب کی ترویج و اَشاعت شامل رہی ۔
حیدر قریشی نے باقاعدہ شاعری کا آغاز 1971ء میں کیا ۔ ابتدا ء میں ہفت روزہ ’ مدینہ ‘ بہاول پور میں چند غزلیں شایع ہوئیں ۔ 70ء کی دہائی میں قائم ہونے والی اَدبی تنظیم ’ بزمِ فرید ‘ میں پہلی اُردو غزل پیش کی ،بے حد حوصلہ اَفزائی ہوئی ۔
خان پور کی اَدبی روایت کو تین اَدوار میں تقسیم کیا جائے تو اس کی ترتیب کچھ یوں بنتی ہے ۔
(۱) ۔( 1901ء تا 1947ء )اُنیسویں صدی کے آغاز اور قیامِ پاکستان سے قبل کے دَور میں علم و اَدب کی نام ور ، قد آور شخصیات کا تعلق خان پور ایسی مر دم خیز دھرتی سے رہا ، جن میں خواجہ غلام فرید، محسن خان پوری ، خواجہ محمد یار فریدی ، عبد الرحمن آزاد، علامہ ظہور احمداورسید مغفور القادری کے نام شامل ہیں ۔
(۲) ۔ ( 1948ء تا 1980ء ) دوسرے دَور یعنی قیامِ پاکستان کے بعد کے دَور میں محمد نواز خوشتر ججوی عباسی ، عارف عزیزی ، غلام رسول سندر ، امیر بخش حاذق ، عبد الرشید ، مرید حسین راز جتوئی ، عبد الرحیم خوشدل ، مجاہد جتوئی ، علی بخش سیف فریدی ،سید مسعود نقوی ، گلزار نادم صابری ، امان اللہ بیدم ، حکیم شیر محمد خیال ، رفیق راشد ، اعجاز امرتسری ، منور نقوی ، حفیظ شاہد ، اُلفت کریم اُلفت ، غلام مصطفی بیتاب ، اَسد حسین اَزل ، آسی خان پوری ، نردوش ترابی ، صفدر صدیق رضی ،رشید اَیاز، شمسہ اَختر ضیاء ، قیس فریدی ، حیدر قریشی ، خواجہ غلام قطب الدین فریدی ، جمیل محسن ، زاہد شمسی ، رائو رحمت محفوظ ، قاصر جمالی ، مرید حسین راغب ، فرحت نواز ، شیما سیال ، ریحانہ یاسمین و دیگر مرد و خواتین کی مختلف علمی و اَدبی رسائل ا ور اخبارات میں شایع ہونے والی تخلیقات کے حوالہ جات موجود ہیں ۔
(۳) ۔ 1981ء تا 2020ء ۔ تیسرے دَور میں متعدد جید اورنئے لکھنے والوں کے نام جو قابل ہیں ، ان میں سعید شباب ، نصر ت جہاں ، شبنم اعوان ، ڈاکٹر نذر خلیق ، فیض احمد اَسیر ، رفیق احمد صدیقی ، کریم بخش شعیب ، ایوب ندیم ، اعظم قادری ، ابراہیم دین پوری ، سراج احمد قریشی ،رشید شاہد ، اسد اللہ اَسد ، عامر ملک ، ندیم احمد شمیم ، امان اللہ ارشد ، اشرف دھریجہ ، صادق جاوید ، عامر بھایا ، اظہر عروج ، یاور عظیم ، آرب بخاری ، طارق امین یازر، معظمہ شمس تبریز ، سعدیہ وحید اور راقم شامل ہیں ۔
تاریخ کے ہر دَور میںخصوصاً شعرو اَدب کے حوالے سے اس خطے کو دبستان کا درجہ حاصل رہا ہے ۔ یہا ں کے اُدبا ء و شعرا ء نے عالمی شہرت حاصل کی ۔ بہت سے لوگوں نے شعر واَدب کے ساتھ ساتھ دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی کار ہائے نمایاں سر اَنجام دیے ہیں اور دنیا بھر میں اس خطے کا نام روشن کیا ہے ۔
اِسی سلسلے کی اَہم کڑی گذشتہ ۵۰ سالوں سے تحقیق ، تنقید،غزل ، ماہیا اور دیگر متعدد جہتوں میں کار ہائے نمایاں سر اَنجام دینے والے ’ حیدر قریشی ‘ جن کا دل آج بھی اپنے آبائی شہر خان پور کی سوندھی خوش بومیںرَچے جذبوں سے لبریزہے ۔ جن کی ہر تحریر سے وطن اور دھرتی کی خوش بو محسوس ہوتی ہے ۔ دھرتی کی خوش بو میں بسا ایک شعر ؎
گلابوں کی مہک تھی یا کسی کی یاد کی خوشبو
ابھی تک روح میں مہکار کا اَحساس باقی ہے
حیدر قریشی نے اَدبی زندگی کے ساتھ ذاتی زندگی بھی بڑی بھر پور گزاری ہے ۔ کتاب میر ی محبتیں میں فیملی کے اَفراد اور دیگر ہم عصر اَحباب کے نام منسوب اشعار میںکچھ یوں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں ۔
برگد کا پیڑ ( ابا جی )
گلابوں کی مہک تھی یا کسی کی یاد کی خوشبو
ابھی تک روح میں مہکار کا اَحساس باقی ہے
مائے نی میں کِنوں آکھاں ( اَمی جی )
ماں ! ترے بعد سے سورج ہے سو ا نیزے پر
بس تری ممتا کا اِک سایہ بچاتا ہے مجھے
ڈاچی والیا موڑ مُہاروے ( دادا جی )
ایک اَن دیکھے کی سوچوں میں گھرا رہتا ہوں میں
ُاُس کی آنکھیں اُس کا چہرہ سوچتا رہتا ہوں میں
مظلوم متشدد ( ناناجی )
زندگی ! دیکھ بجھتے ہوئے لوگ ہم
بزمِ جاں میں چمکتے رہے رات بھر
مصر ی کی مٹھاس اور کالی مرچ کا ذائقہ ( تایا جی )
نظر سے دور ہے لیکن نظر میں ہے پھر بھی
کہ عکس اپنے مرے آئنوں میں چھوڑ گیا
رانجھے کے ماموں ( ماموں ناصر )
ہر ا سکتا نہ تھا ویسے تو کوئی بھی مگر مجھ کو
کسی کی کامیابی کے لئے ناکام ہونا تھا
محبت کی نمناک خوشبو ( آپی )
بنی ہوئی ڈھال وہ میری خاطر حیدر
مرے مخالف کو جو کماں جیسی لگتی ہے
پسلی کی ٹیڑھ ( مبارکہ حیدر )
پھول تھا وہ تو میں خوشبو بن کے اس میں جذب تھا
وہ بنا خوشبو تو میں بادِ صبا ہوتا گیا
اُجلے دل والا ( چھوٹا بھائی )
لڑائی جھگڑا تو حیدر نہ تھا مزاج ان کا
وہ گھونٹ زہر کے بس پی کے رَہ گئے ہوں گے
زندگی کا تسلسل ( پانچوں بچے )
میں نے اپنی دیانت کی سب دولتیں اپنی اَولاد کو دیں فقط
اور باقی عزیزوں کو صرف اپنے حصے کا گھر لکھ دیا
اُردو اَدب کے نوبل پرائز ( میرزا اَدیب )
خاموشیوں کے لب پہ کوئی گیت تھا رَواں
گہری اُداسیوں کے کنول جھومتے رہے
ہم کہ ٹھہرے اَجنبی ( فیض احمدفیض )
چند لمحے وہ ان سے ملاقات کے
میری سانسوں میں برسوں مہکتے رہے
عہد ساز شخصیت ( ڈاکٹر وزیر آغا )
جو اپنی ذات میں سمٹا ہوا تھا
سمندر کی طرح پھیلاہوا تھا
ایک اَدھورا خاکہ ( غلام جیلانی اَصغر )
مجھے ہر گنہ کی جز ملی
وہ شرافتوں کی سزا میں ہے
بلند قامت اَدیب ( اَکبرحمیدی )
تیری لگن میں تجھ سے بھی آگے نکل گئے
تیرے مسافروں کو ٹھہرنا نہ آسکا
صاف گو اَدیبہ ( عذرا اَصغر )
ہم تہی دست آبروئے فقر
سو د دے کر زیان مانگتے ہیں
دوستی کا کمبل ( سعید شباب )
جو دُعا کرتے تھے اُلٹا ہی اَثر ہوتا تھا
تیری چاہت کی دُعا ربّ سے بچا لی ہم نے
عاجزی کا اعجاز ( محمد اعجاز اَکبر)
مر جھا چکے ہیں پھول تری یاد کے مگر
محسوس ہو رہی ہے عجب تازگی مجھے
میرا فیثا غورث ( طاہر احمد )
خوشی کے لمحے لکھو ، عمر اضطراب لکھو
نکالو وقت کبھی عشق کا حساب لکھو
پرانے اَدبی دوست ( خان پور کے اَحباب )
شہر کی گلیوں نے چومے تھے قدم رو رو کر
جب ترے شہر سے یہ شہر بدر آئے تھے
٭
(بشکریہ سہ ماہی شعوروادراک خا ن پور ۔ مدیر : محمد یوسف وحید ، شمارہ نمبر ۴ ، حیدر قریشی گولڈن جوبلی نمبر۔اکتوبر تا دسمبر ۲۰۲۰ء ،ناشر: الوحید ادبی اکیڈمی خان پور )
٭٭٭

Yousuf Waheed

محمد یوسف وحید

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

امام سجادؑ اور بی بی زینب سلام اللہ علیہا کی نماز شب

جمعہ دسمبر 17 , 2021
کائنات کا یہ محسن امام جب دکھوں، مصیبتوں اور غموں کے باوجود بیڑیوں میں جکڑا ہوا نمازِ شب ادا کرتا رہا تو آج کا انسان کیوں اس سعادت و عظمت سے محروم ہے
امام سجادؑ اور بی بی زینب سلام اللہ علیہا کی نماز شب

مزید دلچسپ تحریریں