خلوص و محبت کا پیکر …حفیظ شاہدؔ
تحریر: محمد یوسف وحید
(مدیر: شعوروادراک خان پور)
اس طرف اندھیرا ہے، اُس طرف اُجالا ہے
یہ مرا حوالہ ہے، وہ ترا حوالہ ہے
کیا ڈرے گا دل شاہدؔ وقت کے مصائب سے
گردشوں کا خوگر ہے، سختیوں کا پالا ہے
(حفیظ شاہدؔ )
گزشتہ دنوں اُردو غزل کا نمائندہ حوالہ اور چیف ایڈیٹر:بچے من کے سچے ، چھ شعری مجموعوں اور کلیات: ختمِ سفر سے پہلے کے خالق ، الوحید ادبی اکیڈمی خان پور کے سرپرستِ اعلیٰ محترم حفیظ شاہد کی ساتویں برسی منائی گئی ۔ حفیظ شاہد کے فن و شخصیت کے حوالے سے خصوصی گوشہ سہ ماہی بچے من کے سچے کے پلیٹ فارم سے 2017ء میں شائع ہوچکا ہے ۔ جب کہ رواں ماہ نومبر 2021ء کے ابتدائی ہفتے میںحفیظ شاہد کے حوالے سے جملہ معلومات اور فن و شخصیت پر مشتمل علمی و ادبی مجلہ شعوروادراک کا خصوصی شمارہ ’’ حفیظ شاہد نمبر ‘‘ بھی ناچیز کی زیرِ ادارت شائع ہوگیا ہے ۔ جس میں حفیظ شاہد کے غیر مطبوعہ کلام کوخاص طور پر پہلی مرتبہ ’’ حاصلِ غزل ‘‘ کے عنوان سے ترتیب دیا گیا ہے ۔ حفیظ شاہد کی ساتویں برسی کے موقع پر خصوصی مضمون نذرِ قارئین ہے ۔
’’ سفر روشنی کا ‘‘ سے اپنے ادبی و تخلیقی سفر کا آغاز کرنے والے اور ’’ ختمِ سفر سے پہلے ‘‘کے خالق نہایت عمدہ شاعر اور خوب صورت انسان اور ادب نواز شخصیت عبد الحفیظ شاہد قلمی نام حفیظ شاہدؔ‘ادبی دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ایک معتبر اور پُر تاثیر آواز ،اُردو غزل کی دنیا میں ایک تابندہ ستارہ ۔چھ گہر ہائے تابدار سے گلشنِ سخن کو حسن و جمال عطا کر نے والے حفیظ شاہدؔ اپنے دَور کے کہنہ مشق اوراُستاد شعرا ء میں شمارہونے والے حفیظ شاہد مرحوم کو کن کن القابات سے یاد کروں ۔ ایک مدت سے بحر ِسُخن میں غوطہ زن ہوکر زندگی کے حسین موتی چن چن کر ادب کے سمندر میں اپنا حصہ ملاتے رہے ۔ نہ کبھی منجدھار کی پروا کی نہ ساحل ِمراد سے دور ہو نے کا شکوہ ۔ وسیع مطالعہ رکھنے والے ہمہ جہت شخصیت کے مالک حفیظ شاہد کمال درجے کے شاعر اور اُس سے کہیں اچھے انسان تھے ۔ سراپاخلوص و محبت اور شرافت کا پیکر ۔حفیظ جالندھری اور احسان دانش کی محافل میں اپنے نغمات پیش کر نے والے داد ِ سُخن پانے والے حفیظ شاہدؔ خان پور کی مردم خیز دھرتی کے عظیم شاعر تھے ۔ نُدرتِ خیال اور بلندتخیل کی کلاسیکی روایات کا امین ۔ غزل کا معتبر حوالہ بلاشبہ حفیظ شاہد ہی کو کہا جا سکتا ہے ۔
حفیظ شاہدؔ غزل کی روایت کے ساتھ ساتھ جدیدیت کا حسن بھی لیے ہوئے ہیں ہماری تہذیب و روایت کو زندہ کر نے میں اُن کی غزلیات اعلیٰ مقام رکھتی ہیں ۔ ایسا رچائو ، چاشنی اور تغزل کی کشش موجود ہے کہ ہم اپنے حقیقی ماحول اور صداقت سے لبریز تصورات میں کھو جاتے ہیں ۔ صرف کر ب ِ ذات تک محدو د نہیں ہیں بلکہ تضادات ِ زمانہ اور حقائق روزگار سے بھی غزل کاخمیر اُٹھاتے ہیں ۔ نقوش ِ پارینہ کی باز آفرینی اُن کی غزل کادرخشاں پہلو ہے ۔ کہیں کہیں فکر کے ایسے غنچے چٹکتے ہیں کہ ان کی خوشبو چار سو ماحول کو معطر کر تی چلی جاتی ہے ۔ الفاظ و تراکیب کا انتخاب ، مِصر عوں کی بُنت اور اشعار میں شعری تلازمات کا استعمال حفیظ شاہد کے کلام کے محاسن ہیں ۔ اُن کے ہاں تشبیہات و استعارات کا نادر اِنتخاب متوازن اور مناسب اُسلوب اِس سلیقے سے ملتا ہے کہ غزل کی کائنات پُر کشش اور دیدہ زیب بن جاتی ہے ۔ حُسن ِ بیان میں انفرادیت اُن کا طرہ ٔ امتیاز ہے ۔ ایک ایسا آہنگ ان کے ردیف و قافیہ میں جھنکار پیدا کر تا ہے کہ ہر شعر ترنم سے لبریز دکھائی دیتا ہے ۔ غزل کی دنیا میںیہ ایک منفر د اعزاز جو اہل ِ ذوق اور سخنواران ِ غزل سے داد حاصل کر رہی ہے ۔
حفیظ شاہد ’ؔ’بچے من کے سچے ‘‘ کے 2007ء میں آغازسے 2014ء تک بطور چیف ایڈیٹر ذمہ داریاں بہ احسن و خوبی ادا کر تے رہے ۔ ’’بچے من کے سچے ‘‘ کے پلیٹ فارم سے تر و یج و ادب کے لیے اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کا ر لاتے رہے ۔ شعر و ادب سے والہانہ محبت کر نے والے شخص تھے ۔ ترویج ِ ادب کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے ۔حفیظ شاہد بااخلاق اور سراپا خلوص انسان تھے ۔ جب بھی میں اُن سے ملنے کے لیے گیا ، جس قدر تھکاوٹ اور مصروفیت ہوتی ، کبھی محسوس نہیں ہونے دیتے تھے ۔ بچوں سے خاص محبت کر تے تھے ۔
تقسیم ِ ہند سے قبل حفیظ شاہد کے والدین جالندھر سے ترک ِ سکونت کر کے لاہور آگئے ، پاکستان بننے سے چار سال قبل آپ کے والد کا انتقال ہو گیا ۔ تعلیم مکمل کر نے کے بعد بینک میں ملاز مت کر لی ۔ شعر و ادب کا شوق بچپن ہی سے تھا جب بھی فرصت ملتی ، فن ِشاعری سیکھنے اور اپنے ذوق کی تسکین میں صرف کر تے ۔ لاہو رمیں اُس دور کے نامور شعراء کی صحبت میسر رہی ۔ بینک سے چھٹی کے بعد معروف شاعر طفیل ہو شیار پوری کے ادبی رسالے’’ محفل ‘‘ کے دفترچلے جاتے ۔ وہاں اُ ن کی ملاقاتیں طفیل ہو شیار پوری کے علاوہ شرقی بن شائق ، رشید کامل ، ارمان عثمانی ، ایف ڈی گوہر اور یزدانی جالندھری ایسے اساتذہ سے ہوئیں ۔ مصر ع ہائے طر ح دیے جاتے اور طبع آزمائی ہوتی ۔ حفیظ شاہد کا کلا م معروف و مقبول رسائل ’’محفل‘‘ ، ’’قند یل‘‘ ،’’ اقدام‘‘ ،’’ بیسویںصدی‘‘(نئی دہلی) ،’’ شمع‘‘(نئی دہلی) ، ’’لیل و نہار‘‘،’’رومان‘‘، ’’نیا زمانہ‘‘ (لاہور) ،ہفت روزہ ’’زندگی ‘‘،’’جدید ادب‘‘ ، سہ ماہی ’’بچے من کے سچے‘‘اور ’ ’ شعورو ادراک‘‘ (خان پور)وغیر ہ میں شائع ہو تا رہا ۔
لاہور میں رَہ کر حفیظ شاہد نے فلمی گیت نگاری بھی کی ۔ حفیظ شاہد نے اُردو اور پنجابی گیت لکھے ۔ایک پشتو فلم بھی بنائی مگر فلاپ ہوگئی اور مالی طور پر بہت زیادہ نقصان کا باعث رہی۔ حفیظ شاہد نے متعدد پنجابی فلموں کے گیت لکھے ، ایک فلم ’’ بلبل پنجرے دی ‘‘۔اس فلم کے ڈائر یکٹر رحمان ورما تھے ۔ اس کے چار گیت ریکارڈ ہوئے جو میڈم نورجہاں ، نسیم بیگ ، تصور خانم اور مسعود رانا نے گائے تھے ۔لیکن یہ فلم تکمیل کے مراحل تک نہ پہنچ سکی ۔ دوسری پنجابی فلم جس کانام ’’ چھڈ بُرے دی یاری ‘‘ تھا ۔ اس فلم کے دو گیت لکھے ۔ اس فلم کے ڈائر یکٹر اے ریاض تھے ۔ یہ فلم کافی مقبول ہو ئی ۔ حفیظ شاہد کا لکھا ہوا تھیم سانگ ، رجب علی کی آواز میں بہت مقبول ہوا ۔ جس کے بو ل تھے:
اپنے ای پیاریاں دا پیار لُٹ لیندے نیں …..کدی کدی یاراں نو ں وی یار لُٹ لیندے نیں
حفیظ شاہد 1976ء میں مستقل طور پر لاہور سے خا ن پور منتقل ہوگئے اور فلمی گیت نگاری کا سلسلہ منقطع ہو گیا ۔
حفیظ شاہد کی شاعر ی کا ایک اور پہلو تاریخ گوئی ہے ۔تاریخ گوئی میں کسی خاص واقعے پر نثر میں یا قطعہ کہہ کر اور آخری مصر عے یا شعر سے ابجد کے حساب سے اس کی تاریخ نکالی جاتی ہے۔ اس طر ح اہم تاریخیں ان سطروں ، مصرعوں یا شعروں کے ذریعے سے ذہنوں میں نکالی جاتی ہیں ۔ اگر چہ یہ فن بہت پرانا ہے لیکن اس میں نام پید اکر نے والے صرف چند ہی شاعر مشہور ہیں جیسے غالبؔ ، مومنؔ ، داغؔ ، شمیمؔ متھراوی ، رئیسؔ امر و ہوی ، علامہ قابلؔ گلائو ٹھوی ، صبا ؔاکبر آبادی ، محشرؔ بد ایونی اور نیساںؔ اکبر آبادی وغیرہ
خان پور میں رہتے ہوئے شعر و ادب کی محافل بر پا کیں اور معاصر شعرا ء کے ساتھ ادبی اور شعری نشستوں میں مستقل شر کت کر تے رہے ۔ خان پور میں حفیظ شاہد کے ہم عصر شعرا ء میں گلزار نادم صابری ، رفیق راشد ، حیدر قریشی ، اسد حسین ازل ، آسی خانپوری ، مجاہد جتوئی اور دیگر شامل تھے ۔ 2004ء میں’’ معارف ‘‘ کے نام سے ادبی تنظیم کی بنیاد رکھی ۔ جس کے تحت نامو رعلمی و ادبی شخصیات کے اعزا زمیں ماہانہ ادبی محافل کا اہتمام کیا ۔
٭٭٭
محمد یوسف وحید
(مدیر: شعوروادراک خان پور)
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔