میلہ بیساکھی پر خصوصی تحریر
سکھوں کے مذہبی راہنما گو رونانک ضلع ننکانہ صاحب کے گائوں تلوندی میں مہتہ کالو نامی محنت کش کے گھر نومبر 1469ء میں پیدا ہوئے انہوں نے برصغیر میں’ سکھ پنتھ ‘کی بنیاد رکھی۔ ایک روایت کے مطابق وہ اپنے ننھیال میں پیدا ہوئے جس کی وجہ سے ان کا نام ’نانک ‘رکھا گیا،دوسری روایت کے مطابق بچے کا نام اس کی ہمشیرہ کے نام کی مناسبت سے ’نانک ‘رکھا گیا ،یعنی نانکی کا بھائی نانک ۔نانک جی کی پیدائش کے وقت دہلی پر لودھی خاندان حکمران تھا ،مذکورہ افغان حکمران مطلق العنان شہنشاہ تھے جن کا تعلق اجنبی سرزمین سے تھا رعایا سے ان کا تعلق فاتح اور مفتوح کا تھا۔ شہنشاہوں کے درباری ، حواری اور کاسہ لیس نام نہا د دانشوروں کی چاندی ہو جاتی تھی اکثر اوقات ان میں علمائے سُو بھی شریک ہوتے جو حکمرانوں کو ’ظلِ الٰہی‘ کا لقب دینے میں فعال کردار ادا کرتے تھے۔ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو گورونانک کی پیدائش کا زمانہ دورِ ابتری میں آتا ہے اس ابتری کی دوسری بڑی وجہ ہندو مت کا عوام دشمن اور فرسودہ ذات پا ت کا نظام تھا جس نے صدیوں سے برصغیر کو اپنے چنگل میں جکڑ رکھا تھا، ذات پا ت کے ا س نظام کی روح سے نچلی ذات کے شودر کا سایہ برہمن کیلئے ناقابلِ برداشت تھا حد یہ کہ شودر کا سنسکرت میں اشلوک سننا بھی گناہِ عظیم سمجھا جاتا آپس میں میل ملاپ کا تو تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ۔
نانک جی نے سکھ پنتھ کا آغاز 31برس کی عمر میں 1500ء میں کیا، سب سے پہلے وہ لالو ترکھان کے ہاں ایمن آباد گوجرانوالہ پہنچے لالو ترکھان آنے والے کی ایک نگاہ برداشت نہ کر سکا اور اٹوٹ رشتے کی بنیاد پڑی ۔گورونانک بابا ولی قندھاریؒ سے ملاقات کیلئے قندھا ر بھی گئے ،انہوں نے بابا فرید الدین گنج شکر ؒ کی تعلیمات سے بھی بہت کچھ سیکھا اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ گورونانک نے بابا فرید کا کلام ’’گرو گرنتھ صاحب‘‘ میں ہمیشہ کیلئے محفوظ کر لیا۔ اگر ہم یہ کہیں کہ ’سکھ پنتھ‘ ہندو مت کی مکمل ضد ہے تو بے جا نہ ہو گا،ایک کی بنیاد اصنام پرستی اور دوسرے کی واحدانیت پر ہے ،ایک میں ذات پا ت کی تمیز ہے تودوسرے میں ذات پات کو فساد کی جڑ قرارد یا گیا ہے، گرو نانک کے ہاں ذات پات کے بت کو پاش پاش کئے بغیر مذہبی اصلاح اور سماجی ترقی کا امکان ہی نہیں ۔ بابا گورونانک نے دنیا کے طویل سفر کئے اورہم خیال لوگوں کی جماعت بنائی جسے ’سکھ ‘کہا جاتا ہے جگہ جگہ تعلیمی مراکز قائم کئے جہاں بھائی چارہ ، مساوات اور محبت کا درس دیا جاتا۔ بابا نانک کی زندگی کا سب سے درخشاں پہلو محبتِ الٰہی ہے آپ نے توحید کے گیت گائے خدا کی محبت ، کرم اور رحمت ان کی تعلیمات کی اساس ہے، انسان کے اچھے اعمال کو نجات کا ذریعہ قرار دیا انسان کو تعلیم دی کہ غلط کام چھوڑ کر نیکی کو رواج دے ۔ان کے بتائے ہو ئے اصول آج بھی پنجاب کی دھرتی کی پہلی توحید کی کتاب کا حصہ ہیں جس کے پیرو کار دنیا کے ہر کونے میں موجود ہیں۔ بابا نانک کہتے ہیں کہ
؎نہ میلا نہ دھندلا ، نہ بھگوا نہ کچ
نانک لالو لال ہے سچے رتا سچ
گوردوارہ پنجہ صاحب حسن ابدال میں کئی صدیوں سے ’میلہ بیساکھی ‘اپریل کی گیارہ سے تیرہ تاریخ تک منایا جاتا رہا ہے حسن ابدال کے گردو نواح اور دیہاتوں میں رہنے والے لوگوں کو ساراسال یہ انتظار رہتا تھا کہ وہ میلہ بیساکھی کے موقع پر حسن ابدال جائیں گے ،اس موقع پر پوری دنیا سے ہزاروںسکھ یاتری حسن ابدال آتے ہیں ۔ شہرمیںمیلہ بیساکھی کے موقع پر چند سال قبل تک ایک میلے کا سماں ہوتا تھا سکھ تاجر اپنے ساتھ کپڑے،ڈرائی فروٹ اور لنڈے کا سامان لیکر آتے وہ چند دنوں کیلئے دکانیں مقامی مالکان کو ہزاروں روپے دیکرکرائے پر حاصل کرتے ،میلے کے دنوں میں یہاںاتنا زیادہ رش ہوتا کہ تِل دھرنے کو جگہ نہ ہوتی تھی انڈیا سے آنے والے سکھ یاتری اپنے ہمراہ سامان لاتے ،پاکستانی خواتین انڈیا سے لائے گئے زیورات کو بہت شوق سے خریدتیں اسی طرح انڈیا کی ساڑھیاں بھی بہت پسند کی جاتیں سکھ یاتری پاکستان سے الیکٹرونکس کا سامان لیکر جاتے،غرضیکہ بیساکھی کا میلہ جہاں ایک ثقافتی میلہ ہوتا وہاں تجارتی میلے کا روپ بھی دھار لیتا۔ 9/11کے بعدپاکستان میںبڑھتی ہوئی دہشت گردی کی فضا نے اس میلے کوبھی اپنی لپیٹ میںلے لیاہے اور اب سکھ یاتریوں کی آمد سخت حفاظتی پہر ے میں ہوتی ہے وہ گوردوارہ پنجہ صاحب کے اندر محصورہوکر رہ جاتے ہیں سیکورٹی کی وجہ سے پنجہ صاحب کے اردگرد کے بازارجوکبھی میلہ بیساکھی کی رونق ہواکرتے تھے، بند کر دئیے جاتے ہیں گوردوارے کی جانب آنے والے تمام راستوں پر پولیس کے پہرے بٹھا دیئے جاتے ہیں اس طرح سکھ یاتریوں کی سرگرمیاں انتہائی محدود ہو جاتی ہیں، بیرونِ ممالک سے آنے والے سکھ یاتریوں کیلئے گوردوارے کے اندر رہائش کاخاطر خواہ بندوبست کیاجاتا ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں محکمہ متروکہ وقف املاک نے سکھ یاتریوں کی سہولت کیلئے گوردوارے کے اندرکروڑوں روپے کی لاگت سے ایک عظیم الشان جدید طرز کا لنگر خانہ تعمیر کرایا ہے اسی طرح سکھوںکیلئے سینکڑوں کمروں پر مشتمل جدید ترین سہولتوں پر مشتمل رہائشی بلاک بھی بنوایا ہے اس کے علاوہ سکھ یاتری جب گوردوارہ پنجہ صاحب آتے تو بابا ولی قندھاری کی پہاڑی پر جانے کیلئے راستہ انتہائی دشوار گزار تھا،سابقہ چیئرمین سید آصف ہاشمی نے اس تکلیف کا ازالہ کرنے کیلئے لاکھوں روپے کی لاگت سے اس راستے کو پختہ بنا دیا ہے جس سے سکھ یاتریوں کے علاوہ مسلمان زائرین کو بھی سہولت میسر آگئی ہے۔گوردوارہ پنجہ صاحب حسن ابدا ل کے عین سامنے ایک قدیم پانی کا تالاب تھا جس میں مقامی دھوبی کپڑے دھویا کرتے تھے جس سے یہ پانی ہروقت گندگی اور غلاظت سے اٹا رہتا تھا راقم کی درخواست پراس وقت کے چیئرمین متروکہ وقف املاک سید آصف ہاشمی نے اس تالاب کو بہت خوبصورت شکل دیکر وہاں فوارہ نصب کر ا یا ۔
امسال بھی یہ میلہ11اپریل سے13اپریل تک جاری رہے گا ڈپٹی کمشنراٹک محمد نعیم سندھو کی ہدایات کی روشنی میں اسسٹنٹ کمشنر حسن ابدال اشتیاق خان نیازی کی زیر نگرانی مقامی انتظامیہ میلہ بیساکھی کے موقع پر گودوارہ پنجہ صاحب میں سکھ یاتریوں کی آمد پر تمام ضروری اقدامات کو یقینی بنانے میں مصروف عمل ہے اور اس سلسلہ میںایم سی عملہ صفائی ستھرائی کے تمام انتظامات کو حتمی شکل دئیے ہوئے ہے۔ علاوہ ازیں ڈی پی اواٹک رانا شعیب محمود کی ہدایت پر ایس ڈی پی او حسن ابدال سید اعجاز حسین شاہ اور ایس ایچ اوز پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ سکھ یاتریوں کی گوردوارہ پنجہ صاحب آمد پر سیکورٹی کے فول پروف انتظامات کو یقینی بنائے ہوئے ہیں۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔