گفتم نا گفتہ
جب تمام تر وسائل بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں صرف ہو جائیں تو پھر توجہ صرف دولت کے حصول پر ہوتی ہے۔ تمام علمی استعداد اور انسانی وصف اپنا منطقی وجود کھو دیتے ہیں۔ یہ علم کی ناقدری اور معاشرتی اقدار کی پستی کا دور ہوتا ہے۔ ایسے میں فنون لطیفہ، ادبی تخلیقات زوال پذیر ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ پیسہ بنانے کے ذرائع پر قابض ہو نے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس میں عوام کے بنیادی حقوق کو پائمال کیا جاتا ہے۔ ایک طبقہ امیر سے امیر تر ہوتا جاتا ہے اور ایک غریب سے غریب تر بن جاتا۔معاشرہ دولت مند کی قدر کرتا ہے۔ اور اس کے عیوب کو نظر انداز کر تا ہے۔ تو لوگوں کا رجحان صرف اور صرف پیسہ کمانے میں لگ جاتا ہے۔ دولت حاصل کرنے کے لیے چوری چکاری، دھوکہ دہی، ڈاکہ زنی اور قتل و غارت کی واردات عام ہو جاتی ہیں ۔ نوجوان علم و ادب سے عاری ہوتے ہیں۔ مہذب لوگ اپنی عزتیں بچانے کے لیے گوشہ نشین ہو جاتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ ذہنی پستی کا شکار ہوتے ہیں۔ مالی آسودگی حاصل کرنے کے لیے لوگ عصمتیں فروخت کرتے ہیں۔ نشہ آور اشیاء بیچتے ہیں۔ انسانی اجزاء کی فروخت جیسے نت نئے جرائم جنم لیتے ہیں۔ رفتہ رفتہ معاشرہ افراتفری اور تباہی کا شکار ہوجاتا ہے۔ ایسے میں جو کوئی بھی آواز اُٹھائے گا اس ناقدری پر احتجاج کرئے گا اور مفاد عامہ کے ان لُٹیروں کے سامنے مقابلہ کے لیے ڈٹ جائے گا۔ وہ باغی کہلائے گا۔ اس کو مجرم ٹھہرایا جائے گا اور پابند سلاسل ہوگا۔ جرائم پیشہ لوگ دندناتے پھریں گے۔ عنان اقتدار پر براجمان یا قابض افراد اختیارات کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کریں گے۔ چاپلوس لوگ مفادات حاصل کرنے کے لیے ظالموں کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کریں گے۔ رائے عامہ پائمال ہوگی۔
ایسے میں یہ صاحب اقتدار عدالتوں کو خریدتے ہیں۔ حفاظتی ادارے تحفظ دینے کی بجائے مقتدر لوگوں کی غلامی میں بے گناہ لوگوں کو اسیر کرتے ہیں۔ سراپاءِ احتجاج لوگوں کو مجرم بنا کر گرفتار کرتے ہیں۔ بلیک میلنگ اورعزتوں کو اُچھالنا شعار بن جاتا ہے۔ یہی وہ دور جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ “لوگ بیت المال کو مال غنیمت سمجھ کر استعمال کریں۔
ان حالات میں “نجات دھندہ” کا انتظار ہوتا ہے۔
Title Image by Yogendra Singh from Pixabay
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |