عظیم ادیب اور صحافی الطاف حسن قریشی
تحریر: علامہ عبدالستار عاصم
مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں محترم جناب الطاف حسن قریشی کے علمی و فکری دائرۂ کار کا ایک ادنیٰ طالبعلم ہوں۔ میرا ان کے ساتھ محبت، عقیدت اور احترام کا ایک ایسا تعلق ہے جو وقت کے ساتھ مزید گہرا اور مضبوط ہوتا چلا گیا۔ میں ان کی شخصیت اور تحریروں کا گرویدہ ہوں اور ان کے اندازِ فکر سے ہمیشہ روشنی پاتا رہا ہوں۔
مشہور کالم نگار جناب اوریا مقبول جان نے ایک مرتبہ لکھا تھا کہ انہوں نے الطاف حسن قریشی کو "مسیں بھیگنے کی عمر سے پڑھنا شروع کیا”، تو میں نہایت ادب کے ساتھ اس میں یہ اضافہ کرنا چاہوں گا کہ میں نے جناب قریشی صاحب کو تب سے پڑھنا شروع کیا جب "مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں”۔ ان کی تحریریں میرے فکری ارتقا کا ایک اہم حصہ رہیں اور مجھے ان سے بے شمار سیکھنے کا موقع ملا۔
الطاف حسن قریشی کی زندگی، ان کی جدوجہد، ان کی مستقل مزاجی اور ان کا عزمِ پیہم میرے لیے ہمیشہ ایک مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ نہ صرف ایک بے باک صحافی اور شاندار ادیب ہیں، بلکہ پاکستان کی فکری و نظریاتی سمت کو متعین کرنے والے ان چند نایاب شخصیات میں شامل ہیں جنہوں نے اپنے قلم کے ذریعے معاشرتی شعور بیدار کیا۔ یہ ان کی محبت، شفقت اور اعلیٰ ظرفی ہے کہ وہ مجھے اپنے پہلو میں جگہ دیتے ہیں اور مجھے اپنے دوستوں میں شمار کرتے ہیں۔ یہ میرے لیے ایک عظیم اعزاز ہے کہ ایسی قد آور علمی و فکری شخصیت کا قرب حاصل ہے۔ ان کے ساتھ گزرے لمحات میرے لیے قیمتی سرمایہ ہیں، اور ان کی صحبت سے میں ہمیشہ نئی روشنی اور نئی سمت پاتا ہوں۔
الطاف حسن قریشی صرف ایک نام نہیں بلکہ ایک عہد کا نام ہے، ایک ایسی دانش گاہ جہاں سے علم و شعور کے متلاشی روشنی پاتے ہیں
الطاف حسن قریشی پاکستان کا قیمتی علمی سرمایہ ہیں
قارئین کی یاد دہانی اور نئی نسل کی معلومات کے لیے میں یہ سطور تحریر کر رہا ہوں کہ محترم الطاف حسن قریشی پاکستان کے صحافتی اور فکری اثاثے کا ایک قیمتی حصہ ہیں۔ وہ 3 مارچ 1932 ءکو سرسہ، ضلع حصار میں پیدا ہوئے۔ اپنی علمی، فکری اور صحافتی خدمات کے باعث وہ ہمارے ملک کے ان چند روشن ستاروں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے ہمیشہ حق اور سچ کی آواز بلند کی۔
الطاف حسن قریشی ایک نامور صحافی، بلند پایہ ادیب اور پاکستان کے مقبول، منفرد اور ممتاز ڈائجسٹ "اردو ڈائجسٹ” کے مدیرِ اعلیٰ ہیں۔ "اردو ڈائجسٹ” کا اجراء نومبر 1960 میں ہوا، اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا۔ آج بھی یہ جریدہ اپنی آب و تاب کے ساتھ فکری اور علمی پیاس بجھا رہا ہے، اور معاشرتی شعور اجاگر کرنے میں نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔ جناب الطاف حسن قریشی کی صحافتی خدمات پاکستان کی تاریخ میں ان مٹ نقوش چھوڑ چکی ہیں۔ وہ صرف ایک مدیر نہیں بلکہ ایک فکری رہنما بھی ہیں، جن کی تحریروں نے نسلوں کو شعور، نظریاتی بیداری اور حب الوطنی کا پیغام دیا۔ ان کے قلم کی سچائی اور جرات نے ہمیشہ حقائق کو اجاگر کیا اور قوم کو درپیش چیلنجز سے روشناس کرایا۔ محترم الطاف حسن قریشی کا نام پاکستان کی صحافتی، فکری اور علمی دنیا میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ قلم و قرطاس کے ساتھ ان کی وابستگی نصف صدی سے بھی زائد عرصے پر محیط ہے، اور ان کی تحریریں ہمیشہ سچائی، حب الوطنی اور نظریاتی استقامت کا مظہر رہی ہیں۔
ان کی علمی و ادبی خدمات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب تک ان کی کئی معرکۃ الآرا کتب شائع ہو چکی ہیں، جن میں ملاقاتیں، جنگِ ستمبر کی یادیں،
مقابل ہے آئینہ،
چھ نکات کی سچی تصویر،
قافلے دل کے چلے
نوک زبان پر اور
میں نے آئین بنتے دیکھا اور مشرقی پاکستان ٹوٹا ہوا تارا شامل ہیں۔ یہ تمام تصانیف پاکستان کی تاریخ، قومی مسائل، نظریاتی بیداری اور اہم سیاسی و سماجی موضوعات پر ایک مستند حوالہ ہیں۔ ان کی تحریروں میں نہ صرف پاکستان سے بے پناہ محبت نمایاں نظر آتی ہے بلکہ اسلام سے ان کی فکری و نظریاتی وابستگی بھی واضح طور پر جھلکتی ہے۔
یہ خاکسار اور اس کا ادارہ القلم فاؤنڈیشن اس سعادت پر فخر محسوس کرتا ہے کہ اسے محترم الطاف حسن قریشی کی چند کتب شائع کرنے کا اعزاز حاصل ہوا، جن میں "مشرقی پاکستان ٹوٹا ہوا تارا” ، "قافلے دل کے چلے” اور "میں نے آئین بنتے دیکھا” شامل ہیں۔ الحمدللہ، مزید کتب بھی زیرِ اشاعت ہیں، اور انشاءاللہ ہم ان کی فکری وراثت کو مزید آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔ میری بساط ہی کیا کہ میں محترم الطاف حسن قریشی جیسے عظیم صحافی، مفکر اور ادیب کے فن و شخصیت پر لب کشائی کر سکوں۔ ایسی نابغۂ روزگار ہستی کے بارے میں پاکستان کی نامور شخصیات ہمیشہ رطب اللسان رہی ہیں اور ان کے کارناموں کو خراجِ تحسین پیش کرتی رہی ہیں۔ ان کی صحافت، تحریریں اور فکری جہدِ مسلسل ایک عہد کی نمائندگی کرتی ہیں۔
عہد ساز صحافی مجیب الرحمٰن شامی نے جناب الطاف حسن قریشی کی کتاب "قافلے دل کے چلے” کے بارے میں نہایت خوبصورت الفاظ میں لکھا ہے: "جناب الطاف حسن قریشی کو بار بار حج اور عمرے کی سعادت حاصل کرنے کا موقع ملا۔ حرمین شریفین کا پہلا سفر 1967 میں کیا، اس کے بعد روز پھر دل کا قافلہ چلتا گیا۔شاہ فیصل سے ملاقات کا موقع بھی ملا اور سعودی عرب کے ان گوشوں میں جھانکنے کا موقع بھی ملا جہاں آنکھیں کم کم ہی پہنچتی ہیں۔ اپنے روحانی تجربات اور حیرت انگیز مشاہدوں کو اس طرح قلم بند کیا ہے کہ اہلِ دل آج بھی ان کا مطالعہ کرتے اور جھوم جھوم جاتے ہیں "۔ یہ الفاظ نہ صرف الطاف حسن قریشی کی علمی اور صحافتی عظمت کے عکاس ہیں بلکہ ان کے باطنی سفر، روحانی تجربات اور گہرے مشاہدات کی گواہی بھی دیتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں جہاں پاکستان اور اسلام کی نظریاتی وابستگی کا عکس جھلکتا ہے، وہیں ان کی قلبی کیفیات اور روحانی واردات بھی محسوس کی جا سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے چاہنے والے، ان کے قارئین، اور ان کے ہم عصری صحافی انہیں ہمیشہ ایک استاد اور ایک رہنما کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کی تحریریں نئی نسل کے لیے بھی مشعلِ راہ ہیں اور رہیں گی۔
محترم الطاف حسن قریشی کی شہرہ آفاق کتاب "مشرقی پاکستان: ٹوٹا ہوا تارا” محض ایک کتاب نہیں بلکہ ایک عہد کی دستاویز ہے، ایک ایسا تاریخی حوالہ جس میں پاکستان کی ایک بڑی قومی سانحے کی تفصیلات پوری سچائی کے ساتھ رقم کی گئی ہیں۔
میں نے اس کتاب کے بارے میں لکھا تھا:
"پون صدی پر محیط یہ داستان ایک چشم کشادہ، محوجستجو صحافی لکھتا رہا، جسے مشرقی پاکستان بار بار جانے، ہفتوں قیام کرنے، قریہ قریہ عوام کا حالِ دل سننے اور اہم واقعات کو قریب سے دیکھنے کے نادر مواقع ملے۔ تحقیق و جستجو کے اس کھٹن سفر میں عصبیتوں کے مارے سیاسی لیڈروں، اقتدار کے حریص جرنیلوں کی اندرونی کہانیوں اور بھارتی حکمرانوں کی خوفناک سازشوں کے ان گنت پہلو سامنے آئے۔ خفیہ ٹھکانوں تک پہنچنا پڑا، خانہ جنگی کے حالات پیدا کرنے والوں سے بھی ملاقات کرنا پڑی۔ بہت سارے چہرے اور بڑے اہم راز بھی منکشف ہوئے۔ انہی اندھیروں میں ان عظیم بنگالیوں اور غیر بنگالیوں کے لازوال کارنامے جگمگاتے ہیں جو چاروں طرف سے مصیبتوں میں گھری ہوئی فوج کے شانہ بشانہ وطن کی سالمیت پر نثار ہو گئے۔ تلخ حقیقتوں کو کبھی چھپے اور کبھی کھلے انداز میں لکھ دینے پر مارشل لاء حکام کی دھمکیاں جاں خشک کرتی رہیں اور سقوطِ ڈھاکہ کے بعد سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے زنداں میں وقفے وقفے سے قید کاٹنا پڑی۔”
یہ کتاب پاکستان کی تاریخ میں ایک روشن مینار کی حیثیت رکھتی ہے جو ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ مشرقی پاکستان کے سانحے کے پسِ پردہ کیا عوامل کارفرما تھے، کن طاقتوں نے اس المیے کو جنم دیا، اور کیسے ایک منظم سازش کے ذریعے پاکستان کو دولخت کیا گیا۔ الطاف حسن قریشی نے نہایت باریک بینی سے ان تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے، جو عام طور پر تاریخ کے اوراق میں دھندلا دیے جاتے ہیں۔
یہ کتاب محض ماضی کی کہانی نہیں، بلکہ ایک سبق بھی ہے، جو ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ غلطیوں سے سبق نہ سیکھنے والی قومیں تاریخ میں بار بار نقصان اٹھاتی ہیں۔ الطاف حسن قریشی کی یہ تصنیف آج بھی نئی نسل کے لیے ایک رہنما کی حیثیت رکھتی ہے، جو حقائق سے پردہ اٹھا کر ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔
یہ اللہ کا خاص کرم ہے کہ ہمیں الطاف حسن قریشی جیسے بے باک صحافی اور سچائی کے متلاشی مصنف کی رہنمائی حاصل ہے، جنہوں نے ہمیشہ تاریخ کو اس کی اصل حقیقت کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی۔
۔ ان کی کتاب "میں نے آئین بنتے دیکھا” حال ہی میں شائع ہو چکی ہے، جس میں انہوں نے پاکستان کے آئینی ارتقا، اس میں شامل شخصیات، اور پس پردہ عوامل پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ یہ کتاب تاریخ، سیاست، اور قانون میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ایک بیش قیمت دستاویز ثابت ہو رہی ہے۔
اس کے ساتھ ہی، الطاف حسین قریشی نے اپنی زندگی میں مختلف اہم شخصیات کے انٹرویوز کیے، جن میں سیاست، ادب، صحافت، اور دیگر شعبوں کی نامور شخصیات شامل ہیں۔ ان نایاب انٹرویوز کو پانچ جلدوں ،تابش نمو،داش گفتگو،آتش آرزو اور کاوش جستجومیں شائع کیا جا رہا ہے، اور اس سلسلے کی پہلی کتاب "دانش گفتگو” اشاعت کے آخری مراحل میں ہے۔ اس کتاب میں قارئین کو وہ علمی، فکری، اور تاریخی مواد ملے گا، جو نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سیاست اور سماجی منظرنامے کو سمجھنے میں مدد دے گا۔ یہ سلسلہ پاکستان کے فکری، سیاسی، اور ادبی پس منظر کو محفوظ کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے، جو نئی نسل کے لیے تحقیق اور مطالعے کا ایک نایاب خزانہ ثابت ہو گا۔ اس کا سب ٹائٹل "اہم شخصیات کے جیتے جاگتے انٹرویوز”کے عنوان سے یے۔جس کی ترتیب و تدوین عزیزم ایقان حسن قریشی نے کی ہے۔ ان انٹرویوز کو مختلف ادوار میں تقسیم کر دیا گیا ہے تابش گفتگو میں 1961 تا 1964 اور دانش گفتگو میں 1964 را 1970 کے انٹرویوز شامل ہیں۔یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ محترم الطاف حسن قریشی صاحب کو صحت و تندرستی کے ساتھ طویل عمر عطا فرمائے، ان کے قلم کو مزید برکت دے اور انہیں دین، ملک اور قوم کی خدمت کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق بخشے۔ اللہ تعالیٰ ان کی کاوشوں کو شرفِ قبولیت عطا کرے اور ان کی علمی و فکری میراث کو ہمیشہ زندہ و تابندہ رکھے۔
ہم دعا گو ہیں کہ اللہ رب العزت انہیں اپنی رحمتوں اور برکتوں کے سائے میں رکھے، ان کی محنتوں کو اجرِ عظیم سے نوازے اور ہمیں بھی ان کے علمی، فکری اور نظریاتی سرمائے سے فیض یاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |