حکومتی تبد یلیاں اور بیوروکریسی

شاہد اعوان

عموماٌ مشاہدے میں آیا ہے کہ جونہی حکومت تبدیل ہوتی ہے تو بیوروکریسی کی اکھاڑ پچھاڑ کا عمل بھی ساتھ ہی شروع ہو جا تا ہے اور انتظامی افسران کو بھی فکر دامن گیر ہو جاتی ہے کہ جانے نئے حکمران انہیں کہاں پھینک دیں۔ میرے مرحوم شاعر دوست رؤف امیرؔ کے بقول:
جانے کس شہر کا پانی ہے مری قسمت میں
انگریز نے بیوروکریسی کی تعیناتی کا عرصہ اسی لئے تین سال رکھا تھا کہ وہ عوامی سطح سے لے کر انتظامی امور کے اسرارو رموز کو بخوبی نبھا سکیں۔ بیوروکریسی کو اکیڈمی میں جو تربیت دی جاتی ہے اس میں کسی مخصوص سیاسی جماعت یا گروپ کے بجائے عوام الناس کو ترجیح دی جاتی ہے اور رعایا کی بھلائی ہی ان کا مطمع نظر ہوتی ہے، بلاشبہ اچھے اور اللہ سے ڈرنے والے افسران کا نصیب العین یہی ہو تا ہے۔ چند ماہ قبل پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت آئی تو صوبہ بھر میں انتظامی افسران کے تبادلوں کا ایسا جھکڑ چلا کہ آندھی سب کچھ اڑا کر لے گئی۔ ابھی افسران نئی جگہ پر ٹھیک سے سانس بھی لینے نہ پائے تھے کہ پنجاب کا اقتدار ایک بار پھر مسلم لیگ ق اور تحریک انصاف کو مل گیا۔ کام کرنے والے افسران کی پہلی ترجیح اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے ساتھ ساتھ ابھی علاقہ مکینوں سے ٹھیک سے تعارف بھی نہیں ہو تا کہ”تبدیلی“ آ جاتی ہے۔ یہ عمل ناصرف ان کے لئے انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے بلکہ علاقے کے لوگ بھی اچھے اور کام کرنے والے مخلص افسران سے محروم ہو جاتے ہیں۔ انتظامی افسران بھی آخر اسی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں ان کا خاندان اور فیملی تبدیلی کے اس ”جھکڑ“ سے بری طرح ڈسٹرب ہو جاتے ہیں کہ ابھی بچوں کا داخلہ کرایا اور تبادلے کے احکامات آ گئے جس سے ناصرف بچوں کی تعلیم متاثر ہوتی ہے بلکہ افسران گھریلو ٹینشن کے باعث ٹھیک سے کام بھی نہیں کر سکتے۔ حکومتوں کو چاہئے کہ وہ بیوروکریسی کو اپنا دشمن نہ سمجھیں بلکہ اس کے برعکس سیاسی شخصیات کا بہتر رویہ اور حسن سلوک افسران کو اپنا گروید بنا سکتا ہے یقینا تبادلوں سے بیوروکریسی پر اچھے اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ اگر ہم اپنے ضلع کی بات کریں تو اٹک میں حال ہی میں چارج سنبھالنے والے ڈپٹی کمشنر محمد ذوالقرنین، اے ڈی سی آر ڈاکٹر وقار علی خان، اسسٹنٹ کمشنر حسن ابدال فضائل مدثر، اسسٹنٹ کمشنر جنڈعدنان انجم راجہ، ڈی پی او اٹک عمر سلامت، ای ڈی او ایجوکیشن ملک فتح خان، سی پی او راولپنڈی شہزاد ندیم بخاری، آر پی او عمران احمر اور دیگر حالیہ حکومتی تبدیلی کا نتیجہ ہیں۔ مذکورہ افسران ناصرف انتظامی امور میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں بلکہ ان کی اکثریت کا تعلق خالص افسران کی اس قومیت سے ہے جو صرف اور صرف پاکستانی ہیں اور اللہ کے سامنے خودکو جوابدہ سمجھتے ہیں اور ان پر کسی سیاسی پارٹی کی چھاپ بھی نہیں۔ جس کی روشن مثال میری سکونتی تحصیل حسن ابدال میں نوتعینات نوجوان اور پرعزم اسسٹنٹ کمشنر حسن ابدال فضائل مدثر کی ہے جنہوں نے چند دنوں میں تحصیل میں جس جرأت اور بہادری سے عوامی مسائل کو حل کرنے کی کوششیں کی ہیں وہ لائق صد تحسین ہیں۔ اے سی فضائل مدثر ایک خاموش فلاح کار کی طرح اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروفِ عمل ہیں انہوں نے مسلسل 18گھنٹے کام کر کے ماتحت عملے کی نیندیں بھی اڑا دیں ہیں، چندروز میں نوتعینات اے سی نے تحصیل بھر کے ہنگامی دورے کر کے مکینوں کے زیر التوا مسائل حل کر دئیے ہیں یہاں تک کہ عید الاضحی کے موقع پر سرکاری تعطیلات کے باوجود پنجہ صاحب کے مقام پر سیلابی صورتحال سے نبٹنے کے لئے سرگرم عمل رہے جبکہ شہریوں کو خود ساختہ مہنگائی سے نجات دلانے کے لئے گراں فروشوں کے خلاف پرچوں اور جرمانوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ چند روز قبل تحصیل حسن ابدال کے گاؤں شاہیا سے شکایت موصول ہوئی کہ گاؤں کے ایک بااثر شخص نے بنیادی مرکز صحت کے سامنے روڈ پر دیوار بنا کر مرکز صحت کا راستہ بند کر دیا ہے جس پر اسسٹنٹ کمشنر فضائل مدثر نے فوری ایکشن لیتے ہوئے پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ موقع پر پہنچ کر تجاوزات گرا دیں اس طرح انہوں نے حسن ابدال کے قبضہ مافیا کو واضح پیغام دیا ہے جو سرکاری قبرستان کی زمینوں پر ناجائز قابض ہیں اور ان جگہوں پر ذاتی کوٹھیاں اور ڈیرے بنا رکھے ہیں اب وہ اپنی خیر منائیں کہ موجودہ اے سی ایسی زمینوں کو قبضہ مافیا کے چنگل سے واگزار کرانے کے لئے عملی طور پر پیش قدمی کر چکے ہیں۔ اے سی حسن ابدال شہر میں صاف پانی کی فراہمی میں شہریوں کو درپیش مشکلات کے لئے مزید تین فلٹریشن پلانٹ لگانے کے لئے تگ ودو کر رہے ہیں جبکہ تحصیل کے بڑے گاؤں برہان میں فلٹریشن پلانٹ کی تنصیب بھی اس منصوبے کا حصہ ہے۔ اے سی فضائل مدثر اس ضمن میں فلاحی تنظیموں کے ساتھ مسلسل رابطے قائم کر کے شہر کی بہتری اور ترقی کے لئے مثبت اقدامات اٹھانے کا عزم رکھتے ہیں اور اپنے پیش رو اے سی عدنان انجم راجہ کی طرح سائلین کے لئے ان کے دفتر کے دروازے ہر وقت کھلے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ کسی شہری کو ان تک پہنچنے اور اپنا مسئلہ بیان کرنے میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرناپڑے۔ عوامی حلقوں کی جانب سے اے سی حسن ابدال کے مفاد عامہ میں اٹھائے جانے والے حالیہ اقدامات پر انہیں زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے اور شہریوں کی جانب سے انہیں بھرپور تعاون کا یقین دلایا ہے۔
ان سطور کے ذریعے موجودہ پنجاب حکومت اور خاص طور پر وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی سے گزارش ہے کہ وہ بیوروکریسی کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں رہے ہیں اور شریف خاندان کے بعد چوہدری برادران کے بیوروکریسی کے ساتھ بہترین ہم آہنگی سمجھی جاتی ہے اس لئے وہ اچھی شہرت کے حامل افسران کے ساتھ انسانی ہمدردی کے تحت وہ سلوک روا رکھیں جو بادشاہ بادشاہوں کے ساتھ رکھتے ہیں۔

Shahid-Bla-Ta-Amul

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

رثائی ادب اور مقبول ذکی مقبول

اتوار جولائی 31 , 2022
اردو مرثیے کے مہرو ماہ انیس و دبیر کو یہ افتخار حاصل ہے کہ کسی نے ان کی طرح عروس سخن کو نہیں سنوارا۔
رثائی ادب اور مقبول ذکی مقبول

مزید دلچسپ تحریریں