اچھی ہمسائیگی
یہ پروگرام دبئی ‘تاج ہوٹل’ بزنس بے میں تھا۔ اس پروگرام کو ‘انٹرنیشنل ہندی ڈے’ کا نام دیا گیا تھا جس کا اہتمام ہندی زبان کی اشاعت و فروغ کی خاطر انڈین کونسلیٹ دبئی نے کیا تھا۔ شائد میں یہ پروگرام اٹینڈ کرنے نہ جاتا مگر ہمارے دوست و مربی اردو کے اماراتی شاعر ڈاکٹر محمد زبیر فاروق العرشی صاحب نے دعوت نامہ بھیجتے ہوئے حکم دیا کہ میں ہر حال میں اس پروگرام میں شرکت کروں۔ ہم پاکستانی اور انڈین لاشعوری طور پر خود کو ایک دوسرے کا دشمن سمجھتے ہیں۔ لیکن امارات میں 14سال کے عرصے سے رہتے ہوئے میں نے کبھی انڈین اور پاکستانیوں کو آپس میں جھگڑا کرتے دیکھا ہے اور نہ ہی انہیں دل میں ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہوئے محسوس کیا ہے۔ اس پروگرام میں شامل ہو کر بہت اچھا لگا۔ میں وقت مقررہ پر شام 6بجے پہنچ گیا۔ حال میں جا کر دیکھا تو ابھی صرف اکا دکا مہمان آئے تھے۔ میں نے موقعہ کو غنیمت جان کر اپنا ایک موبائل استقبالیہ پر چارجنگ پر لگا دیا اور دوسرا موبائل پکڑ کر لابی میں بیٹھ گیا۔
اگرچہ یہ پورا پروگرام شروع سے لے کر آخر تک ہندی زبان کی اہمیت و تاریخ اور ترویج ہی کے گرد گھومتا رہا مگر دلچسپ بات یہ ہے پروگرام شروع ہونے کے بعد جتنے بھی مقررین سٹیج پر آئے تقریبا ہر ایک نے اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا آغاز اردو زبان سے کیا۔ سب سے پہلے انڈین قومی ترانہ بجایا گیا۔ انڈین ترانہ میں نے پہلی بار کھڑے ہو کر سنا۔ یہ ترانہ ہندی زبان میں تھا جس میں پنجاب، سندھ اور گجرات کے نام بھی آئے۔ کچھ عرصہ پہلے ہندوستان کی سپریم کورٹ نے ملک کے قومی ترانے ‘جن گن من ادھینایک جے ہے’ سے لفظ ‘سندھ’ خارج کرنے کی ایک درخواست مسترد کر دی تھی۔ عرضی گزار نے کہا تھا کہ قومی ترانے میں ملک کے بعض علاقوں کا ذکر ہے اور اس میں سندھ بھی شامل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ سندھ اب ایک دوسرے ملک پاکستان کا صوبہ ہے اس لئے اسے ہندوستان کے قومی ترانے سے خارج کیا جانا چاہئے۔ لیکن عدالت نے کہا تھا کہ قومی ترانے کو اختیار کرنے والی قانون ساز اسمبلی نے ایک قراردار منظور کی تھی جس کے تحت قومی ترانے میں کسی تبدیلی کا اختیار صرف پارلیمان کو دیا گیا ہے۔ بھارت کی عدلیہ ہو یا پارلیمان شائد ان کے دل میں انڈیا کے قومی ترانے میں موجود لفظ ‘سندھ’ ہندوستانی سرکار کو "اکھنڈ” بھارت کی توسیع پسندی کی یاد دلاتا ہے جسے وہ تبدیل کرنے کی غلطی نہیں کرنا چاہتے ہیں۔
اتفاق ایسا ہوا کہ پروگرام کے استقبالیہ خطبہ میں مسٹر سریش کمار نے اپنا آدھا خطاب اردو زبان میں کیا اور اس میں علامہ اقبال کا نام لیئے بغیر ان کے لکھے ہوئے ‘ترانہ ہندی’ کا ایک مصرعہ پڑھا: ‘سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا’۔ انڈیا سے آئے خصوصی مہمان سادھو اکشار پریماداس کو سٹیج پر بلانے سے پہلے سٹیج کے پچھلی اور بائیں جانب لگی سینما سکرین پر دو سادھووں کی ایک مختصر فلم چلائی گئی جس میں وہ ایک کرین میں بیٹھ کر بلندی سے ایک زیر تعمیر بلڈنگ کے مزدوروں پر پھولوں کی پتیاں پھینک رہے تھے۔ اس کے فورا بعد مجلس ھذا کے چیف گیسٹ اور دبئی میں انڈیا کے کونسل جنرل شری ستیش ساؤن نے ہندوستان کے پردھان منتری نریندر مودی کا خصوصی پیغام پڑھ کر سنایا۔ جب سادھو جی تقریر کرنے آئے تو انہوں نے سب سے پہلے یہ مصرعہ پڑھا: ‘چھوڑو پرانی کہانی مل کر لکھتے ہیں نئی کہانی’۔ سوامی سادھو نے ترانہ ہندی کا پہلا مصرعہ بھی دہرایا جس کے بعد انہوں اپنے خطاب میں یہ شعر بھی پڑھا: ‘کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری، صدیوں رہا ہے دشمن دور زماں ہمارا’۔
سادھو سوامی اپنے ایک اور ساتھی کے ساتھ حال میں آئے تھے۔ ان دونوں نے خصوصی قسم کا مالٹا رنگ کا دھوتی نما لباس پہنا ہوا تھا۔ فائیو سٹار تاج ہوٹلز، ریسارٹس اور پیلسز کے مالکان ٹاٹا گروپ آف کمپنیز IHCL والے ہیں۔ یہ کافی ہائی فائی پروگرام تھا۔ سادھو ہندوستان میں ہندو مذہب کے پاسبان تصور کیئے جاتے ہیں۔ سادھو جی نے اپنی تقریر میں کہا کہ ‘سادھو’ تین سال کی خصوصی مذہبی ریاضت اور تربیت کے بعد بنتا ہے۔ انہوں نے 1857 کی جنگ آزادی کا بھی ذکر کیا۔ ان کی اس پروگرام میں جتنی عزت افزائی کی گئی وہ حیران کن تھی۔ پاکستانی علماء کو بھی بہت پروٹوکول ملتا ہے مگر جب یہ سادھو حال میں آئے تو پورا حال کھڑا ہو گیا۔
میرے فرنٹ دائیں طرف ایک ہندوستانی بیٹھے تھے اور بائیں جانب ڈاکٹر نیلم گویئل بیٹھی تھیں۔ جب سٹیج پر ڈاکٹر صاحبہ کا تعارف پروفیسر اور مشہور لیکھت کے طور پر کرایا گیا اور وہ کھڑی ہوئیں تو میری توجہ ان کی طرف مڑ گئی۔ میں نے موقع پا کر ان کے ساتھ محو گفتگو ایک صاحب کی طرف کلر نوٹ کھول کر اپنا موبائل پکڑایا تو انہوں نے اس پر اپنا نام اور نمبر لکھ دیا۔ ان کا نام وپرا گوئیل تھا شائد یہ ڈاکٹر صاحبہ کے دوست عزیز یا جیون ساتھی تھے۔ جونہی انہوں نے موبائل مجھے واپس کیا تو ڈاکٹر صاحبہ نے پیچھے مڑ کر مجھے غور سے دیکھا۔ میں اس پروگرام میں واحد پاکستانی تھا۔ لھذا میں سوچنے لگا کہ شائد وہ سوچ رہی ہوں گی کہ "نواں ای لگنا ایں سوہنیا”۔ لیکن تھوڑی ہی دیر بعد ڈاکٹر صاحبہ نے اپنا وزٹنگ کارڈ نکال کر ایک مسکراہٹ کے ساتھ میرے سامنے رکھ دیا۔ میری بائیں طرف بھی دو انڈین بیٹھے تھے۔ ‘خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے’۔ انہوں نے بھی ہمت کی، محمد رفیع نے اپنا کارڈ دیا اور کے چندرا (نام غلط ہوا تو گستاخی معاف) نے کاغذ پر پنسل سے لکھ کر اپنا موبل نمبر پکڑایا۔
پروگرام کے آغاز میں تعارفی خطاب پروگرام کے کنوینر ڈاکٹر صاحتیا چترویدی نے کیا تھا مگر کالم میں پہلے ان کے نام اور کام کے بارے ذکر اس لیئے نہ کر سکا کہ ان کا نام بہت مشکل تھا اور یاد کرنے میں بہت وقت لگ گیا۔
یہ پروگرام کی تقریبا آدھی کہانی کا احوال تھا باقی ماندہ آدھی کہانی جس ہستی نے اپنے نام کی ان کا نام ڈاکٹر زبیر فاروق العرشی ہے جو اردو زبان کے اماراتی شاعر ہیں جنہوں نے اردو شاعری کی 103 کتابیں لکھی ہیں۔ انہوں نے کراچی سے میڈیکل یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی اور وہیں سے انہوں نے اردو شاعری کا آغاز کیا۔ 1913 میں حکومت پاکستان نے انہیں تمغہ امتیاز پیش کیا جو انہوں نے صدر آصف علی زرداری سے وصول کیا تھا۔ چونکہ انہوں نے کم و بیش درجن بھر ہندو شاعری کی کتابیں بھی لکھی ہیں۔ لھذا وہ پاکستان اور ہندوستان دونوں ملکوں میں برابر شہرت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر زبیر فاروق صاحب نے اپنا کلام پڑھ کر اور گا کر سنایا۔ انہوں نے جتنی دیر تقریر کی یا اپنا کلام پڑھا اتنی دیر پورا حال داد و تحسین اور تالیوں کی گونج سے جھولتا رہا۔
پروگرام کے آخری حصے میں موسیقی اور سلو ڈانس بھی ہوا اور ساتھ ہی ڈنر بھی چلنا شروع ہو گیا۔ یہ صرف تین گھنٹے کا پروگرام تھا۔ لیکن جن چند ہندوستانیوں سے بات ہوئی ایسا لگا ہم ایک دوسرے کو سنہ 1858ء سے جانتے ہیں۔ سنہ 80 کی دہائی میں پاکستان اور انڈیا میں ادبی وفود کا تبادلہ ہوتا رہا جنہوں نے دونوں طرف سے دوستی اور اچھی ہمسائیگی کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ ہم متحدہ ہندوستان میں ہزاروں سال اکٹھے رہتے رہے ہیں ہمیں آج پرامن اور ایک دوسرے سے محبت کرنے والے ہمسایوں کی طرح رہنے کی ضرورت ہے اسی میں دونوں ملکوں کی بقا اور سلامتی کا راز پوشیدہ ہے۔
Title Image by PublicDomainArchive from Pixabay
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔