مدد کرتے جاو
کہانی کار: سید حبدار قائم
چنوں منوں دو دوست تھے چنوں امیر گھرانے سے تعلق رکھتا تھا جب کہ منوں بہت غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا لیکن دونوں کی دوستی پورے سکول میں بہت مشہور تھی دونوں ایک ہی سکول میں پڑھتے تھے چنوں جب سکول جاتا تو منوں کو ساتھ لے کر جاتا
ایک دن چنوں جب سکول جانے کے لیے اس کے گھر گیا تو منوں کو ماں کہہ رہی تھی کہ بیٹا آج تمہیں ناشتہ نہیں دے سکتی گھر میں آٹا نہیں ہے تو منوں نے کہا کہ کوئی بات نہیں ہے وہ شام کو واپس گھر میں آ کر روٹی کھا لے گا ساری باتیں سن کر چنوں کو اپنے پیارے دوست کا درد بہت محسوس ہوا اس نے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا کہ آج وہ اپنا سارا کھانا منوں کو دے دے گا
چناں چہ اس نے منوں کے دروازے پر دستک دی تو منوں سکول کے لیے تیار بیٹھا تھا وہ دروازے پر آیا تو اپنا بستہ ساتھ لے کر آیا یوں دونوں دوست سکول کی طرف چل دیے
سکول میں جا کر دونوں دوست اپنے کمرہ ء جماعت میں چلے گۓ چنوں کو بار بار اپنے دوست کی بھوک کا خیال آ رہا تھا جوں ہی تفریح کی گھنٹی بجی تو دونوں دوست کمرہ ء جماعت سے تیزی سے نکلے اور جہاں بنچ پر روز بیٹھتے تھے وہاں جا کر بیٹھ گۓ چنوں نے اپنا کھانے وال ڈبہ کھولا اور منوں کو کھانے کے لیے پیشکش کی منوں کے پاس آج کھانا نہیں تھا اس لیے چنوں کی طرف پیار سے دیکھا اور کہا کہ بھوک نہیں ہے لیکن چنوں منوں کی خود داری جانتا تھا اس لیے اس نے زبردستی چنوں کے ہاتھ میں روٹی تھماتے ہوۓ کہا کہ اُسے بھی بھوک نہیں ہے اس لیے یہ کھانا منوں ماس کے ساتھ کھا لے یا گھر ساتھ لے جاۓ چنوں کے بار بار اسرار پر منوں نے وہاں ہی کھانا کھا کر بھوک مٹائی
کھانے کھانے کے بعد منوں نے چنوں کا شکریہ ادا کیا اور گھنٹی بجنے کے بعد دونوں دوست اپنی کلاسز میں چلے گۓ
سکول سے چھٹی ہوئی تو چنوں نے یہ سارا واقعہ اپنے امی ابو کو سنایا تو انہوں نے کہا
کہ انسان پر غریبی میں مختلف پریشانیاں آتی رہتی ہیں، کبھی بیماری کی صورت میں تو کبھی قرض کی صورت میں ،کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دورانِ سفر گاڑی یا بازار میں پرس گم ہو جاتا ہے اور پاس رقم نہیں ہوتی ایسی صورت میں اگر ہم کسی انسان کی پریشانی دُور کرسکتے ہوں تو ہمیں اُس کی پریشانی دُور کرکے اجر و ثواب کا حقدار بننا چاہیے ہمارے پیارے آقا حضرت مصطفٰی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ ذیشان ہے
”جوکسی مسلمان کی پریشانی دور کرے گا اللہ تعالٰی قیامت کی پریشانیوں میں سے اس کی ایک پریشانی دور فرمائے گا“
چوں کہ چنوں کے ابو شہر میں بڑے افسر تھے ان کے پاس بہت دولت تھی اس لیے وہ شہر میں گۓ اور کھانے کی بہت ساری چیزیں منوں کے لیے لے کر آ گۓ
چنوں کو ساتھ لے کر منوں کے گھر گۓ اور ساری چیزیں منوں کے گھر کے دروازے پر چھوڑ کر واپس آ گۓ منوں جب کھیلنے کے لیے گھر سے باہر نکلا تو کھانے کی اتنی ساری چیزیں دیکھ کر حیران رہ گیا اس نے امی کو بتایا دونوں مل کر کھانے پینے کی چیزیں گھر کے اندر لے گۓ اور خدا کا شکر ادا کیا
ادھر چنوں کا دل بہت خوش تھا کہ اُس نے دوست کی مدد کی ہے پھر یہ سلسلہ چل نکلا جب بھی منوں کے گھر میں تنگی آ جاتی چنوں خاموشی سے منوں کی اسی طرح مدد کر دیتا
اللہ پاک کو دونوں کی دوستی میں چنوں کی خاموشی سے مدد کرنے کی ادا پسند آ گئی وقت تیزی سے گزرتا رہا چنوں کی تعلیم مکمل ہو گئی منوں نے بھی تعلیم حاصل کر کے نوکری کر لی
چنوں چوں کہ چُھپ چُھپ کر دوست کی مدد کرتا تھا اس لیے اللہ پاک نے اسے بہت عزت دی اور ملک میں ہر طرف اس کی شہرت ہو گئی وہ مدد کر کے فیس بک پر فوٹو لگا کر غریبوں کی تذلیل نہیں کرتا تھا
پیارے بچو!
غریبوں کی چُھپ چُھپ کر مدد کرنے سے اللہ پاک خوش ہوتا ہے اور ایسا کرنے والے کو بہت عزت اور دولت دیتا ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم بھی غریب لوگوں کی مدد کریں اور اس کی تشہیر نہ کریں ایسا کرنے سے اللہ پاک خوش ہوتا ہے اور بندے کو بہت زیادہ عزتیں عطا فرماتا ہے
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔