پروفیسر ڈاکٹر محمد اشرف کمال کی غزل گوئی
تحریر : مقبول ذکی مقبول ، بھکر
پروفیسر ڈاکٹر محمد اشرف کمال ، منڈی ٹاؤن بھکر شہر کے رہائشی ہیں ۔ غزل کو غزل کہنے کا جوہر اِن کے اندر فطری طور پر پایا جاتا ہے ۔ غزل کی روح قاری کی روح تک کو سیراب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ بھکر کی پیاسی تھل دھرتی کے سپوت نے انٹرنیشنل شہرت حاصل کی ہے ۔ ان کی پہلی غزل نے ہی شہرت کی طرف سفر کیا امریکہ سے معروف شاعر اور گلوکار اشرف گل نے جس کی کمپوزیشن بھی کی اور اسے گایا بھی ۔ اسی غزل سے ایک شعر جو زبان زدِ عام ہے ۔
ملاحظہ فرمائیں ۔
ڈھونڈتے ہو وفا زمانے میں
تم بھی اشرف کمال کرتے ہو
55 کتب کے مصنف ہیں ۔ جو مختلف موضوعات پر لکھی گئی ہیں ۔ جو غزل کے حوالے سے مجموعے ہیں ان کے نام کچھ اس طرح سے ہیں ۔
٫٫ پھول راستے ،، 1992ء
٫٫ دھوپ کا شہر ،، 1995ء
٫٫ تجھے دیکھا ہے جب سے ،، 2007ء
٫٫ کوئی تیرے جیسا نہیں ،، 2010ء
٫٫ خوابوں سے بھری آنکھیں ،، 2012ء
٫٫ طاقچہ ،، 2017ء
٫٫ ساتھ چلو تو اچھا ہوگا ،، 2018ء
پروفیسر ڈاکٹر محمد اشرف کمال کی غزل گوئی کے حوالے سے ڈاکٹر آغا سہیل ( ایف سی کالج لاہور ) کہتے ہیں محمد اشرف کمال کے کلام کے بالا ستعیاب مطالعہ سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ نہ تو وہ روایت پرست شاعر ہیں اور نہ پرانی لیکھ پر چلنے والوں کی نقالی کرتے ہیں ۔ صنفِ غزل میں خاص طور پر یہ خطرہ لاحق رہتا ہے کہ شاعر بہت جلد اپنی متخیلہ کو کسی بھی پسندیدہ خیال پرست اور روایتی غزل گو کے راستے پر ڈال دیتا ہے اور مکھی پہ مکھی بیٹھانا ، مروجہ بحور ، قوافی و ردیف کی زمینوں میں شعر کہنے کو فخر و مباہات سمجھتا رہتا ہے ۔ اس صورت میں متخیلہ کی تخلیقی صلاحیت پس پشت رہ جاتی ہے اور محض کریفٹ مین شپ
Craftsmanship
آگے آگے چلنے لگتی ہے ۔ محمد اشرف کمال نے روایتی ڈگر چھوڑ کر اور خیال پرستی سے ہٹ کر اپنی متخیلہ کو محض جذبے ، خیال اور وجدان سے استعارے کے راستے پر نہیں لگایا بلکہ تفکر و تعقل کو راہ دی اور اپنے ذہنی افق کو وسیع سے وسیع تر بنایا جس میں معاشرتی شعور ، تاریخی تجزیہ عمرانی محرکات و عوامل اپنا صحت مند کردار کر رہے ہیں ، جو شاعر جان جو کھوں میں ڈال کر سماجی شعور سے کام لیتے ہیں وہی صحیح معنیٰ میں بیدار سے بھی قائم ہے ہیں اور ان کا رابطہ اپنے حال سے بھی قائم ہے اور مستقبل سے بھی استوار ہے کریفٹ مین شپ اور ڈکشن ایسے شاعروں کے لئے محض ثانوی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اصل چیز وہ شعور و آگہی ہے جسے ترقی پسند مکتبہ فکر سماجی شعور اور عصری حسیت قرار دیتا ہے ۔ اس بنا پر اشرف کمال اپنے آج بھی ترجمان شاعر ہیں اور اپنے کل سے بھی ان کا خطاب ہے ۔ ان کے لہجے میں جو اجتماع اور مزا حمت ہے ۔ وہی ان کا اسلوب ہے جس میں دلکشی اور جاذبیت بھی اور دعوتِ فکر و نظر بھی ۔ پھول راستے( ص 10 )
آخر میں چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔
***
میں انقلاب پسندوں کی قبیل سے ہوں
جو حق یہ ڈٹ گیا اس لشکرِ قلیل سے ہوں
***
تجھے دیکھا ہے جب سے زندگی اچھی لگی ہے
میں زندہ رہنے کا پھر سے ارادہ کر رہا ہوں
***
کسی طرح جلتا ہے مفلس کا چراغ
تم میری بستی میں آکر دیکھنا
***
جھوٹ کہتے ہیں مرے بارے ترے شہر کے لوگ
کہ ہوا بدلے گی تو میں بھی بدل جاؤں گا
***
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔