( آئیے دیکھتے ہیں
عمران خان کی رخصتی اور شہباز شریف کی آمد سے جو دلچسپ ، پیچیدہ اور خطرناک صورت حال پیدا ہوئی ، وہ ہمیں کس طرف لے کر جاسکتی ہے )
تجزیہ و تحریر :
سیّدزادہ سخاوت بخاری
قوم اس وقت دو واضع گروہوں میں بٹ چکی ہے ۔ ایک طبقہ موجود حکومت کو جائز قرار دے کر اس کی حمائت میں دلیلوں کے انبار لگا رہا ہے تو دوسرا گروہ سابقہ حکومت یعنی عمران خان کے موقف کی حمائت میں کچھ بھی کرنے کو تیار ہے ۔ بہ ظاھر تو یہ ایک ہلکی پھلکی موسیقی نظر آتی ہے لیکن میرے ناقص خیال کےمطابق موجودہ صورت حال نہائت گھمبیر اور خطرناک ثابت ہوسکتی ہے ۔ اللہ کرے ایسا نہ ہو اور یہ طوفان ہمیں کوئی نقصان پہنچائے بغیر گزر جائے ۔
میرے خدشات ہوائی اور بے بنیاد اس لئے نہیں کہ میری نسل نے سن 70 کی دہائی میں اقتدار ہی کی جنگ کے نتیجے میں سانحہ مشرقی پاکستان رونماء ہوتے دیکھا ۔ اس وقت بھی اسی قسم کی سیاسی صورت حال تھی اور سیاسی راہنماء اپنے اپنے حامیوں کو دلاسے اور تسلیاں دے رہے تھے ۔ ہر طرف سے "سب اچھا ہے ” کی صدائیں بلند ہورہی تھیں لیکن پھر اچانک خبر آئی کہ بھارتی فوج ، جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کی زیر قیادت ڈھاکہ میں داخل ہوچکی ہے ۔
انا للہ و انا الیہ راجعون ۔
قارئین کرام
میری تحریر ، خیالات اور تجزیئے کو پڑھتے ہوئے یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ میں نے 1967 سے 1976 تک کی سیاسی سرگرمیوں میں ایک متحرک سیاسی کارکن اور عھدیدار کی حیثیت سے حصہ لیا ۔ ایوب خان کا دور دیکھا ، ان کے خلاف تحریک میں بحیثیت طالب علم شامل ہوئے ، جیل دیکھی ، یحیی خان کو آتے دیکھا ، ان کی تقریریں سنیں ، 1970 کے الیکشن میں خوب دوڑے بھاگے ، بھٹو اور مجیب کی لڑائی دیکھی اور پھر دسمبر 1971 کی وہ دکھ بھری شام جب سقوط ڈھاکہ ہوا ۔
ہندوستان سے جنگ جاری تھی ۔ میں بحیثیت وارڈن اپنے علاقے کی سول ڈیفینس پوسٹ میں اپنی ٹیم کے ساتھ موجود تھا ۔ ہم سب بی بی سی لندن سے اردو بلیٹن کے انتظار میں تھے ۔ شام ٹھیک سات بجے جب میں نے اپنا ٹرانزسٹر ریڈیو آن کیا تو آواز آئی ،
” یہ بی بی سی لندن ہے
اب آپ رضا علی عابدی سے خبریں سنئے
تاذہ ترین اطلاعات کے مطابق بھارتی فوج مشرقی پاکستان کے دارالحکومت ڈھاکہ میں داخل ہوگئی ہے ۔ شھر کے انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل پر ریڈ کراس کا نشان لگادیا گیا ہے تاکہ غیر ملکی اور میڈیا کے لوگ وہاں پناہ لے سکیں "
پاکستان کے ایک بیٹے کی حیثیت سے اس شام رنج و الم کو میں آجتک نہیں بھولا ۔ یقین جانئے یہ سطور لکھتے ہوئے میری آنکھیں نم ہیں ۔ آنسووں کی اس جھڑی میں اپنی نوجوان نسل کو صرف ایک ہی پیغام دینا چاھتا ہوں کہ مسلمانوں کی تباہی و بربادی کا فقط ایک ہی سبب ہے کہ وہ باہم دست و گریباں ہوئے ۔ آپسی لڑائیوں نے انہیں کمزور کیا اور باالآخر غلام بنا دئے گئے ۔ مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک کی ساری کہانی باہمی لڑائی ، اختلافات اور ذاتی مفادات کے گرد گھومتی ہے ۔ اگر ہم متحد ہوتے تو بھارت کی کیا مجال کہ وہ ہم پہ چڑھائی کرسکتا ۔ 71 سے پہلے 47 اور پھر 1965 کی جنگوں میں اسی بھارت کا ہم نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور مقابلتا کم فوج اور ساز و سامان ہونے کے باوجود ہم اپنا وجود قائم رکھنے میں کامیاب رہے لیکن 1971 کی جنگ کے وقت ہمارے باہمی اختلافات نے ہمیں شکست سے دوچار کردیا ۔
یاد رکھئیے مسلمانوں کی تاریخ میں سانحہ مشرقی پاکستان کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے قبل اندلس ( موجودہ اسپین ) میں قائم 800 سالہ مسلم سلطنت ، سلطنت عثمانیہ ، ہندوستان میں ہزار سالہ اقتدار اور سقوط بغداد بھی آپسی لڑائیوں کا نتیجہ تھا ۔ بغداد میں مسلمانوں کی عظیم الشان سلطنت قائم تھی لیکن گروہی اختلافات نے ھلاکو خان کو اس پر حملہ کرنے کا موقع فراہم کیا اور بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی ۔
تمہید قدرے طویل ہوگئی ہے لیکن سمجھانا یہ مقصود تھا کہ ہماری قوم اور وطن کی بقاء صرف ہمارے اتحاد اور اتفاق میں مضمر ہے۔لیکن محسوس ایسا ہورہا ہے کہ ہم ایک مرتبہ پھر 1970 والی پوزیشن میں آگئے ہیں ۔ اس وقت بھٹو اور مجیب گتھم گتھا ہوئے ۔ باالآخر ادہر ہم ادہر تم کا نعرہ لگا اور پاکستان دولخت ہوگیا ۔ حالانکہ یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ پاکستان ٹوٹ جائیگا ۔ اب بھی کچھ سادہ لوح ، عمران خان اور پی ڈی ایم کی لڑائی کو عام سی بات سمجھ رہے ہیں جبکہ یہ سارا کھیل عالمی سامراج کا ہے ۔ اصل جنگ امریکہ بمقابلہ چین و روس ہے ۔ امریکہ سی پیک کے منصوبے اور پاک چین دوستی کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے ۔ اس کے لئے اس نے بلوچستان میں آزادی کی ایک تحریک کو بھارت کے ساتھ مل کر شہ دے رکھی ہے ۔ وہ اگر عمران خان کے ابسولوٹلی ناٹ اور حقیقی آزادی کے نعرے کو پسند نہیں کرتا تو شہباز شریف یا کسی اور کا بھی دوست نہیں ۔ اسے صرف اور صرف اپنے اہداف حاصل کرنے ہیں لھذا وہ اپنے بے پناہ وسائل کے بل بوتے پر پاکستان میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا کرکے بلوچستان کو ایک آزاد ملک ڈیکلیر کرسکتا ہے تاکہ سی پیک کا منصوبہ دھرے کا دھرا رہ جائے ۔ یاد رکھیں چین کے پاس گوادر کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں کہ وہ عربستان ، یورپ اور افریقہ تک اپنی تجارت بہ آسانی بڑھا سکے ۔ سی پیک دراصل چین کے ون بیلٹ ون روڈ کا دروازہ یا بنیاد ہے کہ جس کے ذریعے اس نے پوری دنیاء تک پہنچنا ہے اور یہی بات امریکہ کو کھٹکتی ہے ۔
اب آجائیے اس طرف کہ میں نے خانہ جنگی کا لفظ کیوں استعمال کیا ۔ اس بات کو سمجھنا مشکل نہیں ۔ ایک منتخب اور چلتی حکومت کو ہٹایا گیا جس پر عمران خان کا دعوی ہے کہ امریکہ کی مدد سے ایسا ہوا اور وہ امپورٹڈ حکومت کو تسلیم نہیں کرینگے ۔ پشاور اور کراچی کے بعد لاہور میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اسلام آباد کے لئے کال کا ذکر کرکے یہ عندیہ دیدیا کہ وہ موجودہ حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ اب یہ لڑائی نہیں تو اسے اور کیا نام دیا جائے ۔
علاوہ ازیں عمران خان کے بڑے بڑے عوامی اجتماعات ، دنیاء بھر میں ان کی حمائت میں ریلیاں اور سوشل میڈیا پر عام آدمی کی طرف سے ان کے دعوے کے حق میں لگاتار مہم اس بات کی غماذ ہے کہ خان صاحب کا بیانیہ مقبولیت کی بلندیوں پر ہے ۔ ایسے میں اگر وہ ملک گیر ھڑتال اور احتجاج کی کال دیدیں تو یقینا پورا ملک متاثر ہوگا ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ملک گیر احتجاج میں بعض ملک دشمن اور موقع پرست ، تشدد کا عنصر بھی داخل کرسکتے ہیں جس کے بعد اس احتجاج کو قابو میں لانا ممکن نہ ہوگا ۔ اسی کا نام خانہ جنگی ہے لھذا ایسی صورت حال سے بچنے کے لئے کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ فوری طور پر انتخابات کا اعلان کردیا جائے ۔
سیّدزادہ سخاوت بخاری
مسقط، سلطنت عمان
شاعر،ادیب،مقرر شعلہ بیاں،سماجی کارکن اور دوستوں کا دوست
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔