گنڈا پوری ٹیکنالوجی
بچوں کی ڈاک کے ذریعے ترسیل کی ایک دلچسپ روداد پڑھ رہا تھا تو ایسے ہی کوانٹم ٹیلی پورٹیشن Teleportation کا موضوع یاد آ گیا۔ یہ حیران کن تاریخ ہے کہ سنہ 1920ء سے پہلے تک امریکہ میں بچوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ ڈاک کے ذریعے بھی بھیجا جا سکتا تھا۔ البتہ، اس مقصد کے حصول کے لئے کچھ شرائط پوری کرنی پڑتی تھیں۔ اولا بچوں کا وزن 50پاؤنڈ سے کم ہونا ضروری تھا جس کے بعد ان کے کپڑوں پر ڈاک کے ٹکٹ چسپاں کئے جاتے تھے جو کہ ادائیگی کی علامت ہوتے تھے۔ اس سے بھی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اکثر بچوں کو ڈاک کے ذریعے بھیجنا ٹرین کے ذریعے بھیجنے سے زیادہ سستا تھا۔ یہ بچے سفر کے دوران ٹرین کی میل کار میں سفر کرتے تھے، جہاں کا عملہ ان کی نگرانی کرتا تھا اور انہیں کھانا وغیرہ فراہم کرتا تھا۔ بچوں کی ترسیل کے اس انوکھے طریقہ کار کی ایک مثال فلوریڈا سے ورجینیا تک کا 700میل سے زائد کا سفر ہے، جس کے لئے محض 15 سینٹ کے فی کس ڈاک ٹکٹ استعمال ہوتے تھے۔ یہ زمین پر بہت سستی ترسیل اور نقل مکانی ہے۔ اسے آجکل کے پی کے تحریک انصاف کے وزیر اعلی علی امین گنڈا پور ورکروں کو وفاق اور پنجاب لاہور کے خلاف موبائلز کرنے کے لیئے استعمال کر رہے ہیں۔ ٹیلی پورٹیشن کی جدید سائنسی ٹیکنالوجی بھی انسانوں اور چیزوں کی دور افتادہ ستاروں تک ترسیل کا خواب ہے۔ اگر انسان اس حد تک ترقی کر لے تو یہ اس سے بھی سستی نقل و حرکت ہے جس کے زریعے نوری سالوں دور کی مسافت بھی محض پلک جھپکنے سے بھی کم وقت میں ممکن ہو سکے گی۔
ایک نوری سال اس فاصلے کو کہتے ہیں جو تین لاکھ میل فی سینکڈ کی رفتار سے روشنی ایک سال کے عرصے میں طے کرتی ہے جو 6 ٹرلین میلز بنتا ہے یعنی روشنی ایک ہی رفتار رکھتی ہے جو 300,000,000 میٹر فی سیکنڈ یا 186,000 میل فی سیکنڈ ہے۔ جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ٹیلی پورٹیشن کا انسانی خواب اگر حقیقت میں بدل گیا تو انسان مستقبل قریب میں اربوں کھربوں میل دوسرے ستاروں تک پہنچنے کا فاصلہ ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں طے کر لیا کرے گا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ انسان اپنے اس مادی جسم کے ساتھ روشنی کی رفتار یا اس سے بھی زیادہ تیز رفتار فاصلہ کیسے اور کونسی ٹیکنالوجی کے ذریعے طے کرے گا۔ اس سے قبل انہی صفحات پر جڑواں زرات Entaglled Particles پر ایک بیانیہ تحریر کیا تھا. اس کا خلاصہ یہ تھا کہ یہ جڑواں زرات ایسی صلاحیت کے حامل زرات ہیں کہ ان میں سے اگر ایک پارٹیکل کو مریخ پر اور دوسرے کو زمین پر رکھ کر زمین والے کو حرکت دی جاتی ہے تو کوئی وقت ضائع کیئے بغیر مریخ والے پارٹیکل میں بھی حرکت پیدا ہو جائے گی اور اس کی رفتار روشنی کی رفتار سے بھی کئی گنا زیادہ ہو گی۔
آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت میں یہ بہت بڑا تناقض یا نقص ہے۔ اگر کائنات کی ابتداء کے وقت اجرام فلکی دھماکے کے ساتھ پیدا ہو سکتے ہیں اور روشنی کی رفتار سے زیادہ تیزی کے ساتھ ایک دوسرے سے دور جا سکتے ہیں تو اب کوئ شے روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز سفر کیوں نہیں کر سکتی ہے؟ پہلے یہ محض ایک سوال تھا کہ روشنی کی رفتار حتمی اور حرف آخر ہے۔ لیکن اب کوانٹم نظریات نے بہت سے گزشتہ سائنسی نظریات کو مشکوک بنا دیا ہے۔ سائنسی فکر کی یہ تبدیلی کلاسیکل اور کوانٹم فزکس کے فرق کی مانند ہے۔ نیوٹن کے قوانین حرکت اور سائنسی نظریات نے 300 سال تک دنیا پر حکومت کی۔ لیکن 1900 عیسوی میں جب کوانٹم سائنس کا انقلاب آیا تو سائنسی ترقی دو ادوار میں تقسیم ہو گئی۔ ایک 1900ء سے پہلے کا دور اور دوسرا 1900ء سے بعد کا دور ہے جنہیں بالترتیب کلاسیکل دور اور کوانٹم دور کہا جاتا ہے۔ اگرچہ بعض بنیاد پرست سائنس دانوں نے کوانٹم فزکس کو سائنس فکشن یا میٹا فزکس اور فلسفہ سمجھ کر تجربات سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ کوانٹم زرات مثلا کشش ثقل کی لہریں Gravity Waves یا نیوٹرینوز Neutrinos زرات جن پر بہت زیادہ انرجی ہوتی ہے اور جو کسی بھی مادی میڈیم سے گزرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز نہیں بھاگ سکتے ہیں۔
کوانٹم فزکس کے ذریعے ایٹم اور اس میں موجود چھوٹے سب اٹامک ذرات کے رویوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ کوانٹم فزکس کا ایک موضوع کوانٹم اینٹینگلمنٹ Entanglement کہلاتا ہے۔ یہ کوانٹم فزکس کا ایسا فینومینا ہے کہ جب ہم کوئی دو اٹامک پارٹیکلز کو ایک دوسرے کے قریب لائیں یہاں تک کہ وہ اپنی کوانٹم پراپرٹی ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ لیں یا ایک جیسی بنا لیں تو اس صورت میں ہم دونوں پارٹیکلز کو چاہے ایک دوسرے سے جتنی بھی دوری پر لے جائیں اگر ایک پارٹیکل میں کوئی تبدیلی ہو گی تو وہی تبدیلی دوسرے پارٹیکل میں واقع ہو گی یعنی کہ دور رہنے پر بھی ان دونوں کے درمیان کوانٹم تعلق برقرار رہے گا اور کوئی بھی چیز ہم ایک پارٹیکل سے دوسرے پارٹیکل کی طرف بھیجیں گے تو وہ بنا سفر طے کئے پہنچ جائے گی۔
انسان اپنی سوچ یعنی روح اور جسم کا مجموعہ ہے ان دونوں میں کوانٹم تعلق پہلے سے موجود ہے یا پیدا کیا جا سکتا ہے اور اس کے ذریعے اس کوانٹم ٹیلی پورٹیشن کا سفر بھی ممکن بنایا جا سکتا یے۔
ہر پارٹیکل اپنے محور کے گرد دو طرح کی حرکت کرتا ہے۔ ایک حرکت کو ہم کلاک وائز Clockwise اور دوسری حرکت کو ہم Anticlockwise کہتے ہیں جسے Upspin اور ڈاؤن Downspin بھی کہتے ہیں یعنی کہ کائنات میں موجود کوئی بھی پارٹیکل یا تو وہ کلاک وائز حرکت کریگا یا پھر وہ اینٹی كلاک وائز حرکت کرے گا۔ اس کوانٹم انٹینگلمنٹ کے دوران دونوں پارٹیکل کی ڈائریکشن، اسپن اور سپیڈ ایک جیسی رہے گی۔ فرض کریں ہم ایک پارٹیکل کو زمین اور دوسرے کو چاند پر لے جاتے ہیں تو اگر ہم زمین والے پارٹیکل کو اپ Up کرینگے تو چاند والا پارٹیکل ڈاؤن Down ہو جائے گا یعنی کہ ان کے درمیان جو کوانٹم پراپرٹی ہے وہ برقرار رہے گی۔
اس دوران کوئی بھی انفارمیشن بنا وقت لئے ایک پارٹیکل سے دوسرے پارٹیکل کی طرف منتقل ہو جائے گی اور اس کی رفتار روشنی کی رفتار سے کئ گناہ زیادہ ہو گی!!
یوں کوانٹم ٹیلی پورٹیشن ماضی، حال، مستقبل اور مادی اجسام کی تیز رفتار منتقلی کا جادوئی عمل ہے جس پر امریکی، آسٹریلوی، برٹش، آسٹرئین اور جاپانی سائنس وغیرہ تیزی سے کام کر رہے ہیں۔ پہلے آپ یہ سب کچھ صرف امریکی سائنس فکشن کی فلموں یا مشہور ٹی وی سیریل "اسٹار ٹریک” میں دیکھتے تھے مگر اب یہ سب کچھ حقیقت میں ہونے جا رہا ہے۔
دنیا برق رفتاری کے اس عہد میں کیا سے کیا ترقی کی منازل طے کر رہی ہے اور کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے مگر ہماری عوام اور سیاسی لیڈران ایک دوسرے کو چور چور ثابت کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ حکومت منصوبہ بندی کرتی ہے کہ گنڈا پور کے پی کے سے کنٹینرز ہٹانے کے لئے کرینیں لا رہا ان کا توڑ کیسے کرنا ہے، گالی گلوچ پر مبنی جلسے جلوسوں پر آنسو گیس کب پھینکنی ہے اور فائرنگ کرنے یا روکنے کے لیئے ایسی کونسی ٹیکنالوجی ایجاد کرنی ہے کہ اپوزیشن کا جلسہ ناکام ہو جائے یا اٹک پل پر انہیں کیسے روکنا ہے کہ راستوں پر کنٹینرز ہی لگانے نہ پڑیں۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔