قائد اعظم سے قائد عوام تک
یوم پاکستان 23مارچ 2025ء کے موقع پر صدر مملکت آصف علی زرداری صاحب کی تقریر پر تنقید کی گئی جو تاحال جاری ہے اور رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ صدر پاکستان زرداری صاحب کی زبان تقریر کے دوران اپنی ذہنی اور جسمانی خرابی صحت کی وجہ سے لڑکھڑاتی رہی۔ یہ تنقید کرنے کا کوئی معقول جواز نہیں ہے کیونکہ خرابی صحت کا مسئلہ کسی بھی بنی نوع انسان کو لاحق ہو سکتا ہے۔ اس پر تنقید کرنا اسلامی اخلاقی اقدار کے منافی ہے۔ اس کے باوجود سیاسی مخالفین زرداری صاحب پر ان کی ذات کے حوالے سے بھی چہ میگوئیاں پھیلا رہے ہیں کہ اٹک اٹک کر بولنے کی کوئی دوسری "خاص وجہ” تھی جس کے باعث یہ واقعہ پیش آیا۔ لیکن سیاسی مخالفین کا کیا ہے وہ تو اپنے حریف کو بدنام کرنے اور نیچا دکھانے کے لیئے کسی موقعہ کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ سچ کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں کی جمہوری سیاست میں تنقید برائے تنقید ایک نامعقول اور غیرتعمیری انداز سیاست کا نتیجہ ہے جس سے ہمارے عام سیاسی رویوں اور روایات کے معیار کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ خیر میرا کسی سیاسی جماعت سے واسطہ ہے اور نہ ہی میں کسی پارٹی یا عہدے دار کے حق اور مخالفت میں لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں ایک عام دردمند پاکستانی کے طور پر زرداری صاحب کے اس خاص الخاص نمایاں کارنامے کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس کے ذریعے میرا مقصود انہیں اور بھٹو صاحب کو خراج تحسین پیش کرنا ہے۔
23مارچ 2025ء کو اس بار یوم پاکستان کے موقعہ پر میری عاجزانہ رائے کے مطابق یہ ایک خاص واقعہ پیش آیا کہ 46سال کے بعد جناب صدر مملکت آصف علی زرداری صاحب نے پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو بعد از مرگ اعلیٰ ترین سول ایوارڈ "نشان پاکستان” عطا کیا۔ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت اور کردار سے لاکھ سیاسی اختلافات ہو سکتے ہیں۔ لیکن انہوں نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے اور یہ سنگ میل عبور کرنے کے لیئے جس طرح اپنی جان کو خطرے میں ڈالا اور بلآخر ایک قتل کیس میں اور عدالتی فیصلے کے ذریعے سولی پر بھی چڑھ گئے، وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک الگ اور متنازعہ باب ہے۔ لیکن بھٹو صاحب پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے مشن سے پیچھے نہیں ہٹے۔ 26مارچ 1971ء کو پاکستان دولخت بھی ہوا اور بنگلہ دیش آزاد ہو گیا۔ بھٹو صاحب کو اس مد میں بھی بہت سے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان مشکلات کے باوجود انہوں نے 1974ء میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا دوسرا اجلاس لاہور میں کامیابی سے منعقد کروایا۔
اسلامی سربراہی کانفرنس کا دوسرا اجلاس قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی قائدانہ کوششوں اور شہید شاہ فیصل آل سعود کے فیاضانہ مالی تعاون اور سرپرستی کا نتیجہ تھا۔ اس تنظیم (او آئی سی) کا پہلا اجلاس مراکش کے شاہ حسن ثانی کی قیادت میں رباط میں منعقد ہوا تھا جب ایک بدبخت یہودی نے مسجد اقصیٰ کو آگ لگا کر بھسم کرنے کی ناپاک جسارت کی تھی۔ بیسویں صدی عیسوی کا نصف آخر اسلامی دنیا کی نئی کروٹ لینے کا زمانہ تھا۔ دوسری عالمی جنگ نے مغربی سامراجیوں کو اس قدر نڈھال کر دیا تھا کہ وہ عالم اسلام سے گلو خلاصی کرنے پر مجبور مجبور تھے اور ایک ایک کر کے اسلامی ملک آزاد ہونے لگے تھے۔ بھارت کی اندرا گاندھی نے ہندو کی صدیوں پرانی دبی ہوئی خواہش کی ترجمانی کرتے ہوئے سقوط ڈھاکہ کو ہزار سالہ غلامی کا انتقام قرار دیا اور صلیبی سامراج کے ناخدا ہر جگہ بغلیں بجاتے ہوئے دکھائی دئیے تھے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں خصوصاً برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کیلئے یہ بہت بڑا المیہ تھا جو "سقوط بغداد”، "سقوط غرناطہ” اور خلافت عثمانیہ کے زوال کے المناک لمحات سے کسی طرح کم نہ تھا۔ یہ ایک ایسا مرحلہ تھا جو امت مسلم سے صبر و ہمت اور حوصلہ مندی کا طالب تھا۔ یہاں ایک ایسی حوصلہ مند قیادت کی ضرورت تھی جو مسلمہ امہ کے دلوں میں امیدوں کے چراغ روشن کرتی۔ اس وقت یہ قیادت آل سعود کے شہید فرزند شاہ فیصل اور پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے مہیا کی! بھٹو نے بجا طور پر کہا تھا کہ وہ بکھرے ہوئے ریزے جمع کر کے ایک ملک کی ازسر نو تعمیر کرنے کیلئے آئے ہیں۔ اس وقت نوے ہزار پاکستانی جنگی قیدی بھارت کی قید میں تھے جو ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی بصیرت کی وجہ سے آزاد کروا لیئے گئے۔
اگلا مرحلہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا تھا جس کی تکمیل کے لیئے بھٹو نے کمر کس لی اور اسلامی سربراہان سے اپنی ذاتی دوستی کی بنیاد پر کثیر فنڈز اکٹھے کر لیئے، فرانس سے ایٹمی مواد درآمد کیا اور ڈاکٹر عبدالقدیر کو بھی ان کی مرضی کے مطابق سائنس دانوں کی ایک قابل اعتبار ٹیم فراہم کی۔ اسی موقع پر ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ، "ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔” بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بعد شکستہ پاکستان کو پھر سے پرعزم اور متحد کرنا بڑا کٹھن کام تھا اور یہ کام اپنے قیام کے 26سال بعد 1973ء میں پاکستان کو ایک متفقہ دستور دے کر ذوالفقار علی بھٹو نے انجام دیا۔ جبکہ 1974ء ميں وزیر اعظم پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں احمدیوں جن کو قادیانی بھی کہا جاتا ہے، کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا۔ 30 جون 1974ء کو مولانا شاہ احمد نورانی نے بل پیش کیا اور مولانا مفتی محمود قادیانیوں کو کافر قرار دینے والی کمیٹی کے سربراہ بنے۔ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا کارنامہ بھی ذوالفقار علی بھٹو کے سر پر سجتا ہے۔
مزید برآں بھٹو خاندان نے پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لیئے جو قربانیاں دیں ان کی مثال نہیں ملتی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دو بیٹے شاہ نواز بھٹو، میر مرتضٰی بھٹو اور ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو کی شہادتیں کون بھول سکتا ہے۔ صدر پاکستان آصف علی زرداری نے مرحوم بھٹو کو نشان پاکستان دے کر ان کے پاکستان پر ان احسانات کا بدلہ چکانے کوشش کی۔ جب اس موقع پر ان کی بیٹی صنم بھٹو کو "نشان پاکستان” کا تمغہ پیش کیا گیا تو ان کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ گیا۔ صنم بھٹو کے یہ آنسو ماضی کے صدمات کی وجہ سے تھے یا اپنے والد کے اعزاز کی وصولی کی خوشی میں تھے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ زندہ قومیں اپنے محسنوں کو یاد رکھتی ہیں۔
سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی ان خدمات کے بدلے میں انہیں نشان پاکستان کا ایوارڈ اس سے پہلے دیا جانا چایئے تھا۔ جو احسان فراموش زرداری صاحب کی زبان میں لڑکھڑاہٹ پر بے جا اعتراض اور تنقید کر رہے ہیں انہیں ذوالفقار علی بھٹو کی خدمات کو مدنظر رکھنا چایئے۔ بھٹو نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنا کر پاکستان کو یہ طاقت دی کہ وہ دنیا اور بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے۔ آج اگر ہم پاکستان کی بقا اور سلامتی کی بات کریں تو اس میں "قائد اعظم” کے بعد دوسرے نمبر پر "قائد عوام” ذوالفقار علی بھٹو کا نام آتا ہے۔ اس وقت دنیا میں پاکستان کو پروقار اور باعزت مقام و مرتبہ دلانے کے لیئے ایک پرعزم قدم اٹھانے کی ضرورت تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت ایک "قوت محرکہ” بن کر سامنے آئی۔ اس ضرورت کا سارا سامان قائد عوام بھٹو نے کیا اور وہ لاہور میں دنیا بھر کے مسلمان حکمرانوں کو اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اسی دوران ذوالفقار علی بھٹو نے "اسلامی ورلڈ” کی تعمیر کی بات کی تھی اور مسلمانوں کی "مشترکہ کرنسی” اور "اسلامی بنک” بنانے کی تجویز پیش کی تھی۔
صدر پاکستان آصف علی زرداری صاحب کا ذوالفقار علی بھٹو کو یہ اعزاز بخشنا اس لیئے بھی ضروری تھا کہ قوم اپنے ایک "محسن” اور "عظیم ہیرو” کو یاد رکھ سکے۔ بدقسمتی سے پاکستان سیاسی کشمکش اور نیم فوجی و نیم سیاسی حکومت کے درمیان پستا رہا ہے۔ اب اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ جمہوریت کو مستحکم کیا جائے۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو نشان پاکستان پیش کرنا ہمیں پاکستان میں جمہوریت کو ازسرنو مرتب اور مضبوط کرنے کی یاد دیہانی کراتا ہے۔ میں اس موقع پر یہی کہوں گا کہ صدر پاکستان آصف علی زرداری صاحب، ویل ڈن!!!

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |