لندن سے لاہور تک: کسانوں پر ٹیکسز کا نفاذ
تحریر: عبدالوحید خان، برمنگھم (یوکے)
پوری دنیا میں ایک طرف جہاں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہر خاص و عام، چرند پرند، حیوانات، حشرات، نباتات اور انسان تیزی سے متاثر ہو رہے ہیں وہیں پر نیچرل انوائرمنٹ یعنی قدرتی ماحول کے حوالے سے ایک اہم اور بنیادی اکائی ”شعبہ زراعت“ اور اس سے متعلقہ کاشتکار اور کسان جو قدرتی ماحولیات کے غیر اعلانیہ محافظ اور نگہبان کا کردار ادا کرتے چلے آ رہے ہیں کو حکومتوں کیطرف سے سہارا دینے کی بجاۓ ان پر لندن سے لاہور تک نہ صرف ٹیکس لگانے کی باتیں ہو رہی ہیں بلکہ جنوری 2025 سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اور اپریل 2026 سے برطانیہ میں کسانوں کو مزید ٹیکس دینا پڑے گا-
موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کام کرنے والی بڑی بڑی آرگنائزیشنز دنیا بھر کے مختلف ممالک میں بڑے بڑے عالی شان ہوٹلوں میں تقریبات اور کانفرنسز کے انعقاد پر اپنے بجٹ کا بڑا حصہ خرچ کر کے اس بات پر زور دیتی ہیں کہ معاشرے کو دن بدن بڑھتی گیسز کے اخراج اور انرجی کے مضرصحت اثرات سے کیسے بچانا ہے، آلودگی کو کیسے کم کرنا ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ کا کیسے مقابلہ کرنا ہے تاکہ اس کرہ ارض کو بچایا جا سکے لیکن اکثر ایسے پراجیکٹ اور منصوبے بناۓ جاتے ہیں کہ براہ راست کسان کو ان میں شامل نہیں کیا جاتا مثلاً کہا جاتا ہے کہ گلوبل وارمنگ یعنی عالمی تپش کو کم کرنے کیلئے شجرکاری کا عمل سب سے بہترین ہے اور اس مقصد کے لۓ اگر درخت لگانے ہیں تو براہ راست کسانوں کی مدد کر کے اس کو کامیاب کیا جا سکتا ہے کیونکہ کسان ہی ہیں جو تیزی سے بڑھتی ان تبدیلیوں سے متاثر ہونے کے باوجود انکے آگے ابھی تک ایک طرح سے بند باندھے کھڑے ہیں- اگرچہ تیزی سے رونما ہوتی ان موسمیاتی تبدیلیوں کے اسباب پیدا کرنے میں تو کسانوں کا حصہ کم ہے لیکن متاثرین میں وہ سب سے سے آگے ہونے کے باوجود براہ راست کسی قسم کی امداد سے محروم ہیں-
چاہئے تو یہ تھا کہ پاکستان میں زرعی زمینوں پر سیمنٹ، ریت، بجری اور سریے کے پہاڑ کھڑے کرنے والوں پر کوئی قدغن لگتی، قدرتی پہاڑوں، درختوں، ندی نالوں، آبشاروں کو کاٹ کھانے والوں پر پابندی نافذ ہوتی لیکن قدرتی وسائل کو تیزی سے ختم کرنے والوں پر تو کوئی خاص قدغن نہیں لیکن مغرب سے مشرق تک کسان نشانے پر ہیں جسکی واضح مثال برطانوی دارالحکومت لندن اور وطن عزیز پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب جو زراعت کے حوالے سے نہ صرف ایک خوبصورت ماضی کا حامل ہے بلکہ اس وقت بھی پورے ملک کو اجناس اور غلے کی فراہمی میں صفِ اول کا کردار ادا کر رہا ہے کے دارالحکومت لاہور میں کسانوں پر ٹیکس لگانے کے قوانین منظور کۓ گۓ ہیں جنہوں نے کسانوں کو احتجاج پر مجبور کر دیا ہے-
ماہِ نومبر میں لاہور شہر میں تو سموک اور فوگ کے مرکب ”سموگ“ کے ڈیرے تھے جس میں خوش آئند طور پر بتدریج کمی واقع ہوئی ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام نے اِس کا بھی سارا الزام کسانوں پر ہی دھرا کہ وہ اپنی فصلوں کی باقیات کو آگ جلا کر سموگ پیدا کرنے کے موجب ہیں جبکہ حقیقتاً فصلوں کی باقیات کی شرح ٹرانسپورٹ کے دھوئیں سے پھیلنے والی آلودگی سے بہت کم ہے-
پنجاب اسمبلی میں ایگریکلچرل انکم ٹیکس ایکٹ 1997 میں ترامیم اور کچھ نئی شقوں کے اضافے کے بعد ایگریکلچر انکم ٹیکس بل 2024 منظور کیا جا چکا ہے جسکے مطابق کسانوں پر دو طرح کے زرعی ٹیکس کا نفاذ کیا گیا ہے اور اس کو ”سپر ٹیکس“ کا نام دیا گیا ہے شاید اس ٹیکس کو سپر کا نام دینے کی وجہ یہ ہو کہ جب باقی چیزیں تنزلی کی طرف رواں دواں ہوں تو پھر ٹیکس ہی سپر رہ جاتا ہے جو عوام سے بزور وصول کر کے اپنی راجدھانی کو قائم رکھنے اور اس کو چلانے کے لۓ اور نظام کار چلانے والوں کے لۓ بیش بہا اخراجات پورے کۓ جاتے ہیں-
زرعی ٹیکس کو دو حصوں آمدن یا ایکڑ کے حساب سے جنوری 2025 سے وصول کرنے کا منصوبہ ہے جس کے مطابق چھ لاکھ روپے سالانہ آمدن والے کسان پر کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہو گا جب کہ چھ لاکھ سے 12 لاکھ سالانہ آمدن پر چھ لاکھ کا 15 فی صد سالانہ، 12 لاکھ سے 16 لاکھ روپے پر 20 فی صد، 16 لاکھ سے 32 لاکھ تک 30 فی صد اور 32 لاکھ سے 56 لاکھ روپے تک سالانہ آمدن پر 40 فی صد کے حساب سے سالانہ ٹیکس وصول کیا جائے گا یہاں پر منافع کا ذکر نہیں ہے بلکہ حیران کن طور پر صرف آمدن کا ذکر ہے جس میں اخراجات پر سے صَرفِ نظر کیا گیا ہے جو نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستان میں زرعی اخراجات پہلے ہی کسان کی پہنچ سے باہر ہو چکے ہیں اور اس ٹیکس کا نفاذ کسان کے ساتھ سراسر زیادتی اور زراعت دشمنی ہے- اسی طرح ایکڑ کے حساب سے ساڑھے بارہ ایکڑ تک زمین سے اوپر یعنی ساڑھے بارہ سے 25 ایکڑ زمین تک زمیندار کو 3900 روپے سے 7500 روپے، 25 سے 50 ایکڑ پر دس ہزار سے 20 ہزار روپے، 50 ایکڑ سے زیادہ رقبے والے زمیندار سے 25 ہزار روپے سالانہ ٹیکس وصول کیا جائے گا جبکہ لائیو سٹاک یعنی جانوروں پر اور پھلوں کے درختوں کے باغات پر الگ سے ٹیکس ہونگے جن پر کسانوں کی تنظیموں نے اخباری بیانات اور میڈیا ٹاک کی حد تک اظہار ناراضگی کیا اور ٹیکس واپس نہ ہونے کی صورت میں باقاعدہ احتجاج کے اعلانات کۓ تھے-
اسی طرح پاکستان سے ہزاروں میل دُور برطانیہ میں لیبر پارٹی کی حکومت نے پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد کسانوں پر ”وراثتی ٹیکس“ نافذ کر دیا ہے جس پر یہاں کے کسانوں نے ماہِ نومبر میں ہی لندن کے یخ بستہ موسم میں باقاعدہ اپنے ٹریکٹرز لیکر پارلیمنٹ کے سامنے بھرپو احتجاج کیا تھا جہاں انکے بچے بھی اپنے کھلونے ٹریکٹرز لیکر احتجاج میں شامل ہوۓ تھے تاہم لیبر پارٹی کی حکومت نے اس ٹیکس کو واپس لینے سے انکار کرتے ہوۓ کہا ہے کہ ٹیکس وصولی اور عوام کو سہولیات کی فراہمی پر خرچ ہونے والی رقم میں جو خساره ہے اس کو اس ٹیکس سے پورا کیا جاۓ گا-
کسانوں کی نمائندہ تنظیم ”نیشنل فارمرز یونین“ اپنے احتجاج کے ذریعے وراثتی ٹیکس کے خاتمے کا مطالبہ کر رہی ہے انہوں نے 19 دسمبر کو بینر ڈے کے طور پر منایا تھا اور فیملی ٹیکس کے خاتمے کے مطالبے پر مبنی ملک بھر میں دیہی علاقوں میں بینر لگاۓ گۓ ہیں جبکہ اس سے پہلے ماہ دسمبر میں ہی لندن سمیت مختلف شہروں میں باقاعدہ احتجاج اور سیمینارز بھی کۓ گۓ ہیں اور اب 25 جنوری کو ملک بھر میں تمام کسانوں کا متحد ہو کر احتجاج کا پروگرام ہے-
زرعی وراثتی ٹیکس جسے کسان اور انکی تنظیمیں اب فیملی ٹیکس کا نام دے رہے ہیں کے خاتمے کے مطالبے کی اقتدار سے الگ ہونے والی کنزرویٹو پارٹی اور لبرل ڈیموکریٹک پارٹی بھی حمایت کر رہی ہیں- کنزرویٹو پارٹی کی نئی سربراه کیمی بیڈینوچ نے ماہ نومبر کے لندن مظاہرے میں شامل ہو کر نہ صرف بلند آواز میں پرجوش نعرے لگواۓ تھے بلکہ اس ٹیکس کو "فیملی فارمز ٹیکس” کا نام دیا تھا، انہوں نے اسے ظالمانہ ٹیکس قرار دیتے ہوۓ برسراقتدار آ کر اس کو ختم کرنے کا وعدہ بھی کیا اور کہا کہ یہ ٹیکس اور اس ٹیکس کا نفاذ کرنے والے اس ملک سے "کھیتی باڑی کو تباہ کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم ایسا ہونے نہیں دیں گے”۔
لبرل ڈیموکریٹس نے بھی اس ٹیکس پر تنقید کی ہے اور حکومت کی اس توجیح کو "کچرہ“ کہا ہے کہ اس سے صرف 500 امیر ترین کسانوں کی جائیدادیں متاثر ہوں گی۔ پارٹی کے ماحولیات کے ترجمان ٹم فیرون کا کہنا ہے کہ وراثتی ٹیکس کی ادائیگی کرنے کا واحد طریقہ کسانوں کے لۓ فارم سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے یعنی اپنے زرعی فارم کو بیچ کر ٹیکس ادا کر دیں اور یوں کارپوریٹ سیکٹر انہیں خرید لیں گے۔
برسر اقتدار لیبر پارٹی کے لیڈر اور موجودہ حکومت کے وزیراعظم سر کئیر سٹارمر بھی اپنے ٹیکس اقدام کا دفاع کرتے ہوۓ کہہ رہے ہیں کہ اس وراثتی ٹیکس سے صرف پانچ سو بڑے کسان متاثر ہونگے جبکہ چھوٹے کسانوں کو زیادہ فرق نہیں پڑے گا لیکن کسان یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں اور وراثتی ٹیکس کو واپس لینے کا پرزور مطالبہ کر رہے ہیں-
نیشنل فارمرز یونین (NFU) اور کنٹری لینڈ اینڈ بزنس ایسوسی ایشن (CLA) کا اندازہ ہے کہ ایک ملین پونڈ سے زیادہ مالیت کے ستر ھزار فارمز متاثر ہو سکتے ہیں۔
نئے قوانین کے تحت ایک ملین پاؤنڈ سے زیادہ مالیت کا فارم وراثت میں حاصل کرنے والے کو 20 فیصد وراثتی ٹیکس دینا پڑے گا۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ ان کی زمینیں اور زرعی آلات قیمتی ہیں، لیکن منافع کا اصل مارجن کم ہے، یعنی ان کے بچوں کو ٹیکس ادا کرنے کے لیے زمین بیچنی پڑ سکتی ہے۔
اس ٹیکس کو واپس لینے کیلئے ایک پٹیشن بھی سائن کی جا رہی ہے جس پر اڑھائی لاکھ سے زیادہ برطانوی دستخط کر چکے ہیں جبکہ کسانوں کے خدشات ہیں کہ وراثتی فارم کی ملکیت جب متوفی سے اس کے جائز ورثا کو منتقل کی جاۓ گی تو انہیں بھاری رقوم بطور ٹیکس دینا پڑیں گی جو سراسر زیادتی ہے اور فارمنگ کو ختم کرنے کے مترادف ہے کیونکہ کسان اور انکی فیملیز تو پہلے ہی کیش کی کمی کا شکار ہوتے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب کسان اپنی زرعی مشینری اور زمینیں بیچ کر ٹیکس دیں گے- (ختم شد)
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |