”یورپ سے: پی آئی اے پروازوں کی بحالی“
تحریر: عبدالوحید خان، برمنگھم (یوکے)
پاکستان کی قومی ائیرلائن، پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن (پی آئی اے) نے کچھ سال کی پابندی کے بعد یورپ سے اپنی پروازوں کی بحالی کی اجازت کے بعد باضابطہ طور پر فرانس کے شہر پیرس سے اپنی پروازوں کا آغاز کر دیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اب جلد ہی اگلے ماہ فروری میں برطانیہ سے بھی پروازیں شروع کی جا رہی ہیں جس کا پاکستانی کمیونٹی نے زبردست خیرمقدم کیا ہے-
ایک دور تھا جب پی آئی اے کا شمار دنیا کی بہتر اور اہم ائیرلائنز میں ہوتا تھا لیکن حالات کی ستم ظریفی کہ اسکی فلائیٹس بدقسمتی سے برطانیہ سمیت یورپ بھر اور مختلف مغربی ممالک کیلئے 2020 میں پابندی لگ جانے کی وجہ سے معطل رہیں ہیں-
فلائٹس کی یورپ سے بحالی کے اعلان کے فوری بعد پی آئی اے کی یوکے میں کنٹری منیجر نے لندن میں پاکستانی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوۓ کہا تھا کہ پی آئی اے پر یورپ میں پروازوں پر لگائی گئ پابندی سے خاتمے کے بعد یورپ سے بہت جلد پروازیں شروع ہو جائیں گی جبکہ یوکے کے تین سٹیشنز لندن، برمنگھم اور مانچسٹر سے بھی بعد میں جلد ہی فلائٹس چلائی جائیں گی جسکی وجہ سے مسافروں کو ڈائریکٹ فلائٹس کی سہولت میسر ہوگی اور وہ انگلینڈ سے سات گھنٹوں میں پاکستان پہنچ جایا کریں گے –
پی آئی اے کی پروازوں پر بندش سے نہ صرف پی آئی اے کو بطور ادارہ بھاری نقصان اٹھانا پڑ رہا تھا بلکہ مجموعی طور پر وطن عزیز پاکستان کی معیشت کو بھی زرمبادلہ کی صورت میں بھاری نقصان ہو رہا تھا جبکہ بیرون ممالک میں مقیم وہ اوورسیزپاکستانی یا ڈئیول نیشنل لوگ جو گاہے بگاہے وطن آتے جاتے رہتے ہیں انہیں بھی ڈائریکٹ فلائیٹ کی سہولت سے محروم ہونا پڑ گیا تھا اور اسی طرح جو لوگ اپنے فوت ہونے والے کسی فیملی ممبر کی میت پاکستان لے جاتے تھے وہ بھی اس سہولت سے محروم تھے جبکہ دیگر ائیر لائنز کے ساتھ سفر میں یک طرفہ کم ازکم کئی کئی گھنٹے اضافی سفر میں لگ رہے تھے اور دوران سفر فلائیٹ تبدیل کرتے وقت الگ سے مسافروں کو مشقت اور پریشانی کا سامنا تھا-
پی آئی اے کی بھی کیا شاندار تاریخ ہے ایک ایسی ائیر لائن جس کا آغاز 1955 میں ہوا اور جس نے امارات ائیر لائن جیسی شاندار ائیرلائن کو اس کے ابتدائی سالوں میں معاونت فراہم کی اور پوری دنیا کے اکثر و بیشتر ائیرپورٹس پر ڈائریکٹ فلائٹس کے حقوق حاصل کۓ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب ائیرمارشل (ریٹائرڈ) نور خان 1959 سے 1965 تک پی آئی اے کے ایم ڈی تھے تو اس دوران پی آئی اے کا شمار دنیا کی پانچ بہترین ائیر لائینز میں ہوتا تھا لیکن پھر پاکستان کے دیگر اداروں کی طرح یہاں بھی حالات بتدریج زوال پزیری کا شکار ہوۓ اور کبھی جہازوں میں صفائی ، ستھرائی، کھانے پینے، کمبل، سکرین جیسے چھوٹے چھوٹے معاملات کی شکائتیں زبان زدوعام ہوئیں تو کبھی جہازوں کے عملے کے بارے میں بیرونی ممالک میں شکائتیں آنا شروع ہو گئیں لیکن مجال ہے جو کبھی کسی کے کانوں پر جوں تک رینگی ہو اور پھر نوبت باایں جا رسید کہ پورا جہاز ہی باہر کے ایک ملک کے ائیرپورٹ پر بیچ دیا گیا اور آج ماضی کی شاندار تاریخ کی حامل یہ ائیر لائن نہ صرف خسارے کا شکار ہے بلکہ گزشتہ دور حکومت میں پائلٹس کی جعلی ڈگریوں کے انکشاف پر بین الاقوامی پابندیوں کی زد میں رہی ہے اور حالیہ عرصے میں جب پی آئی اے کی پرائیویٹائزیشن کے سلسلے میں مضحکہ خیز حد تک انتہائی کم بولی لگائی گئ جس نے یقیناً موجودہ حکومت اور پی آئی اے انتظامیہ کے لۓ خفت کا سامان کیا-
جب بھی کوئی حکومت بدلتی ہے تو نئی حکومت سے یہ امید ہوتی ہے کہ شاید وہ کچھ ایسا کریں گے کہ پی آئی اے، ریلوے اور دیگر قومی ادرے خسارے سے نکل کر منافع بخش ادارہ بن جائیں گے لیکن واۓ رے ناکامی، کہ ”کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا“ .
برطانیہ سے عام دنوں کے علاوہ موسم گرما کی چھٹیوں میں اکثر لوگ پاکستان سفر کرتے ہیں لیکن پی آئی اے کی ڈائریکٹ فلائٹ نہ ہونے کیوجہ سے دیگر ائیر لائنز سے سفر کرنے پر مجبور ہوتے تھے جسکے لۓ بھاری کرایوں کیساتھ ساتھ کم از کم تین چار گھنٹے سفر میں زیادہ ٹائم بھی لگتا تھا اور جس ملک کی ائیرلائن کیساتھ سفر کر رہے ہوں وہاں پر جہاز تبدیل کرتے ہوۓ ایک جہاز سے اترنے اور دوسرے میں سوار ہونے کی بھاگ دوڑ کی مشقت بھی اٹھانا پڑتی تھی جو یقیناً چھوٹے بچوں، خواتین، بیماروں اور عمر رسیدہ افراد کیلۓ اضافی سفری تھکاوٹ کا سبب ہوتی ہے-
پی آئی اے کے بارے میں تمام قسم کی شکائتوں کے باوجود بہرحال یہاں یوکے اور یورپ و دیگر مغربی ممالک سے ڈائریکٹ فلائیٹس مسافروں کیلۓ ایک زبردست قسم کی سہولت ہے اور اب جب کہ یہ پروازیں بحال ہو چکی ہیں تو سب سے زیادہ پی آئی اے کو بطور ادارہ ماضی کی اپنی غلطیوں سے سیکھنا چاہئے اور کوشش ہو کہ آئندہ نہ تو انٹرنیشنل سطح پر ایوی ایشن کے اداروں کو اور نہ ہی مسافروں کو کوئی شکایت ہو اور سب سے حتمی بات پاکستان کو اگر اپنے پاٶں پر کھڑا کرنا ہے، معاشی مسائل سے نکالنا ہے اور ترقی یافتہ ملک بنانا ہے تو پھر پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر بسنے والے تمام پاکستانیوں کو بھی اپنی اپنی حیثیت میں پاکستان کی نیک نامی اور ترقی میں اپنا اپنا بھر پور کردار ادا کرنے اور حصہ ڈالنے کی ضرورت ہے اور پاکستان کے اس فضائی سفری ادارے کو ایک کامیاب ادارہ بنانا ہو گا اور وطن عزیز کو خود انحصاری اور خود کفالت کیطرف لے کر جانا ہو گا اور اس مقصد کیلئے ہر چھوٹے بڑے کو محنت، ایمانداری اور دیانتداری کو اپنا شعار بنانا ہو گا- (ختم شد)
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |