‘دانش کدہ شارجہ’ سے ابوظہبی کے ‘انٹرنیشنل بک فیئر’ تک
ہم جونہی استقبالیہ کراس کر کے بلڈنگ میں داخل ہوئے تو ہماری بائیں طرف سفید کرسسٹل کی ایک دیوار پر انگریزی کے جلی حروف میں لکھا تھا:
‘This is a Place Where Ideas are Changed into Creation.’
کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں خیالات کو تخلیق میں بدلا جاتا ہے۔ ہمارے مطالعاتی دورے کا یہ قافلہ پاکستان سے آئے ہوئے کالم نگار محمد فاروق چوہان، مصنف علامہ عبدالستار عاصم، صحافی اور ٹی وی ڈویلپر معین صمدانی اور احقر (کالم نگار روزنامہ ‘اوصاف’) پر مشتمل تھا جس کی سرپرستی ہمارے علم دوست سرمد خان کر رہے تھے۔ ہم آگے بڑھے تو ہمارا استقبال ایک مصری خاتون آشا نور نے کیا جو ہمیں ایک میٹنگ روم میں لے گئیں، تعارف کے بعد انہوں نے ‘دانش کدہ’ (Wisdom House) کی تفصیل بتاتے ہوئے ریاست شارجہ میں کاروباری کمپنی اسٹیبلش کرنے کے طریقہ کار کی وضاحت کی۔ متحدہ عرب امارات میں علم اور کتاب کو فروغ دینے کے لئے پورا ایک شہر بسایا گیا ہے، اس شہر کا نام ‘شارجہ پبلشنگ سٹی فری زون’ Sharjah Publishing City Free Zone ہے۔ گفتگو کے دوران اس خاتون افسر نے شکائت کی کہ ان کے پاس پاکستانی پبلشرز نہیں آتے۔ جب ہم کتابوں کے فروغ کے انچارج مسٹر موہن کے پاس پہنچے تو انہوں نے بھی یہی شکائت کی کہ گزشتہ کئ سالوں سے شارجہ بک فیئر میں پاکستانی پبلشرز کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔
شارجہ کا کتاب میلہ گزشہ 39 سالوں سے بلا ناغہ منعقد ہو رہا ہے، جس کا آغاز سنہ 1982ء میں ہوا تھا۔ یہ بین الاقوامی کتاب میلہ ‘محکمۂ ثقافت و اطلاعات شارجہ’ کی زیر نگرانی منعقد ہوتا ہے، جو شارجہ کے حکمران عزت مآب شیخ سلطان بن محمد القاسمی کی کتاب دوستی اور علم پروری کی قابل فخر مثال ہے۔ حاکم شارجہ خود بھی تصنیف و تالیف کی دنیا سے تعلق ركھتے ہیں اور وہ ایک اچھے صاحبِ قلم، مؤرخ اور ادیب بھی ہیں۔
اس سے قبل ہم نے شارجہ پبلک لائبریری کا وزٹ کیا تو وہاں بھی ہم نے دیکھا کہ اردو سیکشن میں ماسوائے چند غیر معروف اردو کی کتب کے باقی سارے ریک خالی پڑے تھے۔ مسٹر موہن نے شارجہ بک فیئر میں شمولیت کے طریقہ کار اور شرائط کی وضاحت کی اور بتایا کہ انہوں نے پاکستانی پبلشرز کو شارجہ بک فیئر میں شمولیت کے لئے بارہا خطوط بھیجے مگر ان کی طرف سے کوئی مثبت جواب موصول نہیں ہوا تھا۔ شارجہ بک فیئر میں دو سو سکوائر فٹ کے سٹال کی فیس صرف ساڑھے پانچ ہزار درہم ہے۔ شارجہ وزڈم ہاوس کے علاوہ شارجہ پبلک لائبریری اور متحدہ امارات کی دیگر تمام لائبریریاں کتب کی خریداری اسی بک فیئر سے کرتی ہیں جن میں شمولیت کرنے والے پبلشرز اور مصنفین کے ہر سٹال سے 15 سے 20 ہزار درہم کی کتابیں خریدی جاتی ہیں (جبکہ وہاں سٹال لگانے کا خرچہ اس کے مقابلے میں بہت کم ہے)۔ کتاب میلے میں ہر سال 2 سے 4 ملین افراد شرکت کرتے ہیں اور وہ بھی کتابوں کی خریداری میں براہ راست حصہ لیتے ہیں۔ اس سے تین روز قبل ہمیں شارجہ میں منعقدہ ‘چلڈرن بک فیئر’ میں بھی شرکت کا موقعہ ملا تھا۔ یہ تمام تفصیلات جان کر کتب بینی اور اس کے فروغ میں ہمارا اشتیاق حیرت کی حد تک بڑھ گیا۔ ہم نے شارجہ وزڈم ہاو’س میں جا بجا دیکھا کہ میزوں کے گرد طلباء و طالبات کتب بینی کر رہے تھے، ان کے سامنے لیپ ٹاپس بھی رکھے تھے جن میں وہ کتابوں سے لئے گئے نوٹس لکھتے جا رہے تھے۔ پوری بلڈنگ میں اتھاہ خاموشی یعنی Pin Drop Silence تھی۔ ایک دو بار جب میرے فون کی بیل بجی تو ہمارے میزبان سرمد خان نے مجھے سختی سے فون کو ‘سائلنٹ’ پر لگانے کے لئے کہا۔ اس کے باوجود اس عمارت میں ایک حال نما کمرہ ایسا بھی دیکھا جہاں طلباء و طالبات علم کے عملی اطلاقات کے موضوع پر خیالات کا تبادلہ کر رہے تھے، یہ نظارہ دیکھ کر احساس ہوا کہ ‘خیالات کو تخلیق کا روپ دینے میں کس قسم کی موٹیویشن درکار ہوتی ہے۔’ اس دانش کدہ کا ماحول اتنا پرسکون اور تخلیقی تھا کہ جب ہمیں بتایا گیا کہ ابوظہبی میں بھی ایک ‘کتاب میلہ’ جاری ہے تو ہم نے وہاں پہنچنے کا فوری فیصلہ کر لیا۔ اس روز ابوظہبی میں دن کو 2 بجے ہماری ملاقات پاکستانی سفیر سے بھی طے تھی۔ شارجہ سے سیدھے ہم ابوظہبی کو ہو لئے جہاں پاکستان کے سفیر جناب فیصل ریاض ترمزی نے گرم جوشی سے ہمارا استقبال کیا۔ سفیر صاحب نے امارات میں پاکستانیوں کے مسائل حل کرنے کی تفصیل سے آگاہ کیا۔ ہمیں یہ جان کر بہت خوشی ہوئ کہ سفیر صاحب نے اردو بینی اور علم و ادب کے فروغ میں گہری دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ اس موقع پر محمد فاروق چوہان صاحب نے جنگ میں شائع ہونے والے اپنے کالموں کی کتاب ‘گردش ایام’ سفیر موصوف کو پیش کی۔ ابوظہبی کے ‘نیشنل ایگزیبیشن سنٹر’ Abu Dhabi National Exhibition Centre پر انٹرنیشنل بک فیئر جاری تھا (22 سے 28 مئ) جو پاکستان کے سفارت خانہ واقع ‘ایمبیسیز ایریا’ سے صرف پانچ منٹ کی ڈرائیو پر تھا۔ ہم نے تین بجے سے لے کر چھ بجے تک کا وقت اس کتاب میلہ میں گزارا جس میں 80 سے زیادہ ممالک کے 15 سو پبلشرز، ناشرین اور مصنفین شریک تھے۔ مختلف جگہوں پر مصنفین کا لائیو تعارف اور علم کی ترویج سے متعلق بحث و مباحثے ہو رہے تھے۔ امارات کے لوکل عربی شرکاء کے علاوہ دنیا بھر سے آئے ہوئے مہمانوں سے ملنے کا موقع ملا۔ حکومت ابوظہبی کی طرف سے بک فیئر میں شرکت کے لئے معلومات فراہم کرنے کے لئے الگ سے ‘انفارمیشن سنٹرز’ لگائے گئے تھے۔ یہ کتاب میلہ گزشتہ تین سال سے بغیر کسی فیس کے منعقد ہو رہا ہے جہاں گورنمنٹ متحدہ عرب امارات مفت سٹال لگا کر دیتی ہے جہاں بیٹھنے کے لئے کرسیاں، میزین اور شیلفیں وغیرہ تک مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ آپ کو کرنا صرف یہ ہوتا ہے کہ مقررہ وقت سے پہلے بکنگ کروانی ہے اور وہ بھی بلکل ‘مفت میں’، مگر یہاں بھی یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ وہاں انڈیا کے علاوہ دیگر ترقی پزیر ممالک (80 سے زیادہ) کے بک سٹال موجود تھے، بلکہ کسی ایک ملک کے تو دو دو اور تین تین بک سٹال بھی دیکھے مگر یہاں بھی پاکستان کی نمائندگی کسی پبلشر، کتاب گھر یا مصنف نے نہیں کی۔ ہم شام ساڑھے چھ بجے تھکے ہارے ابوظہبی میں اپنے میزبانوں محمد شفیق اور طارق جاوید قریشی صاحب کے پاس پہنچے، جنہوں نے شیخ زید روڈ پر ایک ریسٹورنٹ میں پرتکلف عشایئے کا احتمام کیا ہوا تھا مگر سچی بات ہے کہ کتب بینی اور اردو کے فروغ میں حکومت پاکستان اور پبلشرز کی اس تجاہل عارفانہ غفلت کو دیکھ کر کھانے کا لطف ہرگز دوبالا نہیں ہوا!
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔