آزادی قُرآن کی رو سے

آزادی قُرآن کی رو سے

معلوم انسانی معاشرتی تاریخ کا بنیادی اور اہم ترین، معروف و پسندیدہ ترین لیکن ساتھ ہی متنازع ترین لفظ آزادی ہے۔ لفظِ آزادی (Freedom) عربی زبان کے لفظ حرّیت سے ماخوذ ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ انسان کی کہانی روزِ ازل سے آزاد رہنے کی فطری خواہش اور آزادی کے لیے جنگ ہی ہے تو یہ غلط نہ ہو گا۔ ہاں اس جنگ کے طریقہءِ کار اور مقاصد میں فکری اختلاف تو ہو سکتا ہے مگر اس کے پیچھے خواہش آزادی ہی ہے۔ اگر آپ تاریخِ انسانی کا مطالعہ کریں تو اکثر آزادی کی اسی خواہش نے انسان کو بد ترین غلامی سے بھی دوچار کیا۔

روح اور مادے کا یہ مجموعہ انسان جس کو ارادے کی ملکیت خالق نے فطرت میں ودیعت کی اور یہی ارادہ اسے آزادی پسند اور آزادی کا طلبگار بناتا ہے۔ علمِ معاشرہ کے وجود سے پہلے بھی انسان اِس بات کو تسلیم کرتا تھا کہ ایک فرد کی آزادی کسی دوسرے فرد یا افراد کی اجتماعی آزادی کو سلب نہ کرے۔ لہٰذا معلوم انسانی تاریخ میں ایسے قوانین موجود رہے ہیں جو اجتماعی آزادی کا تحفظ کرتے ہیں۔ آسان الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک انسان دوسرے انسان کی آزادی میں دخیل نہ ہو۔ اور اس کے لیے اُسے اپنی آزادی کو ایک حد تک محدود کرنا پڑے گا۔ یعنی اُسے خود کو معاشرتی قوانین کا تابع کرنا پڑے گا۔ یہی وہ سلیقہ ہے کہ جس سے معاشرے میں نظم و ضبط اور امن و سکون پیدا ہو سکتا ہے۔

جب سے معاشرتی انسانی زندگی کا آغاز ہوا تب سے انسان نے جانا کہ مکمل آزادی محض ایک خیالِ خام ہے۔ کیونکہ جتنی آزادی وہ خود اپنے لیے چاہتا ہے اتنی ہی آزادی کا حق دیگر افرادِ معاشرہ کے لیے بھی محفوظ رہنا چاہیے۔ پس اجتماعی آزادی کے لیے انفرادی آزادی کو از بس محدود کرنا لازم ٹھہرے گا۔

اس کی وضاحت کے لیے مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ فرد گاڑی خریدنے کی استطاعت رکھتا ہے تو جس معیار، رنگ اور شکل و صورت کی چاہے خریدنے کی اُسے آزادی ہے مگر اُسے سڑک پر چلانے کے لیے وہ ٹریفک قوانین کا پابند ہو گا تا کہ دیگر افراد کی زندگی کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو ۔

جدید مغربی طرزِ فکر نے آزادی کی ایسی حدیں مقرر کرنے کی کوشش کی کہ جن میں رہتے ہوئے معاشرے کے ہر فرد کو ممکن حد تک آزادی مل سکے۔ اس کی ایک مثال یہ دی جا سکتی ہے کہ شراب پینے کی آزادی یا مرد و خواتین کو خواہشاتِ نفسانی کی تکمیل کے لیے ملنے کی آزادی دے دی گئی مگر حد یہ مقرر کر دی گئی کہ شرابی کا نشہ دیگر افراد معاشرہ کے لیے باعثِ خطر نہ ہو اور مرد و عورت کا اختلاط باہمی رضا مندی سے اور سرِ عام نہ ہو۔ اور اس آزادی کا نتیجہ آج دنیا کے سامنے ہے اور نقصان دہ ہونے کے باوجود امریکا جیسی سپر پاور عدالتی فیصلے کے باوجود شراب پر پابندی لگانے میں ناکام رہی۔ اسی مادر پدر آزاد آزادی کی وجہ سے یورپی معاشرہ اپنی آزادی کا غلام بن کر رہ گیا ہے ۔ اظہارِ رائے کی آزادی کی آڑ میں دیگر افرادِ معاشرہ کی دل آزاری کرتے ہیں۔ دوسروں کے مقدسات کی توہین کرنے کو اپنی آزادی تصور کرتے ہیں اور مقدس کتابوں کو جلا کر اپنی آزادی کا اعلان کرتے ہیں اور حکومتیں بے بس ہیں، اُنہیں یہ سمجھانے سے قاصر ہیں کہ اس طرح تم دوسروں کی آزادی سلب کر رہے ہو

آزادی قُرآن کی رو سے
Image by Tayeb MEZAHDIA from Pixabay

اب آئیے دیکھتے ہیں کہ قُرآن نے آزادی کا کیا تصور پیش کیا۔ دورِ جاہلیت کے درمیانی عرصہ میں انسانیت آزادی کے نام پر بدترین غلامی میں گرفتار ہو چکی تھی۔ اسلام بنیادی طور پر آزادی ہی کی تحریک بن کر اُبھرا تھا۔ اور اسلام نے آزادی کو نئی جہت اور نئے معنی دیئے۔ اسلام نے تو دین یا مذہب کے اختیار میں بھی مکمل آزادی دے دی چنانچہ سورۃ الدھر کی تیسری آیت میں ارشاد ہوا کہ

 اٍنَّا ھَدَيْنٰهُ  السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّ اِمَّا كَفُوْرًا *

الدھر

ہم نے انسان کو راستے کی ہدایت کر دی خواہ شکر گزار بنے یا انکار کر دے

حق کا درست اور سیدھا راستہ دکھانا اللہ کی ذمہ داری ہے سو اُس نے ہر زمانے اور دور میں یہ ذمہ داری انبیاء و صالحین کے ذریعے پوری کی اور پھر فرد کے اختیار میں آزادی دے دی

اسی بات کی مزید وضاحت سورۃ البقرہ کی آیت 256 میں ہوتی ہے ارشاد فرمایا

لَا اِكْرَاهَ فِیْ الدِّيْنِ ط قَدْتَّبَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ج وَمَنْ يَكْفُرْ بِاالطَّاغُوْتِ وَ يُؤْمِنْ بِااللّٰهِ فَقَدِاسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الوُثْقیٰ لَاانْفِصَامَ لَھَا ط وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ *

البقرہ

دین میں کوئی جبر یا زبردستی نہیں ہے۔ یقینی طور پر ہدایت اور ضلالت و گمراہی میں فرق واضح کر دیا گیا ہے۔ پس جو طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر پُختہ ایمان لے آئے پس بے شک اُس نے نہ ٹوٹنے والا مضبوط سہارا تھام ہے اور اللہ خوب سننے اور جاننے والا ہے۔

اکثر لوگ اس آیت کے پہلے ٹکڑے کو پکڑ کر کہہ دیتے ہیں کہ جی دین میں تو کوئی جبر نہیں، جی ہاں یقیناً دین اختیار کرنے میں واقعی جبر نہیں لیکن اگر سوچ سمجھ کر اختیار کر لیا ہے تو پھر قوانین کے اطلاق میں تو بہر صورت پابندی ہے۔ قوانین پر عمل تو کرنا پڑے گا

اسلام کے قُرآنی معاشرے میں حقِ حریت کا اطلاق مطلق آزادی پر ہوتا ہے۔۔ جیسا کہ ایمان و عقیدے کی آزادی، مذہب کی آزادی، غور و فکر اور اظہارِ رائے کی آزادی، کام کاج رہائش اور کاروبار کی آزادی، سیاسی و سماجی ، اختیارِ شہریت یہاں تک کہ انسان کی انسانیت کو بھی آزادی کا مرہونِ منت قرار دیا گیا ہے۔ البتہ اسلام تصور آزادی کو حقوق و فرائض کے توازن سے عملی جامہ پہناتا ہے۔ جہاں فرد کے حقوق ہیں وہاں اس کے فرائض بھی ہیں۔ فرائض کی ادائیگی پر حقوق نہ ملیں یا حقوق کی طلب تو ہو مگر فرائض کی ادائیگی سے اجتناب ہو تو معاشرہ عدم توازن کا شکار ہو جائے گا۔ پس ہر دور میں انسانی معاشرے کو اپنے انبیاء علیہم السلام کے ذریعے تعلیم کا بندوبست کرتا رہا ہے مگر عمل کے لیے آزادی دیتا ہے۔ سورۃ الغاشیة کی آیا ت 21 اور 22 میں اپنے نبی ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ

فَذَكِّر اِنَّمَا اَنْتَ مُذَكِّرٌ * لَسْتَ عَلَيْھِمْ بِمُصَيْطِرٍ *

الغاشیة

پس آپ کا کام نصیحت کرتے رہنا ہے۔ آپ کو اِن پر مسلط نہیں کیا گیا۔

سورۃ یونس کی آیت 99 میں اپنی طاقت و قدرت کے باوجود فرمایا کہ اگر اللہ چاہتا تو سب کو مومن بنا دیتا مگر جبری مومن نہیں بلکہ آزاد مومن اللہ کی پسند ہے اللہ نے آزادی دے کر کامیابی یا ناکامی کے چناؤ کو بندے کے اختیار میں دے دیا ارشاد ہوا کہ

وَلَوْا شَأَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فَیْ الاَرْضِ كُلُّھُمْ جَمِيْعاً ط اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتّٰی يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ *

یونس

اگر آپ کا پروردگار چاہتا تو تمام اہلِ زمین ایمان لے آتے۔ پھر کیا آپ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کر سکتے ہیں؟

بلکہ اللہ تعالیٰ تو سورۃ بنی اسرائیل کی 70 ویں آیت میں یوں ارشاد فرما رہا ہے کہ

 وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْ أٰدَمَ  وَحَمَلْنٰھُمْ  فَیْ البَرِّ وَالبَحْرِ وَرَزَقْنٰھُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰھُمْ عَلٰی كَثِيْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلاً *

بنی اسرائیل

اور تحقیق، ہم نے بنی آدم کو عزت و تکریم سے نوازا۔ اور ہم نے انہیں خشکی اور تری میں سواری دی۔ اور اُنہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر انہیں برتری دی

اب تک آپ پر یہ بات واضح ہو چکی ہو گی کہ اسلام جو اصلاً  تحریکِ آزادی کی صورت اُٹھا تھا اُس نے عملاً بھی اسے ثابت کیا۔ دیگر ادیان و مذاہب آزادی کے نام پر بلاتے رہے اور غلامی پر منتج ہوئے مگر اسلام کی دعوتِ آزادی دیگر مذاہب سے یُوں مُختلف تھی کہ اس نے انسانوں کو ایک خُدا کی غلامی کی دعوت دے کر مکمل آزادی کا یقین دلایا لہٰذا سورۃ آل عمران کی 64 ویں آیت میں دیگر ادیان کے پیروکاروں کو پیغام دیا کہ

قُلْ يَااَھْلَ الكِتَابِ تَعَالَوْا اِلٰی كَلِمَةٍ سَوَاءٍ  بَيْنَنَا وَ بَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدُ اِلَّااللّٰهَ وَلَا نُشْرِكُ بِهٖ شَيْعاً وَّلَا يَتَّخِذُ بَعْضُنَا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰه ط فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوْا اشْھَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ *

آل عمران

اے میرے رسول ﷺ ان سے کہہ دیجیے کہ اے اہلِ کتاب اس ایک کلمے کی طرف آ جاؤ جو تمہارے اور ہمارے درمیان مشترک ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔ اور اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اللہ کے سوا آپس میں کسی کو ایک دوسرے کا رب نہ بنائیں۔ پس اگر نہ مانیں تو کہہ دیجیے کہ گواہ رہو ہم تو مسلم ہی ہیں۔،

آپ نے محسوس کیا کہ قُرآن انسان کو خُدائے واحد کی غلامی کی طرف دعوت دے کر دراصل ہر طرح کی نامناسب پابندیوں سے آزاد کر دینا چاہتا ہے، اس حوالے سے پیچھے توحید کے باب میں تفصیل کے ساتھ لکھ چکا ہوں۔ اسلام انسانیت اور اس کی آزادی کی کچھ بنیادی حدیں مقرر کرتا ہے۔ جن میں بنیادی نفسانی خواہشات و حرص اور شہوتوں کی غلامی سے بچنے کی ترغیب دیتے ہوئے سورۃ آل عمران کی آیات 14 اور 15 میں بیان فرماتے ہوئے ارشاد ہوا کہ

زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوَاتِ مِنَ النِّسآءِ وَالْبَنِيْنَ وَالْقَنَاطِيْرِ المُنْطَرَةِ مِنَ الذَھَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ط ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَاللّٰهُ عِنْدَه، حُسْنُ المَآب ِ *

آل عمران

دنیا میں لوگوں کو اُن کی مرغوب چیزیں بیویاں، بیٹے، سونے چاندی کے ڈھیر، اعلیٰ نسلوں کے گھوڑے، مویشی اور کھیتی بھلی معلوم ہوتی ہے۔ یہ سب تو چند روزہ دنیاوی فائدے ہیں اور بہترین ابدی ٹھکانہ تو اللہ کے ہاں ہی ہے۔

قُلْ اَؤُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرٍمِّنْ ذٰلكُمْ ط لِلَّذِيْنَ التَّقَوْا عِنْدَ رَبِّھِمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تحْتِھِمُ الاَنْھَارُخٰلِدِيْنَ فِيْھَا وَاَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَةٌ وَ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ ط وَاللّٰهُ بَصِيْرٌ بِالْعِبَادِ *

آل عمران

اے رسول ﷺ ان سے کہہ دیجیے کہ کیا میں تمہیں ان سب چیزوں سے بہتر چیز بتا دوں؟ تو پھر سنو! جن لوگوں نے پرہیزگاری اختیار کی اُن کے لیے پروردگار کے ہاں بہشت کے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اور وہ ہمیشہ اُس میں رہیں گے۔ اور اُن کے لیے صاف ستھری بیویاں ہیں اور سب سے بڑھ کر اللہ کی خوشنودی ہے اور اللہ اپنے بندوں کو دیکھ رہا ہے۔

میں اس سے پہلے صفحات پر لکھ چکا ہوں اور پھر اُس کا اعادہ کرتا ہوں کہ دینِ الٰہی کا بنیادی ترین مرکز و محور توحید ہے۔ انسانی معاشرتی زندگی کے درخت کی مرکزی جڑ عقیدہءِ توحید ہے۔ جب اللہ کے وجود کا یقین ہو جاتا ہے تو پھر اُس کے قُرب کی خواہش جنم لیتی ہے۔ مندرجہ بالا آیات میں یہی باور کروانے کی کوشش کی گئی ہے کہ دیکھو عارضی طاقت ملنے کے بعد ان تمام عارضی و فانی پرکشش چیزوں کی تمنا میں نہ پڑ جانا۔ اور دوسرے لوگوں کے حقوق کو غصب کر کے اپنی خواہشات کی تکمیل میں نہ پڑ جانا ۔ بلکہ طاقت و حکومت ملنے کی صورت میں دوسروں کے حقوق کا تحفظ کرنا۔ اگر تم نے پرہیزگاری یعنی اللہ کے حرام سے اجتناب اور اللہ کے کیئے گئے حلال کو حلال جانا ، قوانینِ شریعت کی پابندی کی تو پھر یہ سب کچھ اس سے کہیں بہتر انداز میں اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تمہیں میسر ہو گا۔ اور سب سے بڑا انعام یہ کہ تمہیں اپنے پروردگار کی رضا و خوشنودی حاصل ہو گی پس اس بات کا یقین کر لو کہ اللہ کے کیمرے کی آنکھ تمہیں بہرصورت دیکھ رہی ہے۔

یہ ہوس، حرص اور لالچ ہی ہے جس کی غلامی فرد کو دوسروں کی آزادی سلب کر کے طاقتور بننے کی ترغیب دیتی ہے، انسان عدل کو چھوڑ کر ظلم پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ اور معاشروں، ملکوں اور قوموں کو غلام بنا لیا جاتا ہے۔ پس ہر فرد اگر ایسا درخت بن جائے کہ جس کی جڑیں توحید و عدل و نبوت سے مضبوط ہوں قیامت اور جوابدہی کا یقین ہو تو پودے کا تنا یقیناً مضبوط اور طاقتور ہو گا۔ عبادات کی شاخیں ثمر بار ہوں گی اور معاشرہ مثلِ جنت ہو گا۔ لہٰذا خود کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی غلامی میں دیجیے مطلق آزادی کا حصول یقینی ہو جائے گا

سید مونس رضا کی زیرِ تکمیل کتاب (فرد، ریاست اور سیاست قُرآن کی رو سے) سے اقتباس۔ اس مضمون یا اس کے کسی حصے کو بلا حوالہ نقل کرنا قانونا جرم ہے ۔ اس کی وضاحت و تفصیل ہمارے صفحہ شرائط استعمال پر موجود ہے۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

انجمن نوجوانان الفلاح کی تقریب یوم آزادی

پیر اگست 14 , 2023
انجمن نوجوانان الفلاح کے زیر اہتمام یوم آزادی کی تقریب مرکز اسلام کے نورانی ہال میں اختتام پذیر ہو گئی
انجمن نوجوانان الفلاح کی تقریب یوم آزادی

مزید دلچسپ تحریریں