مفت بجلی کی فراہمی، ملک کی تباہی

مفت بجلی کی فراہمی، ملک کی تباہی

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی٭

مملک خداداد پاکستان میں بعض اداروں کو مفت بجلی فراہم کرکے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچایا جارہا ہے جو کہ غربت اور مہنگائی کی چکی میں پسی ہوئی عوام کے ساتھ امتیازی سلوک کے مترادف ہے۔ وزارت توانائی کے تحت پبلک اور کارپوریٹ سیکٹر کے ملازمین کو سالانہ اربوں روپے کی مفت بجلی فراہم کیے جانے کا انکشاف ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان کی معیشت سنگین بحرانوں کا شکار ہے۔ قومی اسمبلی میں پیش کی گئی دستاویزات کے مطابق دو لاکھ ملازمین کو 44 کروڑ 15 لاکھ یونٹ سالانہ مفت بجلی فراہم کی گئی  جس میں حاضر سروس ملازمین کو 30 کروڑ 82 لاکھ اور ریٹائرڈ ملازمین کو 13 کروڑ 32 لاکھ یونٹس دیے گئے۔

پاکستان میں توانائی کے شعبے کا آغاز قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہوا تھا۔ واپڈا (واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی) 1958 میں قائم کی گئی تاکہ ملک میں پانی اور بجلی کے وسائل کو ترقی دی جا سکے۔ اگرچہ ابتدائی طور پر یہ ادارہ قومی ترقی میں ایک اہم ستون کے طور پر ابھرا  لیکن وقت کے ساتھ ساتھ انتظامی نااہلی، بدعنوانی ور غیر ضروری مراعات کے باعث یہ ادارہ مالی مسائل کا شکار ہو گیا۔

توانائی کے شعبے میں ملازمین کو مفت بجلی فراہم کرنے کی روایت کئی دہائیوں پرانی ہے جس سے عام آدمی پر مہنگی بجلی کا بوجھ پڑا۔ یہ مراعات ابتدا میں محدود پیمانے پر دی جاتی تھیں  لیکن وقت کے ساتھ ان کا دائرہ کار بڑھتا چلا گیا۔ 2023 کی رپورٹ کے مطابق سرکاری سطح پر سب سے زیادہ بجلی کا استعمال ہوتا ہے اور دفاتر میں ایئر کنڈیشنرز اور دیگر آلات کا غیر ضروری استعمال عام ہے۔ یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ توانائی کے وسائل کے ضیاع کو روکنے کے لیے کوئی مؤثر حکمت عملی موجود نہیں۔

پاکستان اس وقت مہنگی بجلی پیدا کر رہا ہے  اور اس کا بوجھ عام صارفین پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ کم آمدنی والے افراد اور متوسط طبقے کے لیے بجلی کے بھاری بل ادا کرنا ایک مشکل امر بن چکا ہے۔ اس کے برعکس  توانائی کے شعبے کے ملازمین کو مفت بجلی کی فراہمی معاشی اور اخلاقی دونوں لحاظ سے قابلِ مذمت اور غریب آدمی کے ساتھ  امتیازی  سلوک کے زمرے میں آتا ہے۔

پاور سیکٹر کے گردشی قرضے ملکی معیشت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔ گردشی قرضے وہ رقم ہے جو حکومت کو بجلی کی پیداوار اور ترسیل کے لیے ادا کرنی ہوتی ہے لیکن یہ صارفین سے وصول نہیں کی جا سکتی۔ اس کے اسباب میں بجلی چوری، لائن لاسز  اور مفت بجلی کی فراہمی شامل ہیں۔

پاکستان میں بجلی چوری ایک خطرناک  مسئلہ کے طور پر ہمارے سامنے ہے  جو لاکھوں روپے سے بڑھ کر اربوں روپے تک پہنچ چکا ہے۔ماضی میں  اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے متعدد منصوبے بنائے گئے لیکن یہ منصوبے  زیادہ تر ناکام رہے۔ بجلی چوری اور لائن لاسز کا بوجھ عام صارفین پر ڈال دیا جاتا ہے جس سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے۔

توانائی کے شعبے کے ملازمین کو مفت بجلی کی فراہمی معاشرتی ناہمواری کو فروغ دیتی ہے۔ ایک طرف  غریب عوام کی اکثریت مہنگی بجلی کے بل ادا کرنے پر مجبور ہیں  تو دوسری طرف مخصوص طبقے کو بلا معاوضہ سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ یہ صورتحال معاشرتی تقسیم کو بڑھا رہی ہے اور عوام میں عدم اطمینان پیدا کر رہی ہے۔

پاکستان کو توانائی کے شعبے میں فوری اور مؤثر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ توانائی کے شعبے کے ملازمین کو مفت بجلی کی فراہمی بند کی جائے اور ان سے بھی عام صارفین کی طرح بل وصول کیا جائے۔بجلی چوری کو روکنے کے لیے سخت قوانین نافذ کیے جائیں اور ان پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔گردشی قرضوں کو کم کرنے کے لیے مؤثر حکمت عملی اپنائی جائے  جس میں بجلی کی قیمتوں کا تعین حقیقی بنیادوں پر کیا جائے۔عوام میں بجلی کے ضیاع کے حوالے سے شعور بیدار کیا جائے اور توانائی کے مؤثر استعمال کی ترغیب دی جائے۔

توانائی کے شعبے میں مفت بجلی کی فراہمی اور دیگر مراعات کا خاتمہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ مسئلہ نہ صرف ملکی معیشت پر بوجھ ڈال رہا ہے بلکہ عوام میں بے چینی اور عدم مساوات کو بھی فروغ دے رہا ہے۔ اگر حکومت اور متعلقہ ادارے سنجیدگی سے واپڈا کے نظام میں  اصلاحات نافذ کریں تو یہ ممکن ہے کہ توانائی کے شعبے کو مالی طور پر مستحکم کیا جا سکے گا  اور عوام کو ریلیف فراہم کیا جا سکے گا۔

Title Image by Susana Cipriano from Pixabay

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کیا      آپ      بھی      لکھاری      ہیں؟

اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

[email protected]

مزید دلچسپ تحریریں