تحریر : شہزاد حسین بھٹی
کالم : دُرریز
میں ان ہزاروں لوگوں میں سے ایک ہوں جنہوں نے اپنے بچپن میں عمران خان کو آئیڈیل لائز کیا اور عمران خان کے 1992 کے کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے کے بعد شوکت خانم کی تعمیر کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی مہم میں پیش پیش رہا. اس بائیس سالہ جدو جہد کے بعد الیکشن میں ووٹ بھی دیا، سپورٹ بھی اور قائد اعظم ثانی کا خطاب بھی. عمران خان کی نیت پر شک نہیں اگرچہ اسے یہودی لابی کا ایجنٹ بھی کہا جاتا رہا. پیر پنجر کی 25 سال قبل کی جانے والی یہ پیشن گوئی تو درست ثابت ہوگئی کہ عمران خان کو یہودی لابی اقتدار میں لائے گی جبکہ عمران خان پاکستان کو ریاست مدینہ کا ماڈل بنانے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں.
دوسری جانب اپوزیشن حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہے، جس میں بظاہر وہ ناکام دیکھائی دیتی ہے کیونکہ چالیس سالہ سابقہ دور حکومت میں ہر سیاست دان نے اپنا حصہ بطور جثہ وصول کیا ہے. ملک اور معاشیات ٹھیک کرنا اتنا آسان کام نہیں اس کے لیے طویل مدتی پالیسیاں بنا کر ان پر عمل درآمد کرنا، عوام کو بھوک اور مہنگائی سے بچانا، قوت خرید کو آسان بنانا ہوتا ہے تاکہ غریب آدمی عزت نفس کے ساتھ دو وقت کی روٹی کما سکے. غیر ملکی قرضوں کےبوجھ سے نجات کے لیے ملکی زرعی و صنعتی پیداوار کو بڑھانا، درآمدات کو کم اور برآمدات کو بڑھانا ضروری ہے تاکہ ملکی آمدن میں اضافہ ہو سکے.
حکومتی پالیسیوں کے تسلسل کے لیے وزراء، وزراء اعلٰی کے ساتھ ساتھ بیوروکریسی کی دلچسپی اور کام کرنے کی نیت اشد ضروری ہے. اس وقت وزراء اور وزراء اعلٰی کے ساتھ ساتھ بیوروکریسی بھی نکمی اور کرپٹ ہو چکی ہے. کوئی اپنا کام احسن طریقے سے انجام دینے کو تیار نہیں. ابھی گذشتہ ہفتے لاہور نجی دورے پر جانے کا اتفاق ہوا. ذہن میں شکریہ عمران خان کے بورڈ ہر طرف آویزاں دیکھائی دے رہے تھے کہ تبدیلی اپنا اثر افروز کر چکی ہو گی؟ صفائی شہباز شریف کا منہ چڑا رہی ہو گی؟ ماحول پر سکون اور ٹریفک خراما خرام چل رہی ہو گی. لیکن یہ خواب اس وقت ٹوٹ کر بکھر گیا جب گندگی کے ڈھیر کو ایسے دیکھا جیسے یار کو میں نے جا بجا دیکھا. شاہی قلعے کی بات کروں تو شاہی قلعے کے اطراف گندگی کے ڈھیر، بادشاہی مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے گیا تو وضو خانے میں زنگ زدہ آلودہ پانی سے وضو کرنا پڑا،مسجد کے ارد گرد کہیں کوئی صفائی والا عملہ دیکھائی نہ دیا.
مینار پاکستان کی سیڑھیاں چڑھنے کی بچپن سے خواہش تھی کہ بلندی سے لاہور کیسا دیکھائی دیتا ہو گا لیکن یہ خواہش اس وقت دم توڑ گئی جب مینار پاکستان کے ارد گرد قلعہ نما دیوار، خار دار تار اور بھاری تالوں نے استقبال کیا. کسی سیانے سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ مینار تو 2010 سے بند ہے کیونکہ ایک تو دہشت گردی کا خطرہ تھا دوسرا لوگ اس پر چڑھ کر خود کشیاں کرتے تھے. واللہ عالم. ایک اور شخص نے بتایا کہ مینار پاکستان دلدلی زمین کی وجہ سے ایک جانب جھک رہا ہے شاید اس لیے کسی حادثے سے بچنے کے لیے بند کر دیا گیا. وجہ کوئی بھی ہو، دہشت گردی ہو، خودکشیاں یا اپوزیشن کے جلسوں کے پروگراموں کو سبوتاژ کرنا، ایسی تاریخی عمارات کو بند کر کے ہم کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ ہم اپنے بچوں کو کیا بتائیں کہ یہ جگہ کیوں بند ہے؟ سوچییے.
تبدیلی اگر دیکھائی دی تو یہ کہ شاہی قلعہ لاہور میں عام آدمی کی گاڑی تو اندر نہیں جا سکتی لیکن اشرافیہ کی گاڑیاں قلعے میں دندناتی پھر رہی تھیں. قلعے کے اندر شیش محل کی الگ سے ٹکٹ لگی ہوئی تھی جو کبھی تفریح کے لیے مفت تھا البتہ چاول پر نام لکھنے والے جابجا موجود تھے. شالیمار باغ جانے کے لیے لکشمی چوک سے اورنج لائن ٹرین کا انتخاب کیا. بلاشبہ مسافروں کی سفری سہولیات میں نمایاں اضافہ محسوس ہوا. شکریہ شہباز شریف دل سے نکلا. شالیمار سٹاپ پر اتر کر سڑک کے بائیں چلتے ہوئے شالیمار باغ کے مرکزی دروازے کی طرف بڑھنا شروع کیا. فٹ پاتھ پر تعمیراتی کام ہو رہا تھا اور ریڑھی بان بیچ سڑک اپنی دکان چمکائے ٹریفک کے لیے شدید پریشانی کا باعث بن رہے تھے. اگر نہیں دیکھائی دی تو وہ ضلعی انتظامیہ تھی جو نہ جانے کون سے بند کمروں میں موجود تھی. شالیمار باغ کی حالت بھی گونا گوں کسمپرسی کی منہ بولتی تصویر اپنے شاندار ماضی کا نوحہ کرتی دیکھائی دی. خوبصورت فوارے بند پڑے تھے. گندگی اور جابجا خود رو گھاس آپنی بے بسی اور لاچاری بزدار حکومت کے سر ڈال رہی تھی.
شالیمار باغ، شاہی قلعہ، مینار پاکستان، بادشاہی مسجد اور علامہ اقبال کے مزار عظیم قومی ورثہ ہے جو ہمارے بچوں کو ہمارے اسلاف کے شاندار ماضی کی یاد دلاتا ہے. اس کا تحفظ وقت کی اشد ضرورت ہے. لاہور کے دورے کے دوران مجھے شہباز شریف کی لاہور میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے محنت شاقہ کے تذکرے جابجا سننے کو ملے کہ وہ کیسے رات 2 بجے بھی موٹر سائیکل پر ترقیاتی کاموں کی سائٹ پر پہنچ جاتے تھے. کیا عثمان بزدار بھی کبھی شہباز شریف بن پائیں گے؟ سفر لاہور کے بعد ایک ہی صدا میرے کانوں میں گونج رہی ہے کہ کیا قابلیت دیکھ کر عثمان بزدار کو وزیر اعلٰی بنایا گیا؟ عمران خان اب بھی وقت ہے ایک یو ٹرن اور لے لو اور پنجاب کے تیرہ کروڑ عوام کو گم سم عذاب سے نکالو. ابھی بھی دیر نہیں ہوئی یہ سب لے ڈبیں گے اس ملک کی ترقی اور ریاست مدینہ کے ماڈل کو. ہوش کے ناخن لو.
آج لاہور شہر کے مکین شھباز شریف اور عثمان بزدار حکومت کا موازنہ کرتے دکھاۓ دیتے ہیں تو ان کی توپوں کا رخ عمران خان کی طرف ہوتا ھے کہ کیسا نااھل شخص شھباز شریف کے مقابل کھڑا کیا جس نے لاہور کو کراچی بنانے کا تہیہ کر لیا ھے. صفائی کا ناقص نظام بزداری پسماندگی کا عملی مظاہرہ جابجا دکھائی دینا اس بات کی علامت ھے کہ لاھور کو کسی اہل قیادت کی اشد ضرورت ھے بصورت دیگر اس کا نقصان پی ٹی آئی کو ہی پہنچے گا بلکہ کہا جاۓ کہ پہنچ چکا ھے غلط نہ ہو گا. آواز خلق نقارہ خدا ھے عوام نے جس تبدیلی کے نام پر ووٹ دیے تھے وہ ہر طرف دم توڑ چکی ھے صرف تقریروں سے ہی حکومتیں نہیں چلتی بلکہ عوام کو عملی تبدیلی کے ثبوت دینے ہونگے وگرنہ اب سوشل میڈیا کے اس دور میں عوام باشعور ہو چکے ہیں ان کو زیادہ دیر بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا. بقول شاعر
,, خوشبو آ نہیں سکتی کاغذ کے پھولوں سے ,,
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔