پنجابی رسالہ ’’پھلواڑی‘‘
تبصرہ نگار:۔ سید حبدار قائم
پنجابی زبان و ادب کی ترویج میں جن علمی و ادبی کوششوں نے خاموش مگر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں، ان میں پروفیسر محمد عثمان صدیقی کی ادارت میں چھپنے والا پنجابی رسالہ ’’پھلواڑی‘‘ ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ یہ رسالہ محض ادبی تخلیقات کی اشاعت تک محدود نہیں بلکہ پنجابی تہذیب، لسانی شعور اور فکری روایت کی بازیافت کا ایک بامقصد پلیٹ فارم ہے۔
’’پھلواڑی‘‘ کے مندرجات میں شاعری، افسانہ، تنقید، تحقیق، لوک ادب اور لسانیات جیسے متنوع موضوعات شامل ہوتے ہیں، جو پنجابی ادب کے ہمہ جہتی مزاج کی عکاسی کرتے ہیں۔ رسالے کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں کلاسیکی پنجابی روایت اور جدید فکری رجحانات کے درمیان ایک بامعنی مکالمہ قائم کیا گیا ہے۔ بلھے شاہ، وارث شاہ اور شاہ حسین کی فکری روح جدید عہد کے مسائل سے ہم آہنگ دکھائی دیتی ہے۔
پروفیسر عثمان صدیقی کی ادارت کا سب سے بڑا وصف علمی دیانت، فکری توازن اور ادبی معیار ہے۔ وہ نہ صرف نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں بلکہ تحریروں کے انتخاب میں فنی پختگی اور فکری گہرائی کو مقدم رکھتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ’’پھلواڑی‘‘ ایک ایسا رسالہ بن کر ابھرا ہے جس پر قارئین اور محققین دونوں اعتماد کرتے ہیں۔
لسانی سطح پر رسالہ پنجابی زبان کے خالص، شستہ اور بامعنی استعمال کی عمدہ مثال پیش کرتا ہے۔ مختلف لہجوں اور علاقائی رنگوں کو سمو کر ’’پھلواڑی‘‘ پنجابی زبان کی وسعت اور لچک کو نمایاں کرتا ہے، جو اس کی ایک اور نمایاں خوبی ہے۔
مختصراً، ’’پھلواڑی‘‘ پنجابی ادب کا ایک سنجیدہ، معتبر اور فکری طور پر زرخیز رسالہ ہے۔ پروفیسر عثمان صدیقی کی علمی بصیرت اور ادبی وابستگی نے اسے محض ایک ادبی جریدہ نہیں بلکہ پنجابی زبان و ثقافت کی ایک توانا علامت بنا دیا ہے۔ پنجابی ادب کے سنجیدہ قاری اور محقق کے لیے ’’پھلواڑی‘‘ ایک ناگزیر حوالہ ہے۔
آئیے اس پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں:۔
ڈاکٹر شوکت محمود شوکت حمد میں اپنی فکری عفت کا یوں اظہار کرتے ہیں:۔
میری سوچ دا محور تو ایں
میرا ہادی، رہبر تو ایں
چار چفیرے تو ایں مالک
ہر منظر دا، مظہر تو ایں
پروفیسر افشین ببراس اپنی نعتیہ نظم میں عشقِ رسول صلى الله عليه واله وسلم کا اظہار یوں کرتی ہیں :۔
کل جہاں کنوں او شہر ہے مٹھا
اے موت تو نہ آ حالی مدینہ نمی ڈٹھا
چہرہ ہا ایویں روشن شرماوے ماہتاب
زلفاں میرے نبیؐ دیاں ہُن جیویں کالی گھٹا
ہمارے اٹک کے محقق ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد کا کلام خوشبوئیں بکھیرتا ہوا یوں آنکھوں کی ٹھنڈک بنتا ہے ملاحظہ کیجیے:۔
اساں غم دے چرخے ڈاہے
اساں دکھ دی کتی پونی
اساں روندیاں عمر لنگھائی
اساں سکھنی بیری جھوٹی
نی اسیں ہوئے پیار دے روگی
پروفیسر یاسر ندیم اپنی نظم میں خوبصورت ردیف کے ساتھ یوں لکھتے ہیں:۔
ساڈی بیڑی بننے لا بیبا
ساڈے ڈبدے لیکھ ترا بیبا
اساں منگدے منگدے رل گئے آں
ساڈی جھولی چ کج تاں پا بیبیا
اقبال زرقاش لکھتے ہیں
تیں سنگ دل دے نال سنگ کر کے اساں اپنا آپ گوا بیٹھے
اینا ہسدیاں وسدیاں اکھیاں تھیں ساون دیاں جھڑیاں لا بیٹھے
پروفیسر علی بابر کنگن پور اپنی غزل میں لکھتے ہیں
رستہ روکن والیا سن لے رستہ کسے دا رکدا نئیں
جس دا رستہ روک رہیا ایں اوہ تیرے تے تُھکدا نہیں
معروف نعت گو شاعر سعادت حسن آس جو میرے استاد ہیں اپنے گیت میں درد پروتے ہوۓ سسکیوں کی تسبیح میں الفاظ ایسے جڑتے ہیں
میاں نمیاں سانواں دے وچ ماہی ہر دم وسدا
عشق نمانا نہ کچھ پچھدا نہ کچھ اپنی دسدا
دل دے آکھے لگ کے ربا ڈاھڈے درد خریدے
راتی سون نہ دیون سوچاں رڑکاں مارن دیدے
پروفیسر محمد عثمان صدیقی لکھتے ہیں
ویلے نیاں جھمیلیاں
خاہشاں نے پھلاں واں
مدھول کے رکھ چھوڑا اے
کیہ ایہہ ظلم تھوڑا ہے
ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد اپنے تحقیقی مضمون پیر ”ہاشم الدین اک بھلیا وسریا پنجابی شاعر“ میں پیر ہاشم الدین کے فن اور شخصیت پر لکھتے ہیں جس میں ان کے حالات زندگی ان کی کتابوں اور ان کی شاعری کے متعلق معلومات کو جس انداز سے بیان کیا ہے یہ ان کا ہی شیوہ ہے اشعار کے انتخاب میں مجھے تمام اشعار نے متاثر کیا ہے لیکن میں قارئین کی نذر چند سطریں کرتا ہوں
ایہناں اکھیاں رم جھم لائی ہوئی اے
جند درداں نے مار مکائی ہوئی اے
نہ رووو نمانیو اکھیو نی
وچ ہجر فراق دے اکیو نی
کدی روون توں نہ تھکیونی
درداں نے جان سکائی ہوئی اے
ایہناں اکھیاں رم جھم لائی ہوئی اے
جند درداں نے مار مکائی ہوئی اے
ڈاکٹر محمد ریاض نے ”کلمہ شریف بارے کچھ بول“ کے مضمون میں حکیم نور حسین کے بیٹے قاضی امین کے متعلق بہت تفصیل سے لکھا ہے قاضی امین بہت بڑے پنجابی شاعر تھے جنہوں نے کلمے کے اوپر بہت خوبصورت کلام لکھا ہے ان کا کلام اٹک شہر کے گاؤں گاؤں میں پڑھا جاتا ہے ہمارے گاؤں میں بھی جب ہم جنازہ اٹھاتے تھے اور گلیوں میں چلتے تھے تو گلیوں میں ایک پارٹی ان کا یہ کلام پڑھتی تھی وہ کلام میں آپ کی نذر کرتا ہوں جو ڈاکٹر محمد ریاض شاہد صاحب نے اس مضمون میں لکھے ہیں بہت پیارا کلام ہے پڑھیے اور آپ بھی اپنا ایمان تازہ کیجئے
ای کلمہ اسم خدائی اے
جس کن تھیں حلق آ پائی اے
اس کلمے دھوم مچائی اے
پڑھو لا الہ الا اللہ
جس احمد نام رکھایا اے
جس عرش تے قدم اٹھایا اے
جس امت نوں بخشایا اے
پڑھو لا الہ الا اللہ
آگے لکھتے ہیں
آیا پاک قران سناون نوں
آیا جنت طرف بلاون نوں
یا حق رستہ بتلاون نوں
کہو لا الہ الا اللہ
ایک اور جگہ پر لکھتے ہیں کہ
لکھوار ثناواں بول میاں
مونہوں وحدت کلمے رول میاں
کدی وچ میدان نہ ڈول میاں
پڑھو لا الہ الا اللہ
آگے لکھتے ہیں
اوہدی وحدت چار چفیرے اے
سوچاں تو ڈھیر گیرے اے
ایہو دل وچ تیرے میرے اے
پڑھو لا الہ الا اللہ
اس سارے مضمون میں انسان پر وجد طاری ہو جاتا ہے انسان لا الہ الا اللہ میں رب کی وحدت سے مشکبو ہو جاتا ہے لا الہ الا اللہ میں جتنے راز اللہ رب العزت نے رکھے ہیں ان سارے رازوں سے پردہ بھی اٹھتا ہے اور انسان کے دل دماغ پر ایک روحانی کیف طاری ہو جاتا ہے اس روحانی کیف میں وہ پڑھتا جاتا ہے اور مضمون آگے بڑھتا جاتا ہے پروفیسر ریاض صاحب کا یہ مضمون مجھے بہت اچھا لگا ہے اس قسم کے مضامین پنجابی ادب کا جھومر ہیں اور ایسے مضامین لکھنے والوں کو میں ہمیشہ سلام پیش کرتا ہوں ایسے ادیب ہی پنجابی کی خدمت کر رہے ہیں وہ پرانے لوگوں کا ڈھونڈ ڈھونڈ کر کلام نکالتے ہیں اور قارئین کی نظروں کے سامنے لاتے ہیں پھلواڑی رسالے کا یہ سب سے پیارا مضمون ہے جو مجھے بہت پسند آیا ہے اس مضمون کے لیے میں پروفیسر ریاض صاحب کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں
پروفیسر سید نصرت بخاری نے اٹکی بولی میں اٹکی زبان کے لفظ کا ابتدائیہ تاریخی حوالے سے لکھا ہے کہ اٹکی زبان کہنا کب شروع ہوا اور اس کے متعلق کس نے سب سے پہلے لکھا ہے وہ کہتے ہیں:۔
”” دمِ تحریر میرے مطالعہ کے مطابق سب سے پہلے ” اٹکی بولی“ کا لفظ ڈاکٹر غلام جیلانی برق کے ہاں ملتا ہے انہوں نے اس کو اس طرح برتا ملتا ہے
” آج سے چند سال پہلے مجھے کراچی جانے کا اتفاق ہوا وہاں ایک فوجی افسر ے ہاں ٹھہرا اس کا اردلی ٹیٹھ ”اٹکی زبان“ میں باتیں کرتا تھا میں نے اس سے اس کا حسب نسب پوچھا تو کہنے لگا میں ”ڈھوک گدڑاں“ کا رہنے والا ہوں““
اس سے آگے پروفیسر سعدیہ حسن نے مضمون ”پنجابی لوگ گیتاں وچ زرعی رہتل“ لکھا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ پنجاب میں کھیتی باڑی میں کون سے گیت گائے جاتے ہیں ہل چلانے کے وقت کون سے گیت گائے جاتے ہیں اور جب بیج بوتے ہیں تو تب کون سے گیت گائے جاتے ہیں برسات اور ساون کے موسم میں کون سے گیت گائے جاتے ہیں اور اس میں عورت کا کردار بھی لکھا گیا ہے اور اس مضمون کا نتیجہ بھی انہوں نے لکھا ہے کہ پنجاب کے جو گیت گائے جاتے ہیں وہ کس کس موقع پر گائے جاتے ہیں
پروفیسر یاسر ندیم صاحب نے ”موسمیاتی تبدیلی دے پاکستان تے اثرات“ پر ایک بڑا خوبصورت مضمون لکھا ہے جس میں انہوں نے بڑی تفصیل سے لکھا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں پر کون کون سے عوامل اثر انداز ہوتے ہیں اگر ان کے مضمون پر پنجاب حکومت عمل کرے تو اس میں کافی چیزیں نئی ہو سکتی ہیں اور موسمی اثرات کم ہو سکتے ہیں
پروفیسر محمد عثمان صدیقی نے لوگ دانش چھاچھی اکھانڑ لکھے ہیں جن کو پڑھ کر بہت خوشی ہوتی ہے اور ایسی چیزیں جو ہمارے نوجوانوں کو معلوم نہیں ہے ان کو بھی پتہ چلتا ہے
ڈاکٹر شوکت محمود شوکت نے پروفیسر غلام ربانی فروغ دی نظم ”چینجک“ دا فکری جائزہ میں بہت خوبصورتی سے غلام ربانی فروغ صاحب کو خراج تحسین پیش کیا ہے اور اس پر اپنا فکری جائزہ پیش کیا ہے میں ان کو اس کاوش پر مبارکباد پیش کرتا ہوں
افسانوں میں پروفیسر بشارت حسین وقار کا افسانہ ”کالی“ متاثر کن تھا جس میں معاشرے کی بے حسی اور دولت ملنے پر رشتے بدل جانے کا رویہ بہت مہارت سے لکھا ہے اور ڈاکٹر جمیل حیات صاحب نے انصاف کے موضوع پر خوب لکھا ہے ڈاکٹر جمیل حیات نے اپنے جملوں سے مزاح کو نیا رنگ دیا ہے اور انصاف پر مذاق مذاق میں گہری تنقید کی ہے جو آج کل وطنِ عزیز میں انصاف ہو رہا ہے اس کو افسانے میں نیا رنگ دے کر قاری پر گہرے نقش چھوڑے ہیں ایسے افسانے سیکھنے میں مدد دیتے ہیں اور معاشرے کے سلجھاو میں معاون ثابت ہوتے ہیں
اور اس کے بعد پروفیسر محمد عثمان صدیقی صاحب نے ”فٹ پاتھ“ پر اچھوتی تحریر رقم کی ہے کتابوں کے عشق میں پروفیسر نے فٹ پاتھ پر اس لیے زندگی گزاری کہ اس کی جیون ساتھی کتاب دوست نہیں تھی جس کی بے حسی نے کتابیں کباڑی تک پہنچائیں اور پروفیسر کو کتابوں کے عشق نے فٹ پاتھ پر لا کھڑا کیا جہاں کتابیں زمین پر سستے داموں بکتی تھی یہ کہانی معاشرے کی بے حسی کی منہ بولتی تصویر ہے
اور پروفیسر سید نصرت بخاری صاحب نے چوپڑیاں تے دو دو پر خوبصورت تحریر پیش کی ہے جس میں نشہ پینے والوں کے کام اور باتوں کو ہلکے پھلکے مزاح کے ساتھ پیش کیا ہے پوڈری بہت چالاک ہوتے ہیں گلیوں بازاروں میں چھوٹی موٹی چوریاں کر کے اپنا گزارہ کرتے ہیں جو لوگ انہیں بے وقوف سمجھتے ہیں وہ انہیں بھی داو لگاتے ہیں بخاری صاحب کی حسِ مزاح سے چہروں پر مسکراہٹ بکھر جاتی ہے اور یہ ایک اچھے لکھاری ک خوبی ہوتی ہے
جہاں تک میرا خیال ہے کہ رسالے میں جتنے مضامین اور کلام لکھے گئے ہیں وہ سب قابل تعریف ہیں قابل رشک ہیں اور میں رسالے کے تمام لکھنے والوں کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں اور میں اس امید پر اپنا تبصرہ ختم کرتا ہوں کہ آئندہ مجھے بھی پروفیسر عثمان صدیقی صاحب اس رسالے میں شامل کریں گے اور میں بھی اس کا حصہ بننے میں خوشی محسوس کروں گا
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |