اردو کا دیدہ ور سرمد خان
اس سے لگتا ہے کہ سرمد خان نہ صرف کتابوں کا شوق رکھتے ہیں بلکہ وہ کثیرالمطالعہ بھی ہیں۔ وہ جس گھر میں رہتے ہیں وہ گھر ہی نہیں بلکہ ایک لائبریری بھی ہے۔ جن دوستوں کو وہاں سے جو بھی کتاب پسند آئے وہ اسے ساتھ لے جانے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ ان کے لائبریری نما مہمان خانہ پر میرا اکثر آنا جانا لگا رہتا ہے۔ کتابیں پڑھنے کا مجھے بھی بہت شوق ہے مگر بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے میں زیادہ کتابیں خرید نہیں سکتا، مگر پھر بھی میرے پاس ڈھیر ساری کتابوں کا خزانہ جمع ہو گیا ہے۔ سچ پوچھو تو میرے پاس جتنی بھی کتابیں ہیں وہ ساری میں نے سرمد خان صاحب کے گھر سے آچکی کی ہیں۔
انہیں اردو کتابوں کی ترویج اور علم کے فروغ سے جتنا جنون ہے، وہ کسی بھی لمحے اردو علم و ادب کے فروغ کے لیئے کوئی بڑا قدم اٹھا سکتے ہیں۔
انسانی تاریخ کے جتنے بھی مفکر اور دانشور گزرے ہیں وہ غوروفکر اور مطالعہ کے شوقین ہوتے تھے اور اس میں اتنے مگن رہتے تھے کہ انہیں اس کے سوا کوئی دوسرا کام نہیں آتا تھا جس وجہ سے ان کی مالی حالت بہت پتلی ہوتی تھی مگر وہ علم کے آسمان پر اسی وقت جگمگائے جب سرمد خان جیسے کسی علم دوست انسان نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
اللہ پاک اس علم پرور ہستی کو لمبی عمر عطا فرمائے تاکہ، وہ علم کے گلشن کا یہ کاروبار تادیر تک چلاتے رہیں۔ انہوں نے اردو علم و ادب کے فروغ کے لیئے 2023ء میں "اردو بکس ورلڈ” کی بنیاد رکھی اور پھر دسمبر 2024 میں "اردو ریسرچ بکس” بھی قائم کر دی۔ دنیا کے اسلامی شہروں میں شارجہ کو علم کے فروغ کے لیئے دنیا بھر میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ متحدہ عرب امارات میں کتاب میلوں کی بنیاد شارجہ کے عزت مآب حکمران ڈاکٹر سلطان بن محمد القاسمی نے رکھی تھی۔ سرمد خان صاحب شارجہ کے آخری دو بک فیئرز پر "اردو بکس ورلڈ” کا سٹال لگا کر اردو شعر و ادب اور فن سے محبت کرنے والوں کو کتب کی فراہمی کی سہولت فراہم کر چکے ہیں۔ امسال انہوں نے ابوظہبی بک فیئر میں بھی حصہ لیا۔ ان کی کوششوں کی وجہ سے "ابوظہبی بک فیئر اتھارٹی” نے اس سال "جناح پولین” کے نام سے انہیں اردو کتابوں کی نمائش اور فروخت کے لیئے پہلے سے زیادی بڑی جگہ فراہم کی۔
سال رواں ابوظہبی بک فیئر 9 روز تک جاری رہا جس میں اورسیز پاکستانیوں سمیت دیگر ممالک میں اردو میں دلچسپی رکھنے والے مہمانوں نے بھی بھرپور دلچسپی لی۔ خاص طور پر پاکستانی سفیر محترم فیصل نیاز ترمذی صاحب ان 9 دنوں میں 6 بار اردو بکس ورلڈ کے پولین پر تشریف لائے۔ ایک دوسری اچھی پیش رفت یہ ہوئی کہ اردو بکس ورلڈ پر ابوظہبی جیل کے ایک لوکل افسر نے بھی وزٹ کیا اور اردو کتابوں میں دلچسپی لیتے ہوئے قیدیوں کے مطالعہ کے بیک وقت 7 ہزار درہم کی کتابیں خریدیں۔
اردو دنیا کی تیسری سب سے بڑی زبان ہے اور یہ نہ صرف انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش وغیرہ میں بولی جاتی ہے، بلکہ دنیا کے جن جن ممالک میں بھی پاکستانی اوورسیز موجود ہیں وہاں کے لوگوں کا بھی ایک خاصہ بڑا حصہ اردو کو سمجھتا ہے۔ خاص طور پر خلیجی ممالک کے 50 فیصد سے زیادہ عربی اردو بول چال جانتے ہیں۔ بہت سے عربی لوکل سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اومان، کویت اور قطر میں ایسے ہیں جو اردو زبان سے عشق کی حد تک محبت کرتے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں نے لاہور اور کراچی کی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی اور کچھ ایسے ہیں جنہوں نے اردو زبان اپنے ہی ملک میں رہ کر شوقیہ طور پر سیکھی۔ ایک دو شخصیات کو تو میں بھی جانتا ہوں جن میں امارات کے ڈاکٹر زبیر فاروق العرشی اور سعودی عرب کی ڈاکٹر سمیرا عزیز سرفہرست ہیں۔ ان دونوں نے اردو میں درجنوں کتابیں تحریر کی ہیں اور یہ دونوں اردو کے معروف شاعر بھی ہیں۔
مکرمی! سرمد خان نے اردو فن و ادب کی جو شمع جلائی ہے اس کی جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔ اس مد میں وہ جن حکام سے ملتے ہیں یا جتنی بھی جدوجہد کرتے ہیں، میں اس کا چشم دید گواہ ہوں۔ دعا گو ہوں کہ اردو لوورز پر ان کا سایہ تادیر قائم رہے: اقبال نے ایسی ہی نابغہ روزگار شخصیات کے لیئے کہا تھا: "ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے، بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔”

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |